مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
جنگ، سنڈے میگزین کے شمارے میں سلمیٰ پروین، کراچی کے نام سے شائع ہونے والے واقعے ’’کربھلا، ہوبھلا‘‘ سے میں مکمل طور پر متّفق ہوں کہ اللہ تعالیٰ نیکی کا صلہ، نیکی سے پہلے ہی دے کر حساب برابر کردیتا ہے۔ بلاشبہ، وہ دل اور نیتّوں کا حال جاننے والا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا، جو قارئین کی نذر کررہا ہوں۔
مَیں ہر ماہ گھر کا ضروری سامان لینے جوڑیا بازار، کراچی جاتا ہوں۔ اس بار جب سامان لے کر گھر واپس آیا، تو احساس ہوا کہ پہلے سے کچھ چیزیں زیادہ ہیں، جب کہ دکان دار کہہ رہا تھا کہ اشیاء کے دام بہت بڑھ گئے ہیں، تو پھر دکان دار نے کم رقم کیسے لی۔ میں نے تمام رسیدیں نکال کر چیک کیں، تو معلوم ہوا کہ دکان دار نے ٹوٹل کرنے میں غلطی کی ہے اور بِل کی مجموعی رقم میں پورا ایک ہزار روپیا شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔ اپنی تسلّی کے لیے دو تین بار اشیاء اور بِل کی رقم چیک کرنے کے بعد اُسی وقت فیصلہ کیا کہ اگلے ماہ جب مارکیٹ جائوں گا، تو اُس دکان دار کو اُس کی رقم واپس کردوں گا۔
پھر اگلی بار مارکیٹ جانے سے ایک روز قبل، رات ہی کو مَیں نے ایک ہزار روپے نکال کر الگ کرلیے۔ صبح اٹھ کر ناشتے کے بعد اخبار پڑھنے لگا، تو میری نظر -1500/ روپے والے بونڈز کے قرعہ اندازی کی خبر پر پڑی۔ میرے پاس کُل6بونڈ تھے۔ نمبر چیک کیے، تو18ہزار روپے کا ایک بونڈ لگ گیا تھا۔
یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار روپے دکان دار کو ادا کرنے سے پہلے ہی مجھے نیکی کا اجر دے دیا۔ مَیں فوراً بونڈ لے کربولٹن مارکیٹ گیا، کیش کروایا اور دکان دار کو پوری بات بتا کر اُسے اس کی رقم دی، تو وہ دعائیں دینے لگا۔ مَیں نے کہا، ’’اس میں میرا کوئی کمال نہیں، آپ کی حلال رقم تھی، جو آپ کو واپس مل گئی، آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صرف صحت کی دُعا کریں، مَیں آپ کا شُکر گزار رہوں گا۔‘‘ (خواجہ شبیہ الحسن، ناظم آباد،کراچی)