• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نوازشریف کے ایک جملے پر ہنگامہ برپاہے۔لاہور میں مسلم لیگ(ن)کے منشور کی تقریب رونمائی کے دوران نوازشریف نے تحریک انصاف اور اسکے بانی کاذکر کرتے ہوئے کہا ’’لوگوں کو بیوقوف بنایا ہوا ہے۔چند لوگ ہمارے بیوقوف بھی بن جاتے ہیں آسانی کے ساتھ۔اور سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ ہمارے چند لوگ(میں سب کی بات نہیں کرتا)خیبرپختونخوا کے بنتے ہیں۔یہ بیماری اُدھر سے آئی ہے۔ان کو سمجھنا چاہئے کہ انہوں نے کس طرح کے بندے کو موقع دیا۔‘‘اس گفتگو کو لسانیت ،قوم پرستی اور علاقائیت کا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بعض احباب کا استدلال ہے کہ اگر کسی صوبے کے لوگ مسلم لیگ(ن)کو ووٹ نہیں دیتے تو انہیں بیوقوف قرار دے دینا ،سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔اسی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف اگر بیماری ہے تو اس کے ذمہ دار پختون نہیں بلکہ پنجابی جرنیل ہیں جنہوں نے یہ منصوبہ تیار کیا ۔خیبرپختونخوا کے عوام تو جمہوریت پسند ہیں ،اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں ،حق رائے دہی کا درست استعمال کرتے ہیں اور کسی کو دوسرا موقع نہیں دیتے۔یہ باتیں کسی حد تک درست ہیں ،ہمارے پختون بھائی واقعی مظلوم ہیں ،انہیں استعمال کیا جارہا ہے ۔ہر ملکی و غیر ملکی سازش میں پختونوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔انہیں بہادر اور غیور کہہ کر ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔پختون روایات کی تقدیس اور شان بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی رہی ہے تاکہ یہ لوگ قدامت پسندی اور انتہاپسندی کے گڑھے سے نہ نکل پائیں ۔ اگر پاکستان ایک بہت بڑی تجربہ گاہ ہے تو بزعم خود سائنسدانوں نے سب سے بڑی لیبارٹری خیبرپختونخوا میں لگا رکھی ہے۔قیام پاکستان کے بعد جب کشمیر آزاد کروانا تھا تو پختونوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھما دی گئیں ۔جنرل ضیاالحق کے دور میں افغان جہاد کا آغاز ہوا تو ایک بار پھر یہاں جہادیوں کے ٹریننگ سینٹر کھلے ۔اگرچہ پنجاب سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں اور یہاں تک کہ عرب ممالک سے بھی ریکروٹمنٹ ہوئی لیکن اس مسلح جدوجہد کا مرکز یہی خطہ بن گیا۔پختون اس گریٹ گیم کا حصہ بن کر استعمال ہوئے ،انہیں بیوقوف بنایا گیا یااپنی افتاد طبع کے باعث آلہ کار بن گئے ،کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہی ہے اس مہم جوئی کی بہت بھاری قیمت ابھی تک ادا کی جارہی ہے۔پختونوں کی ذہن سازی کی گئی کہ سپاہ گری تو آپ کے آبائواجداد کا پیشہ رہا ہے،اس خطے کو کبھی کوئی فتح نہیں کرسکا،تاریخ بتاتی ہے کہ پختونوں کو کبھی غلام نہیںبنایا جاسکا،ہتھیار تو پختون مرد کا زیور ہوتا ہے،بہادری تو آپ کے رگ وپے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔یوں بہکاوے میں آکر پختون اس کھیل کا حصہ بن گئے اورجب کھیل ختم ہوا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب مجاہدین کو دہشتگرد قرار دے دیا گیا۔

