مائدہ کا آسمان سے نزول: مولانا مفتی محمد شفیع ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ مائدہ آسمان سے نازل ہوا تھا یا نہیں؟ اس حوالے سے مفسّرین کا اختلاف ہے، جب کہ جمہورِ امّت نزول کے قائل ہیں۔ چناں چہ جامع ترمذی کی حدیث میں حضرت عمّاربن یاسرؓ سے منقول ہے کہ ’’مائدہ آسمان سے نازل ہوا۔ اس میں روٹی اور گوشت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ خیانت نہ کرو، نہ اگلے دن کے لیے ذخیرہ کرو۔ مگرانہوں نے خیانت بھی کی اور جمع بھی کیا اور اگلے دن کے لیے اٹھا بھی رکھا، تو ان کے چہرے مسخ کرکے بندر اور خنزیر جیسے بنا دیے گئے۔‘‘(جامع ترمذی، حدیث3061)۔ پس، وہ بندر اور خنزیر کی صُورت میں مسخ ہوئے۔ نعوذ باللہ من غضب اللہ مومن۔ بندے کو لائق نہیں کہ وہ اس قسم کی فرمائشیں کرکے اللہ کو آزمائے اور معجزات کا مطالبہ کرے۔ (معارف القرآن،268/3)۔
حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف خوف ناک سازش: مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ شادی کی، نہ رہائش کے لیے گھر بنایا۔ وہ شہر، شہراور گائوں گائوں اللہ کا پیغام سناتے اور دینِ حق کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے۔ جہاں رات آپہنچتی، وہیں حالتِ بے سروسامانی میں شب بسر کرلیتے۔ چوں کہ اُنؑ کی ذاتِ اقدس سے مخلوقِ خدا جسمانی اور روحانی شِفا اور تسکین پاتی تھی، اس لیے عام خلقت اُنؑ سے والہانہ عقیدت و محبت کرتی۔ یہود کو نہ صرف اُنؑ کی دعوتِ حق کے ساتھ بغض و عناد تھا، بلکہ عوام میں اُنؑ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اُن کی برداشت سے باہر تھی۔ محراب و منبر سے علمائے یہود وکاہن، فقیہوں، سرداروں کے حسد و عناد سے بھرپور پروپیگنڈے کی ناکامی کے بعد انہوں نے انتہائی قدم کے طور پر بادشاہِ وقت کو مشتعل کرکے حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کو تختۂ دار پر چڑھانے کی سازش تیار کی۔
دشمنِ یہود بادشاہ کے دربار میں: گزشتہ چند صدیوں سے یہود کے ناگفتہ بہ حالات کی بدولت اس زمانے میں یہودیہ کے بادشاہ ’’ہیرودس‘‘ کی حکومت اپنے باپ، دادا کے علاقے میں بمشکل ایک چوتھائی حصّے پر قائم تھی اور وہ بھی برائے نام، جب کہ اصل حکومت و اقتدار بُت پرست شہنشاہ، قیصرِ روم کو حاصل تھا اور اس کے حکم پر یہودیہ کے اکثریتی علاقے کا گورنر یا بادشاہ مقرر کیا جاتا تھا۔ یہود اگرچہ بُت پرست بادشاہ کے اقتدار کو اپنی بدبختی سمجھ کر متنفر تھے، لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف قلوب میں حسد کی آگ نے صدیوں کی غلامی سے پیدا شدہ پست ذہنیت کے حامل اُن یہود کو اندھا کردیا تھا۔
چناں چہ ایک دن اُن کے مرکزی نمائندے جمع ہوکر بادشاہ کے دربار میں جا پہنچے اور عرض کیا۔ ’’عالی جاہ! یہ شخص ہم سب کے لیے شدید خطرہ بنتا جارہا ہے۔ اس شخص نے عجیب و غریب شعبدے دکھاکر خلقت کو اپنا گرویدہ اور لوگوں کو بے دین کر ڈالا ہے۔ اب یہ عوام کی اس طاقت کے بل پر قیصرِ روم اور آپ کو شکست دے کر بنی اسرائیل کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے فتنے کو فوری طور پر کچل ڈالنا بہت ضروری ہے۔‘‘
حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھانے کا مکروہ منصوبہ: غرض کافی گفت و شنید کے بعد بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو گرفتار کرکے شاہی دربار میں پیش کریں۔ بنی اسرائیل کے سردار، فقیہ اور کاہن اس فرمان سے بہت مسرور ہوئے اور فخر ومباہات کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ آپس میں طے پایا کہ نہایت رازداری کے ساتھ اس خاص موقعے کا انتظار کیا جائے کہ جب خلوت و تنہائی میں انھیں اس طرح گرفتار کیا جائے کہ عوام کو خبر نہ ہونے پائے۔
ایک طرف یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کی سازش میں مصروف تھے، تو دوسری جانب ربِّ کریم اپنے محبوب بندے کے ساتھ تھا۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی، اور اللہ بہترین خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سے ہے۔‘‘ اس وقت اللہ نے فرمایا کہ ’’عیسیٰ ؑ !میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدّت پوری کرکے تمہیں اپنی طرف اٹھالوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کردوں گا۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران، 54-55)۔
