• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیلنڈر کا آخری پنّا، جس پر موٹے حروف میں31دسمبر چھپا ہوا تھا، ایک لمحے کے اندر اس کی پتلی انگلیوں کی گرفت میں تھا۔ اب کیلنڈر ایک ٹنڈ منڈ درخت سا نظر آنے لگا، جس کی ٹہنیوں سے سارے پتّے خزاں کی پھونکوں نے اڑا دیے ہوں۔ دیوار پر آویزاں کلاک ٹِک ٹِک کررہا تھا۔ کیلنڈر کا آخری پنّا، جو ڈیڑھ مربّع انچ کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا، اُس کی پتلی انگلیوں میں یوں کانپ رہا تھا، گویا سزائے موت کا قیدی پھانسی کے سامنے کھڑا ہے۔

کلاک نے بارہ بجائے، پہلی ضرب پر انگلیاں متحرّک ہوئیں اور آخری ضرب پر کاغذ کا وہ ٹکڑا ایک ننّھی سی گولی بنا دیا گیا۔ انگلیوں نے یہ کام بڑی بے رحمی سے کیا اور جس شخص کی یہ انگلیاں تھیں اور بھی زیادہ بے رحمی سے اس گولی کو نگل گیا۔ اس کے لبوں پر ایک تیزابی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور اس نے خالی کیلنڈر کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور کہا،’’مَیں تمہیں کھا گیا ہوں۔۔۔ بغیر چبائے نگل گیا ہوں۔‘‘

اس کے بعد ایک ایسے قہقہے کا شور بلند ہوا، جس میں اُن توپوں کی گونج دَب گئی، جو نئے سال کے آغاز پر کہیں دُور داغی جارہی تھیں۔ جب تک اُن توپوں کا شور جاری رہا، اس کے سُوکھے ہوئے حلق سے قہقہے آتشیں لاوے کی طرح نکلتے رہے۔ وہ بے حد خوش تھا، بے حد خوش… یہی وجہ تھی کہ اس پر دیوانگی کا عالم طاری تھا۔ اُس کی مسرّت آخری درجے پر پہنچی ہوئی تھی۔ وہ سارے کا سارا ہنس رہا تھا، مگر اُس کی آنکھیں رو رہی تھیں اور جب اُس کی آنکھیں ہنستیں، تو آپ اس کے سُکڑے لبوں کو دیکھ کر یہی سمجھتے کہ اُس کی رُوح کسی نہایت ہی سخت عذاب سے گزر رہی ہے۔

بار بار وہ نعرہ بلند کرتا، ’’مَیں تمہیں کھا گیا ہوں… بغیر چبائے نگل گیا ہوں… ایک ایک کرکے تین سو چھیاسٹھ دنوں کو، لیپ دن سمیت!‘‘

خالی کیلنڈر اُس کے اس عجیب و غریب دعوے کی تصدیق کررہا تھا۔

(سعادت حسن منٹو کے افسانے، ’’نیاسال‘‘ سے اقتباس)

(شاہد لطیف، سرگودھا)