اصغر مہدی کاظمی
سب لوگ اب کے سال بھی آرام سے رہے
یعنی گھروں میں بند سبھی شام سے رہے
اُس کی طرف نگاہ اُٹھائی نہیں گئی
سارے گِلے ہمیں دلِ ناکام سے رہے
کچھ بارِ خاطرِ غمِ دوراں ہوئے نہ ہم
کچھ حوصلے بلند تِرے نام سے رہے
ہم دِل گرفتہ لوگ ہی بیٹھے نہ چین سے
ورنہ تری گلی میں سب آرام سے رہے
آزاد کیا ہوئےکہ بُھلا دی اُڑان بھی
سب اجنبی فضا میں تہِ دام سے رہے
اس عہدِ ناشناس و جہانِ تضاد میں
کچھ نیک نام لوگ ہی بدنام سے رہے
وہ معرکہ پڑا کہ اُلٹ ہی گئی بساط
پید ل کے ساتھ فِیل بھی ناکام سے رہے