• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: ڈاکٹر مختار ظفر

صفحات: 256، قیمت: 800 روپے

ناشر : فِکشن ہاؤس

مصنّف بنیادی طور پر مدرّس ہیں، مختلف اداروں میں تدریس کے ساتھ تعلیم و تربیت سے متعلق کئی اہم عُہدوں پربھی فائزرہے۔ جب کہ درجنوں کتب، تحقیقی مقالے تحریر کرچُکے ہیں۔ اُنھوں نے زیرِ نظر کتاب میں عالمِ خواب میں برپا کی گئی ایک مجلس کا احوال قلم بند کیا ہے، جس کے مہمانانِ گرامی ارسطو اور حضرت شاہ ولی اللہؒ ہیں۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض افلاطون اور سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ادا کر رہے ہیں۔ شرکاء میں مولانا جلال الدین رومیؒ، شاہ شمس تبریزیؒ، حضرت بہاالدّین زکریا ملتانیؒ، شاہ شمس سبزواریؒ، خواجہ غلام فریدؒ، بابا فرید الدّین گنج شکرؒ، بابا بلّھے شاہؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، رحمٰن باباؒ، مست توکلیؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ شامل ہیں۔

مصنّف کا کہنا ہے کہ ’’ہماری سوچ نے اشارہ کیا کہ کیوں نہ اپنی دھرتی کی اُن نابغۂ عصر شخصیات سے رابطہ کیا جائے، جو عرفان و معرفت، عقل و خِرد کی ممتاز شخصیات رہی ہیں اور اُن سےزندگی کے طور، زمانے کے مزاج اور حیاتیاتی اسرار و رموز کی معلومات حاصل کی جائیں۔‘‘ بنیادی طور پر یہ سوانح نگاری ہی ہے، جس میں اِن شخصیات کے حالات ایک نئے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ یعنی ان میں سے ہربزرگ اسٹیج پر آکر اپنی حیات و خدمات کی تفصیلات شرکاء کے گوش گزار کرتا ہے۔ 

اِس کتاب میں جگہ جگہ بہت خُوب صُورت جملے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر سقراط کے تعارف میں یہ بتایا گیا کہ ’’سقراط کا کہنا تھا، برداشت سوسائٹی کی رُوح ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے، تو مکالمہ کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے، تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔ اختلاف، دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے۔ یہ فن جب تک پڑھے لکھے، عالم فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے، اُس وقت تک معاشرہ ترقّی کرتا ہے، لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے، تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کوئی عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا، جب تک اُس میں برداشت نہ آجائے اور وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔‘‘