• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس شخص کو تقریباً نصف صدی سے جانتا ہوں کیونکہ وہ میرا کالج فیلو تھا اور بعد ازاں سروسز میں آنے کے بعد ہماری شناسائی دوستی اور پھر قریبی دوستی میں بدل گئی۔ اس حوالے سے تقریباً اس کی ساری عملی زندگی میری آنکھوں کے سامنے ہے، میں اسے ایک نہایت سچا پاکستانی، ذہین انسان اور ایماندار سرکاری ملازم سمجھتا ہوں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ تین برس سے واشنگٹن کے ایک اہم بین الاقوامی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور اسکالر کام کررہا ہے۔ اپنی ذہانت اور ڈپلومیٹک بیک گرائونڈ کا فائدہ اٹھا کر وہ امریکہ کے پالیسی ساز اداروں اور اہم حکومتی اہلکاروں سے دوستانہ تعلقات استوار کرچکا ہے چنانچہ میں اس کی رائے کو معتبر اور اس کے تجزیے کو اہم سمجھتا ہوں۔
میرا اس سے مسلسل رابطہ رہتا ہے کیونکہ ہم دونوں کسی حد تک تنہائی کے مارے ہوئے ہیں۔ یوں بھی جب زندگی کی شام ہوجائے تو نئے دوست بنانا مشکل ہوجاتا ہے اور ایسے اداس اور آزاد سفر میں پرانے دوست ہی ساتھ دیتے ہیں اور بچپن یا جوانی کے مخلص یار ہی بیساکھیاں بنتے ہیں۔ اس حوالے سے سوچتا ہوں تو مجھے امجد اسلام امجد ایک خوش قسمت انسان لگتا ہے جو آج بھی اپنے اسکول فیلو کے گروپ میں ہنستا، فقرے کستا اور قہقہے لگاتا نظر آتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امجد کے ان پانچ قریبی بچپن کے یاروں میں سے تین میرے شاگرد تھے جن میں سے مکرم سید نے ہمیشہ مجھ سے رابطہ قائم رکھا ہے۔ بعض اوقات یہ شاگردی، استادی بھی بہت دلچسپ حادثہ ہوتا ہے۔ ہوا یوں کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے بمعہ آنرز کرنے کے بعد میں فوری طور پر وہیں لیکچر ار لگ گیا اور میرے وہ تمام کالج فیلوز جو مجھ سے فقط ایک سال جونئیر تھے ایم اے فائنل میں میرے شاگرد بن گئے کیونکہ میں ایم اے کلاسز بھی پڑھاتا تھا۔ ا ن حادثاتی شاگردوں میں معروف سیاستدان اور ایم پی اے عطا مانیکا بھی شامل تھا جو صرف چند ماہ قبل گورنمنٹ کالج لاہور کے ہوسٹل میں میرا پڑوسی اور ہم دیوار تھا۔ میں کبھی کبھار جب امجد کے ان یاروں کی محفل میں شریک ہوتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں پنیتالیس (45) برس کا سفر طے کرکے ایک بار پھر اس گورنمنٹ کالج میں پہنچ گیا ہوں جس کے ہر درو دیوار کے ساتھ میری یادیں وابستہ ہیں۔ دوستو! بچپن کے مخلص یار زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہوتے ہیں جو آپ کے جسم اور روح کا حصہ بن جاتے ہیں، دوران ملازمت قریب آنے والوں کی اکثریت موسمی پرندوں کی مانند ہوتی ہے جو زندگی کی دھوپ پڑتے ہی سائبریا کی جانب ا ڑ جاتے ہیں۔ یہ ایسا موضوع ہے جو زلف یار کی طرح دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر اسے سمیٹنا مشکل ہوجاتا ہے اس لئے اسے یہیں ختم کرتا ہوں۔
ہاں تو میں اس دوست کا ذکر کررہا تھا جو آج کل واشنگٹن کے بااثر حلقوں میں’’ان‘‘ ہے، وہ امریکی اہلکاروں کے ذہن میں جھانکتا اور ان کی سوچ کی چاپ سنتا ہے۔ ہماری فون پر گفتگو جاری تھی کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم محسوس کرتے ہو کہ امریکہ پاکستا ن کو توڑنا چاہتا ہے یا پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ اس نے میرا سوال سن کر ایک لمحے کے لئے توقف کیا اور پھر کہنے لگا’’سنو صفدر! میں اور تم پاکستان میں امریکی مداخلت کے سخت خلاف ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی مداخلت نے پاکستان کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی برادری ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے جانے جبکہ عالمی برادری پاکستان کو امریکی سیٹلائٹ سمجھتی ہے جو ہمارے لئے باعث توہین ہے لیکن یاد رکھو کہ ہر ملک اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور امریکہ بھی اپنے مفادات کے لئے دوسرے ملکوں کو استعمال کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سازش تھیوری اس قدر مقبول عام ہے کہ اگر آپ سچی بات بھی کریں تو آپ پر الزام لگ جاتا ہے۔ ہمارا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے جہاں ہمارے آبائو اجداد دفن ہیں اور جہاں ہم نے دفن ہونا ہے۔ اس لئے ہماری تمام تر محبت کا مرکز ہمارا ملک ہے۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ نہ پاکستان ٹوٹے گا اور نہ ہی انشاء اللہ کمزور ہوگا بلکہ اگر ہماری قیادت نے بصیرت کا ثبوت دیا تو پاکستانی قوم ان مسائل سے مستحکم قوم بن کر نکلے گی۔ رہی امریکی سوچ تو وہ واضح ہے۔ امریکی پالیسی ساز محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کا ساتھی ہے۔ 1979ء میں افغانستان پر روسی قبضے کو ختم کرنے کے لئے پاکستان نے بنیادی کردار سرانجام دیا اور پھر نائن الیون کے بعد2001ء میں ضرورت پڑی تو پاکستان امریکہ کے ساتھ کھڑا تھا اور آج تک کھڑا ہے۔ توڑا اسے جاتا ہے جو نافرمان یا باغی ہو۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان نے سیٹو سینٹو اور ایوب خان سے لے کر اب تک ہماری ہر بات مانی ہے۔ آج اگر پاکستان ٹوٹ جائے تو اس خطے میں امریکہ ایک قابل اعتماد ساتھی سے محروم ہوجائے گا جس سے امریکہ کے لئے بے پناہ مشکلات جنم لیں گی، اس لئے امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان قائم اور مستحکم رہے۔ وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ آئندہ برسوں میں جب امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا تو پاکستان کو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ وہ کسی طرح بھی اس حوالے سے بھارت پر مکمل بھروسہ نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان یہ کردار صرف مضبوط ملک کی حیثیت سے ہی ادا کرسکتا ہے، پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح انہیں چین کے لئے ہندوستانی کارڈ کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح انہیں بھارت کے لئے پاکستانی کارڈ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ وقت آسکتا ہے جب بھارت امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج شدت پسندوں اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ لڑرہی ہے اس لئے اپنے مفادات کی خاطر وہ پاکستان کو مضبوط و مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہندوستان پاکستان کو کمزور اور منقسم دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا تو میں نے پوچھا کہ یہ امریکی حضرات اکثر پاکستان کے دورے پر کیوں آتے ہیں اور کیوں بار بار پاکستان کے حکمرانوں، اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں؟ میرا سوال سن کر وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ میں نے یہ سوال ایک ذمہ دار امریکی افسر سے کیا تھا اور اس کا جواب نہایت قابل غور تھا ۔اس نے بلا جھجک مجھ سے کہا (We are looking for new horses)کہ ہمیں نئے گھوڑوں کی تلاش ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ میں نے جب سے یہ فقرہ سنا ہے میری تصوراتی نگاہوں میں پاکستانی گھوڑے گھوم رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ ہماری آزادی بھی کیا آزادی ہے!!ہم تو سپر پاور کے گھوڑے ہیں۔
تازہ ترین