کانگریس نے سات صوبوں میں اقتدار سنبھالتے ہی تمام اسکولوں اورحکومتی اداروں میں بندے ماترم کاگیت لازمی قراردِیا اور مسلمانوں کو اِسے گانے پر مجبور کیا۔ اِس کے خلاف پورے ہندوستان میں شدید ردِعمل آیا۔ پیرپور رِپورٹ نے یہ حقیقت بیان کی کہ صوبہ بہار میں کانگریس نے نئی نسل پر اپنی فرقہ وارانہ سیاست مسلّط کر کے بڑے خوفناک اثرات پیدا کر دیے ہیں جن سے قومی اتحاد کو سخت نقصان پہنچاہے۔ تنگ نظر برہمن قیادت نے طالبِ علموں کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے دو مخالف گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کانگریسیوں کی مسلسل کوشش ہے کہ ہر ادارے کی عمارت پر کانگریس کا جھنڈا لہراتا ہو اَور ہر اجلاس میں بندے ماترم کا گیت گایا جائے۔ غیرفطری قوانین اور فرقہ وارانہ ذہنیت دونوں فرقوں کے درمیان تباہ کن نفرت پیدا کرنے کا باعث بنی ہے جو پہلے بھائی چارے کے ماحول میں رہ رہے تھے۔
مسلمان طلبہ نے وزیرِاعظم کے نام ایک مراسلے میں حسبِ ذیل واقعات کی نشان دہی کی:
(1) جس دن کانگریسی وزارت بنی، اُسی روز بندے ماترم گایا اور کانگریسی جھنڈا لہرایا گیا۔ (2) یومِ استقلال کے موقع پر کانگریسی جھنڈا لہرانے اور بندے ماترم کا گیت گانے کا اہتمام کیا گیا، حالانکہ مسلمان طلبہ کو یہ کہہ کر اِن تقریبات میں شرکت کی جھوٹی ترغیب دی گئی تھی کہ اِن دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہو گی۔ (3) جلسۂ تقسیمِ اسناد پر یہی عمل دہرایا جاتا رہا۔
اسکولوں کے پُرجوش اساتذہ نے فضا کو کتنا زہرآلودہ کر دیا ہے، اِس کا اندازہ سابق وزیر سیّد عبدالعزیز بار اَیٹ لا کے ایک بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان طلبہ خوش دلی سے خواندگیٔ عوام مہم کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے ہیڈماسٹر اور بعض اساتذہ کی اِس یقین دہانی پر جلوس میں شرکت کی کہ اِس میں سیاسی نوعیت کا کوئی جھنڈا شامل نہیں ہو گا اور سیاسی نوعیت کا کوئی گیت نہیں گایا جائے گا۔ یہ یقین دہانی فوراً دم توڑ گئی جب جلوس میں شامل بعض ہندو طلبہ نے کانگریسی جھنڈے کھولنے اور بندے ماترم کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ ردِعمل میں مسلمان طلبہ نے اللّٰہ اکبر کے نعرے لگائے۔ سائنس کالج تک پہنچے پہنچتے جوش بڑھتا اور فساد پھیلتا گیا۔ کم از کم دو طلبہ کو تیز دھار آلے کے زخم آئے۔ جب جلوس اُس شہ نشین میں پہنچا جہاں معزز خواتین و حضرات بیٹھے تھے، تو مَیں نے خود دَیکھا کہ ایک چودہ برس کا لڑکا ڈاکٹر سیّد محمود کے پاس کھڑا ہے اور اُس کی گردن سے خون نکل رہا ہے۔ لڑکے نے بتایا کہ اُسے ایک سکھ نے کرپان سے زخمی کیا ہے۔
ٹی کے گھوش اکیڈمی پٹنہ سے چھ مسلمان طلبہ بندے ماترم کے گیت کے خلاف احتجاج کرنے پر اسکول سے نکال دیے گئے جس پر مسلمان طلبہ نے ہڑتال کر دی۔ اسکول سے نکالے ہوئے طلبہ پھر کسی اور تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکے۔ پٹنہ کے مسلمانوں کو اُن کیلئے ایک الگ اسکول کھولنا پڑا۔
بندے ماترم گانے اور کانگریسی جھنڈا لہرانے سے اسکولوں کے معاملات نہایت سنگین صورت اختیار کر گئے۔ اِس مسئلے پر رام موہن سمیناری، نانکی پور اَور صوبے کے دوسرے اسکولوں میں گڑبڑ ہوئی۔ خواندگی کی مہم چلانے کے موقع پر بھی بندے ماترم کا گیت گانے پر مسلمان اور ہندو طلبہ میں خوفناک تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔
مخلوط طریقۂ انتخاب کے ذریعے بلدیاتی اداروں میں جس قسم کے مسلمان منتخب ہو کر آئے، وہ صحیح طور پر مسلمانوں کے مفادات کی ترجمانی نہیں کرتے، چنانچہ صوبائی مسلم لیگ بہار نے ایک قرارداد منظور کی جس میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے بائیکاٹ پر زور دِیا۔ اِسی طرح موتی ہری، دربھنگہ، سماستی پوری، کٹی ہار اَور دُوسرے مقامات پر بلدیاتی اداروں کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔
بلدیاتی اداروں میں مخلوط انتخابات کے خلاف خاصا اضطراب پایا جاتا ہے، کیونکہ کسی مسلمان کو کامیابی نصیب نہیں ہوتی جب تک اُسے کانگریس کی حمایت نہ حاصل ہو۔ یہ حمایت اُسے اُس وقت تک دستیاب نہیں ہو سکتی جب تک وہ کانگریس میں شامل نہ ہو جائے۔ فی الحال مسلمان اُس کی یہ خواہش پوری کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اُنہوں نے مزید یہ فیصلہ کیا ہے کہ ضلعی مجالس کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
گائے کے ذبیحے کی روک تھام کیلئے مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ جس وقت قصاب اپنے مویشی لے کر منڈیوں سے آتے ہیں، اُن پر حملہ کیے جاتے ہیں۔ ٘پچھلے دنوں چند قصاب موضع کالی تحصیل جہاں آباد سے مویشی لے کر آ رہے تھے، اُن پر موضع دُرمی تحصیل صدر، ضلع پٹنہ کے مقام پر ہندوؤں نے ہلہ بول دیا۔ اُن میں سے ایک پر برچھی کا شدید زخم آیا اور اُسے اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ بعض بلدیات کے خاص خاص علاقوں میں بڑا گوشت بیچنے کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں جبکہ بعض مقامات پر قصابوں کو اَپنا کاروبار کرنے کی سرے سے اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ ضلع مظفرپور کی ایک تحصیل ہاٹی پور میں مدت ہوئی کہ لائسنس روک لیے گئے ہیں۔
مسلمانوں نے بار بار شکایت کی ہے کہ دفعہ 144 محض اِس لیے عائد کی جاتی ہے کہ اُنہیں شہری حقوق اور مذہبی آزادیوں سے محروم کیا جا سکے۔ صوبائی مسلم لیگ بہار کی مجلسِ عاملہ نے ایک بیان میں تفصیل سے بتایا ہے کہ مسلمان صوبہ بہار میں کس طرح ظلم اور بےانصافی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اُس نے محکمہ بلدیات اور اُس کے حکام کے اُن احکام اور حکمتِ عملی کا جائزہ لیا ہے جو مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں ہیں اور وُہ اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جہاں تک مسلمانوں کو لازمی مذہبی اور شہری حقوق سے محروم کرنے کا تعلق ہے، اُس میں موجودہ حکومت غیرملکی دفترشاہی پر بازی لے گئی ہے۔ مجلسِ عاملہ نے اِسے ایک قومی المیہ قرار دِیا ہے کہ صوبائی خودمختاری کے تحت مسلمان اپنے آپ کو بےحد غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں۔ پریوی کونسل سمیت مختلف عدالتوں نے بار بار یہ قرار دِیا ہے کہ گائے کا ذبح کرنا مسلمانوں کا قانونی اور مذہبی حق ہے۔ اِس کے باوجود منجھول ضلع بھاگل پور کے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، وہ ظلم و ستم کی ایک الم ناک مثال ہے۔ (جاری ہے)