’’پروجیکٹ عمران ‘‘لانچ کرتے وقت بھی خیبرپختونخوا کو ہی ہدف بنایا گیا۔عمران خان نیازی نے کہا ،میں پٹھان ہوں،آپ میرا ساتھ دیں ،ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔نوازشریف کو پنجابی استعمار کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔جس طرح افغان جہاد کے وقت یہ جھانسہ دیا گیاتھا کہ پختونوں کو کبھی کوئی غلام نہیںبنا سکتا ،اسی طرح حقیقی آزادی اور غلامی نامنظور کا بیانیہ بنایا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون کسی کو دوسرا موقع نہیں دیتے لیکن اس قدر برین واشنگ کی گئی کہ وہ اس روایت کے برعکس دوسرا موقع دینے پر بھی تیار ہوگئے۔2013ء میں صوبائی حکومت سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی صفر تھی لیکن 2018ء میں ایک بار پھر پہلے سے زیادہ نشستیں جیت کر حکومت بنانے کا موقع دیا گیا۔کیونکہ قوم پرستی کا کا رڈ کھیلا گیا۔خیبرپختونخوا کے نوجوان کو بالخصوص ٹارگٹ کیا گیا۔کھوکھلے سیاسی نعروں اور جذباتی تقریروں کے ذریعے ایک بارپھر پختونوں کو اس آگ میں جھونک دیا گیا ۔آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ پختون کو آپ اس کی مرضی سے بہلا پھسلا کو بیشک جہنم لے جائیں لیکن زبردستی کرکے جنت بھی نہیں لے جاسکتے تو عمران خان نیازی نے پیار جتلا کر ان پختونوں کو جہنم لے جانے پر آمادہ کرلیا۔کیونکہ ترقی و خوشحالی کی جنت بنانے والوں کے پاس نہ تو کوئی بیانیہ تھا اور نہ ہی خیبرپختونخوا ترجیحات میں شامل تھا۔2014ء کے دھرنے ہوں ،لاک ڈائون کا منصوبہ ،اپریل 2022ء میں حکومت چھن جانے کے بعد حقیقی آزادی کی جدوجہد ہو،بنی گالہ کا تحفظ ہو ،زمان پارک کا حصار یا پھر 9مئی کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کے نام پر سرکاری املاک پر حملہ کرنے جیسے سنگین جرم کا ارتکاب ،پختونوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔اب اگر آپ یہ کہہ کر خود کو تسلی دینا چاہتے ہیں کہ پختون بیچارے تو محض آلہ کار بنے اور استعمال ہوئے وگرنہ حقیقی مجرم تو وہ پنجابی جرنیل ہیں جنہوں نے عمران خان کو ملک و قوم پر مسلط کیا تو آپ کی مرضی ۔حقیقت مگر یہ ہے کہ کلہاڑی جو لکڑیوں کاسینہ چیرتی جاتی ہے اس میں لکڑی کا ہی ایک دستہ لگا ہوتا جو آلہ کار کا کردار ادا کررہا ہوتا ہے۔ہتھوڑی میں بھی لوہے کی نسبت لکڑی کا کردار زیادہ اہم ہوتا ہے لیکن لکڑیوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس چیرہ دستی میں کس نے کسے استعمال کیا۔اس کے نزدیک تو کلہاڑی چلانے والے سے بنانے والے تک سب ظالم و جابر شمار ہوتے ہیں۔میاں نوازشریف نے تو یہ گلہ کرتے وقت بھی ’’ہمارے لوگ‘‘کہہ کراپنائیت کا رشتہ نہیں توڑا ۔اور پھر یہ بھی کہا کہ وہ سب کی بات نہیں کررہے ،محض چند لوگوں کا ذکر کررہے ہیں۔اس بیان کو لسانیت ،قوم پرستی اور علاقائیت سے بالاتر ہوکر دیکھیں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔بہر حال ،استاد محترم جناب عرفان صدیقی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس قدر جامع منشور تیار کیا جس میں غیر حقیقی اور جھوٹے وعدوں سے گریز کیا گیا۔خدا کرے عوام کی طرف سے مینڈیٹ مل جانے کی صورت میں اس منشور پر عملدرآمد بھی کیا جائے۔اگرچہ سست روی کا یہ عالم ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی ویب سائٹ پر جائیں تو ابھی تک 2018ء کا منشور منہ چڑاتا دکھائی دیتا ہے۔

تازہ ترین