برطانیہ کے عوام نے حال ہی میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ دے دیا ہے ۔ اس فیصلے سے ’’ ریاست ہائے متحدہ یورپ ‘‘ کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی پیش گوئی ایک صدی قبل 1915 میں سوویت انقلاب کے بانی بلادیمیر لینن نے کر دی تھی ۔ لینن نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ ریاست ہائے متحدہ یورپ بنانے کی کوشش کی جائے گی لیکن عالمی لوٹ مار پر پھر جھگڑا ہو گا اور نہ صرف متحدہ یورپ کا خواب چکنا چور ہو جائے گا بلکہ یورپ واپس تصادم اور جنگوں کی راہ پر گامزن ہو جائے گا ۔ متحدہ یورپ کا تصور تقریباً دو صدی پرانا ہے ، جب صنعت کاری نے نو آبادیاتی اور استعماری طاقتوں کی اس صلاحیت میں اضافہ کر دیا تھا ، جس کے ذریعے انہوں نے دنیا کی غریب اقوام کے استحصال اور لوٹ مار کی رفتار تیز کر دی تھی ۔ اس لوٹ مار میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے یہ استعماری طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ جنگوں میں الجھ گئی تھیں ۔ جنگوں کی تباہ کاریوں نے ان میں یہ تصور پیدا کیا کہ آپس میں لڑنے کی بجائے متحد ہو کر لوٹ مار اور استحصال سے اپنا حصہ پرامن طور پر حاصل کیا جائے ۔یعنی متحدہ یورپ کے تصور کا ماخذ بھی وہی عالمی لوٹ مار تھی ، جس کے لیے آپس میں جنگیں ہو رہی تھیں ۔ کارل مارکس نے جب 1848 ء میں اپنا ’’ کمیونسٹ مینی فیسٹو ‘‘ لکھا تھا ، اس وقت بھی ریاست ہائے متحدہ یورپ کا تصور موجود تھا ۔ کارل مارکس نے اسی کمیونسٹ مینی فیسٹو میں یہ تحریر کیا تھا کہ ’’ مقامی اور قومی تنہائی اور خود کفالت کی بجائے سرمایہ داری ریاستوں کوہر سمت میں باہمی ربط کی طرف لے جائے گی اور قوموں کا ایک دوسرے پر عالمگیر باہمی انحصار پیدا ہو گا ۔ ‘‘ 1893 میں کارل مارکس کے دوست اینگلس سے بھی دریافت کیا گیا تھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ یورپ کی تشکیل ممکن ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ یقیناً ہر چیز اسی سمت میں جا رہی ہے ۔ ہمارے نظریات یورپ کے تمام ملکوں میں پھیل رہے ہیں ۔ اینگلس کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ سوشلسٹ تحریک کی وجہ سے یورپ متحد ہو جائے گا ۔ لینن بھی کچھ عرصہ تک ریاست ہائے متحدہ یورپ کے نعرے کی بوجوہ مخالفت نہیںکرتے تھے لیکن انہوں نے بعد ازاں اس سوال پر اپنی پارٹی میں مباحثے کرائے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ریاست ہائے متحدہ یورپ کا تصور درست نہیں ہے ۔ 1915 میں لینن نے اس سوال پر جو مقالہ تحریر کیا تھا ، اسے اس مختصر کالم میں دہرانا ممکن نہیں ہے لیکن اس مقالے کا مرکزی خیال یہ تھا کہ استعماری طاقتوں اور لٹیروں کا اتحاد نہیں ہو سکتا اور وہ کسی وقت بھی دوبارہ آپس میں لڑ پڑیں گے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ریاست ہائے متحدہ یورپ لازمی طور پر ایک ایسے معاہدے کے مترادف ہو گا ، جس کے تحت نو آبادیات کے حصے بخرے کر دیئے جائیں ۔ اس تقسیم کے لیے طاقت کے علاوہ کوئی دوسرا اصول یا کوئی دوسری بنیاد نہیں ہو سکتی ۔ یہ خیال احمقانہ اور ناشائستہ ہے کہ کوئی دولت مند کسی دوسرے کو اپنی دولت میں کسی وجہ کے بغیر حصہ دار بنائے ۔ وہ اس وقت حصہ دار بنائے گا ، جب اس کی حصے والی دولت سے اس کو زیادہ ملنے کی توقع ہو ۔ لینن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرمایہ عالمگیر اور اجارہ دار ہو گیا ہے اور اس وقت یورپ کی چار بڑی استعماری طاقتوں برطانیہ ، فرانس ، روس اور جرمنی نے نصف کرہ ارض کو اپنی نو آبادیات بنا رکھا تھا ۔ لینن کے بقول سرمایہ داروں اور استعماری ریاستوں کے مابین اتحاد کا عارضی معاہدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایک طرف تو یورپ کو امریکا اور جاپان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت اور ان کے بڑھتے ہوئے استعماری کردار سے خطرہ ہے اور دوسری طرف انڈیا ، چین ، ترکی اور فارس نے برطانیہ ، جاپان ، روس اور فرانس کے خلاف آزادی کی جنگ شروع کر رکھی ہے لیکن بقول لینن ریاست ہائے متحدہ یورپ کا خواب پورا نہیں ہو گا اور یہ معاہدہ زیادہ دیر نہیں چلے گا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کوئی اتحاد ممکن نہیں ہے ۔ سوشلزم میں نہ صرف ریاست ہائے متحدہ یورپ بن سکتا ہے بلکہ ریاست ہائے متحدہ عالمی بھی وجود میں آ سکتا ہے ۔ ایک صدی پہلے لینن نے جو پیش گوئی کی تھی ، وہ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ درست ثابت ہوئی ۔ ریاست ہائے متحدہ یورپ کی کوششوں میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں کا میدان یورپ تھا ، جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے یورپ کی استعماری ریاستوں کو تنگ نظر قوم پرستی اور فاشزم کے راستے پر ڈال کر تباہ و برباد کر دیا تھا ۔ کروڑوں افراد ان جنگوں میں کام آئے ۔ اس کے بعد پھر یہ احساس ہوا کہ دنیا میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے اور وہ وقت چلا گیا ، جب دنیا کے فیصلے یورپ کی نوآبادیاتی قوتیں کرتی تھیں ۔ اس احساس میں ریاست ہائے متحدہ یورپ کا خیال پھر مضبوط ہوا اور یہ معاملہ آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم نے اس خواب کو چکنا چور کر دیا ۔ یورپ کے سرمایہ داروں اور کثیر القومی سامراجی اداروں نے یورپ کے اتحاد کے لیے جو محدود اور نامکمل کوششیں کی تھیں ، خطرہ یہ ہے کہ اب یہ کوششیں مخالف سمت میں ہوں گی ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نئے بحران نے نہ صرف یورپی اتحاد کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے بلکہ یورپ کے حصے بخرے ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضادات کو ابھرنے سے یورپی ریاستیں نہیں روک سکتی ہیں ، جن کا استعماری کردار پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہو گیا ہے ۔ان ریاستوں کواپنے سرمایہ داروں کے نئے ایجنڈے پر چلنا ہو گا۔ یورپ کے سرمایہ دار اب دنیا کے دیگر خطوں میں ابھرتی ہوئی دیگر معیشتوں سے اپنے طور پر نمٹنا چاہتے ہیں اور وہ سابقہ نو آبادیات میں اپنی کم ہوتی ہوئی گرفت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے پرانے طریقے اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے یورپ کے اندر معاندانہ رویوں میں اضافہ ہو گا ۔ یورپی ریاستیں الگ الگ ہو کر اورسخت گیر قوم پرستی میں لپٹے اپنے انفرادیایجنڈے کے ساتھ سامراجی مفادات کی جنگوں میں کود سکتی ہیں ۔بہت ہو گیا۔نصف کرہ ارض کواپنی نو آبادیات کے طور پر کنٹرول کرنے والا یورپ اب بدلتے ہوئے عالمی حالات میں اپنا ماضی دہر اناچاہتا ہے ۔ نہ صرف یورپ میں اقتصادی اور سماجی انتشار پیدا ہو سکتا ہے اور یورپ ایک دوسرے کی مخالف قوموں اور اتحادوں میں تقسیم ہو سکتا ہے بلکہ پوری دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ اور غیر مستحکم ہو سکتی ہے ۔