حواریوں سے خطاب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی سازشوں کا علم ہوا، تو انہوں نے اپنے حواریوں کو ایک جگہ جمع کیا اور اُن سے فرمایا کہ ’’بنی اسرائیل کے سرداروں اور کاہنوں کی معاندانہ سرگرمیاں تم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اب وقت کی نزاکت اور کڑی آزمائش و امتحان کی گھڑی تقاضا کرتی ہے کہ میں تم سے سوال کروں کہ تم میں وہ افراد کون ہیں، جو اس کفر و انکار کے سیلاب کے سامنے سینہ سپر ہوکر خدا کے دین کے ناصر و مددگار بنیں گے؟‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ کا یہ ارشادِ مبارک سُن کر سب نے جوش و خروش اور صداقتِ ایمانی کے ساتھ جواب دیا۔ ترجمہ:’’ہم اللہ کے طرف دار اور آپ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہیں کہ ہم فرماں بردار ہیں۔ اے پروردگار! جو کتاب تُونے نازل فرمائی ہم اُس پر ایمان لائے اور ہم صدق دل سے تیرے پیغمبر کے پیروکار ہیں، تُو ہمیں ماننے والوں میں لکھ لے۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران، 53,52)۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی نگرانی میں مصروف بادشاہ کے مخبروں نے ایک روز سرداروں اور کاہنوں کو اطلاع دی کہ اس وقت یسوع مسیح لوگوں کی بھیڑ سے الگ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک بند مکان میں موجود ہیں۔ اطلاع ملتے ہی وہ لوگ موقعے پر پہنچ گئے اور چاروں طرف سے مکان کو گھیر لیا۔ (قصص القرآن، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، جلد،4 صفحہ 353)۔
حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمانوں پر اُٹھالیا گیا: روایت میں ہے کہ مکان کا محاصرہ کرنے والے یہودیوں کی تعداد چار ہزار تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی تعداد کتنی تھی۔ بارہ، چودہ یا سترہ؟ وہ کون شخص تھا، جس کے چہرے کو آپ کی شکل دی گئی؟ ان سوالات کے مفسّرین کی کتب میں مختلف جوابات ہیں۔ ہم نے علّامہ ابنِ کثیر کی شہرئہ آفاق کتاب،’’ قصص الانبیاء‘‘ میں درج واقعے کا انتخاب کیا ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلانا چاہا، تو آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھر آئے، آپ کے ساتھ بارہ حواری تھے۔
آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے، جسے میری شکل دے دی جائے، اور پھر وہ میرے بدلے قتل کردیا جائے، تو وہ جنّت میں میرے درجے میں میرے ساتھ ہوگا۔ تو ایک نوجوان شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ میں حاضر ہوں۔ آپؑ نے اُسے بٹھایا اور پھر پوچھا، لیکن پھر وہی شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ مَیں حاضر ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ ہاں، آپ ہی وہ ہیں، تو پھر اس جوان کی شکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہوگئی۔ آپ نے اسے اپنا کُرتا اورعمامہ عطا فرمایا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھر کے روشن دان سے آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ یہود نے آپ کی شبیہ، یعنی آپ سے مشابہ شخص کو پکڑ کر سولی پر چڑھادیا۔ جو سات روز تک سولی پر رہا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے مریم ؑ کے بیٹے حضرت عیسیٰ مسیح ؑکو جو اللہ کے پیغمبر تھے، قتل کردیا ہے، حالاں کہ نہ تو انہوں نے عیسیٰ ؑ کو قتل کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھایا، بلکہ ان کے لیے ان کو (عیسیٰ ؑ کا مشابہ) بنا دیا گیا تھا، جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئ ظن کے سوا انھیں اس کا مطلق علم نہیں اور انہوں نے عیسیٰ ؑ کو یقیناً قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء آیات نمبر 158,157)۔ابنِ جریرؒ لکھتے ہیں کہ انجیل جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، تو آپؑ کی عمر ِمبارک تیس سال تھی اور پھر آپؑ سرزمین پر تینتیس سال تک رہے، جس کے بعد آپؑ کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ جب کہ انجیل آپ پر اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی۔ (قصص ابنِ کثیر، صفحہ 652)۔
نبوّت کی مدّت ڈھائی سال: علامہ ابنِ سعد لکھتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار نو سو سال گزرے۔ اِن دونوں پیغمبروں کے درمیانی عہد میں بنی اسرائیل میں ایک ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے، اس کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان پانچ سو انہتر (569) سال کا فاصلہ ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان پر اٹھائے گئے، تو اُن کی عُمر بتیس سال چھے ماہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں رُوح مع جسم اُٹھایا۔ وہ اس وقت زندہ ہیں، قیامت سے قبل دنیا میں واپس آئیں گے اور سب لوگوں کی طرح وفات پائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بستی کا نام ناصرہ تھا، تواُن کے اصحاب کو ناصری بھی کہتے تھے، جب کہ نصاریٰ کا نام بھی اسی لیے نصاریٰ پڑا۔ (طبقاتِ ابنِ سعد، صفحہ 69/1)۔
