• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دنوں پنجاب کے مختلف شہروں میں اسموگ کے اثرات سے بچائو کے لیے اسمارٹ لاک ڈائون نافذ کیا جارہا ہے۔ تاہم، تعلیمی و کاروباری اداروں کی بندش اور ٹریفک کے بہائو میں کمی کے باوجود ماحولیاتی آلودگی جوں کی توں ہے اورشہریوں کی زندگی پراسموگ کے بہت منفی اثرات بھی مرتّب ہو رہے ہیں۔ مزید تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ’’اسموگ‘‘ درحقیقت دو الفاظ ’’اسموک‘‘ (دُھویں) اور ’’فوگ‘‘ (دُھند) کا مجموعہ ہے اور اِسے ’’زمینی اوزون‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اسموگ کاربن مونوآکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور میتھین سمیت دیگر مختلف زہریلے کیمیائی مادّوں پر مشتمل ہوتی ہے، یہ فضائی آلودگی اورآبی بخارات کے سورج کی روشنی میں دُھند سے ملنےکے نتیجے میں وجود میں آتی ہے اور اِس کی موجودگی میں ہمیں فضا کہیں زیادہ آلودہ اورسانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔

آج سے چند برس قبل تک موسمِ سرما کےآغاز پر ہمیں ایک خُوش گوار تبدیلی کا احساس ہوتا تھا، لیکن ماحولیاتی آلودگی میں اضافےکےباعث اب یہ تبدیلی تکلیف دہ اسموگ کی صورت ظاہر ہوتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے اکتوبر کے اخیر ہی سےاسموگ کا آغاز ہو جاتا ہے اور پھر نومبر کے اختتام یا دسمبر کی ابتدا تک یہ فضا میں موجود رہتی ہے۔ اس عرصےمیں اگر بارش ہوجائے، تو یہ جلد ختم ہو جاتی ہے، وگرنہ اس کا دورانیہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دیگر موسموں کی طرح بارش کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے اوراس کےنتیجے میں بارشوں کے دورانیے میں بھی خاصی کمی واقع ہوگئی ہے، جس سے اسموگ مزید شدّت کرتی جا رہی ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان و بھارت اور چین اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور لاہور، نئی دہلی اور بیجنگ میں ہر سال لاکھوں افراد اِس کے باعث مختلف طبّی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔

دوسری جانب اسموگ اور موسمی تغیّرات کے اثرات کم کرنے کے لیے دُنیا بَھر میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس ضمن میں بین الاقوامی ادارۂ صحت کا کردار خاصا اہم ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ماحولیاتی آلودگی کے سبب ہر سال دُنیا بھر میں کم و بیش 70لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اسموگ بھی ماحولیاتی آلودگی ہی کاشاخسانہ ہے، جس سے جلدازجلد نجات حاصل کرناضروری ہے۔ پاکستانی حکومت بھی اسموگ پرقابو پانے کے لیے مختلف اقدمات کررہی ہے، جن میں زیادہ دُھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی اور اینٹوں کے بُھٹّوں کو زِگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا قابلِ ذکر ہیں۔

اسموگ کےنتیجے میں زیادہ تر شہری کھانسی، نزلہ، زکام سمیت سانس کے مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جب کہ دَمے کے مریضوں کو اس دوران اور زیادہ احتیاط برتنا پڑتی ہے، کیوں کہ اس موسم میں ذرا سی بےاحتیاطی، لاپروائی کے سبب دَمہ سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ کے دوران دَمے کے مریضوں کو باقاعدگی سے پھیپھڑوں کی مضبوطی کے لیے ورزشیں کرنی چاہئیں۔ علاوہ ازیں، عام افراد کو بھی اسموگ کے منفی اثرات سے بچائو کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت فیس ماسک اور گلاسز پہننے چاہئیں، جب کہ بِلاضرورت گھر سے باہرنکلنا ہی نہیں چاہیے۔ نیز، اسموگ سے متاثر ہونے کی صورت میں فوراً کسی جنرل فزیشن سے رابطہ کرنا چاہیے۔