حلیہ ٔ مبارک: حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کا حُلیہ مبارک کیسا تھا؟ اس سلسلے میں چند مستند حدیثِ مبارکہ پیش خدمت ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’شبِ معراج میں، مَیں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا تھا۔ درمیانہ قد، میانہ جسم، رنگ سرخی مائل اور سفیدی لیے ہوئے اور سر کے بال سیدھے تھے۔(صحیح بخاری، حدیث 3239)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا، ’’میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا، وہ میانہ قد اور نہایت سرخ و سفید رنگ والے تھے۔ ایسے تروتازہ اور پاک و صاف کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل کرکے نکلے ہیں۔ (صحیح بخاری حدیث 3394)۔
حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ رات مجھے کعبے کے پاس خواب میں دکھایا گیا کہ ایک گندمی رنگ کے بہت خُوب صُورت آدمی تھے۔ اُن کے لمبے، خُوب صُورت بال تھے۔ انہوں نے کنگھا کیا ہوا تھا اور ان سے پانی ٹپک رہا تھا، وہ دو آدمیوں کے سہارے بیت اللہ کا طواف کررہے تھے۔ مَیں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ مسیح ابنِ مریم علیہ السلام ہیں۔ (صحیح بخاری، 6999)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’مَیں دنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام سے قریب ترہوں۔ میرے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ تمام نبی آپس میں پدری بھائی ہیں۔‘‘(صحیح بخاری، 3443,3442)۔
قیامت کے قریب نزول اور وفات: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا، ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک عیسیٰ ابنِ مریم ؑکا نزول ایک عادل حکم راں کی حیثیت سے تم میں نہ ہولے۔ وہ صلیب کو توڑدیں گے۔ سوّروں کو قتل کردیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ اُس دَور میں مال و دولت کی اتنی کثرت ہوجائے گی کہ کوئی اسے قبول نہ کرے گا۔(صحیح بخاری، 2476)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امّتی کی حیثیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول، امّتِ مسلمہ کی قیادت و رہنمائی، فتنہ دجال کی سرکوبی، خنزیر کا قتل، صلیب کا توڑاجانا، یاجوج ماجوج کا خاتمہ، فسق و فجور کا سدِّباب، امن و امان کا قیام، اسلام کا بول بالا، قُرب قیامت کی وہ حقیقتیں ہیں، جن کا تذکرہ احادیثِ مبارکہ کی تمام کتب میں موجود ہے۔ حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام چالیس یا پینتالیس سال تک دنیا میں رہیں گے۔ آپ شادی کریں گے، اولاد ہوگی، پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پائیں گے۔ آپ کو روضۂ اطہرؐ میں دفنایا جائے گا، جہاں ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ (قصص الانبیاء، صفحہ 240)۔
عقیدئہ تثلیث: ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’آپ کہہ دیجیے کہ اللہ ایک ہے۔ معبودِ برحق، بے نیاز ہے، نہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہم سَر نہیں۔‘‘ (سورئہ اخلاص) نصاریٰ نے اللہ کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، روح القدس، حضرت یعنی جبرائیل علیہ السلام اور حضرت مریم ؑکو بھی خدا کا درجہ دے دیا تھا۔ نصاریٰ بھی یہودیوں کی طرح تین فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔اوّل قسطوریہ، یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔
دوسرا یعقوبیہ، ان کا کہنا تھا کہ مسیح عین خدا ہیں اور یہ بہ شکل مسیح دنیا میں اُترا۔ تیسرا ملکائیہ، ان کا دعویٰ تھا کہ وحدت کا راز تین میں پوشیدہ ہے، یعنی باپ، بیٹا اور مریم، اس جماعت میں بھی دو گروہ تھے۔ دوسرا گروہ حضرت مریم ؑکی جگہ روح القدس کو شامل کرتا تھا۔ غرض، وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ثالث ثلاثہ تسلیم کرتے تھے۔ (معارف القرآن، 618/2)۔قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اے اہلِ کتاب اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح ؑ، مریم ؑ کے بیٹے، اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ گو تھے اور تین خدا کہنے سے باز آجائو۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ اللہ ہی معبودِ واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اُسی کا ہے اور اللہ کارساز ہے۔‘‘ (سورۃ النساء، 171)۔
ایک اور جگہ فرمانِ الٰہی ہے۔ ’’اور کہتے ہیں کہ اللہ بیٹا رکھتا ہے، تم بہت بُری بات زبان پر لاتے ہو۔ قریب ہے کہ اس (اختراع) سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں اور وہ اللہ کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہیں اور اللہ کو شایانِ شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔ تمام لوگ، جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سب اللہ کے رُوبرو بندے ہوکر آئیں گے۔‘‘ (سورئہ مریم ؑ، 88 تا 93)۔ (ختم شد)