• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عہد حاضر میں سائنسی ترقی کی بدولت الیکٹرونک میڈیا اتنی ترقی کر چکا ہے کہ نظریات پرست یا بنیاد پرست اس پر جتنی بھی پابندیاں لگادیں، پہرے بٹھا دیں یا بندشیں لگا دیں بالآخر وہ ناکام و ناکارہ ہی ثابت ہوں گی۔ ان کی تمام تگ و دو ایک دیوانے کا خواب ہی ثابت ہو گی حتّیٰ کہ اس ضمن میں مسلمانوں کی غیر جمہوری اور جابر حکومتیں بھی بے بس اور لاچار ہو کر رہ گئی ہیں۔
اگر مذہبی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹی وی، ریڈیو، ویڈیو، انٹرنیٹ، ڈی وی ڈی، سی ڈی، آڈیو، وی سی، کیبل، سوفٹ ویئر، سینما، موبائل فون، ریڈیو فون،پرنٹ میڈیا غرض کہ یہ تمام الیکٹرونک میڈیا گمراہی کا مؤجب ہے تو میرے حساب سے ’’ہدایت‘‘ بھی اسی راستے سے پھیلے گی جس راستے سے ’’گمراہی‘‘ پھیلی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے گمراہی پھیل رہی ہے تو کیا ہم ٹی وی ختم کر دیں؟ علمائے کرام اپنے ٹی وی چینل کا آغاز کریں۔ دین و مذہب کی تبلیغ کے لئے اور اسلام کے بارے میں پروگرام پیش کریں۔ کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ اسی طرح انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے دوری ممکن نہیں ہے۔ مذہب کے پرچار کے لئے آپ انٹرنیٹ کا سہارا لے سکتے ہیں۔ یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’’گمراہی‘‘ کا جواب ’’ہدایت‘‘ سے دیں۔ آخر آپ دوسرے فریق (گمراہ) سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اخراجات اور اپنی محنت و مشقت پر آپ کے مؤقف ’’ہدایت‘‘ کو پروجیکٹ کرے۔ انٹرنیٹ پر جو بچّے خاصا وقت صرف کرتے ہیں ان پر منفی اور مثبت ہر دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جہاں بعض بچّے انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اپنے تعلیمی مظاہرے میں بہتری پیدا کر لیتے ہیں وہیں دیگر انٹرنیٹ کے ذریعے ایسی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو کہ ان کے حق میں مضرثابت ہو سکتی ہیں۔ ان کے نہ صرف اخلاق و کردار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں بلکہ دوسرے مذاہب کا احترام بھی رخصت ہو جاتا ہے۔ایک دوسرے کے مذاہب اور مذہبی شخصیات کو برا بھلا کہتے ہوئے نوجوانوں میں اپنے مذہب کو بہتر ثابت کرنے کی احمقانہ کوششیں باالفاظ دیگر غلط فہمیوں کو بڑھانے، انتہاپسندی کو فروغ دینے اور نفرت کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیمیں بے دریغ اس میڈیم کو استعمال کر رہی ہیں۔
کسی بھی قسم کے انتہاپسند عناصر انٹرنیٹ سائٹس کے ذریعے اپنا پرچار کرنے میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ انٹرنیٹ سب کے لئے ایک اہم ذریعۂ تشہیر بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ ٹریفک پر نظر رکھنے والی ایجنسیوں نے گزشتہ دنوں جب انٹرنیٹ پر ٹریفک کے بہائو سے متعلق اعداد و شمار جاری کئے تو بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے لئے المناک صورتحال سامنے آئی کیونکہ انٹرنیٹ پر سیکس ویب سائٹ، پورنو ویب اور بالغ ویب کا مشاہدہ کرنے والے سرفہرست 10 ملکوں میں سے 7 کا تعلق انہی ممالک سے تھا۔ اب اپنی کوتاہی کو ہم یہود و نصاریٰ کی سازش کہیں یا کچھ اور لیکن ان اعداد و شمار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ ایسی اختراعات جدید ہیں جن کے ذریعے مسلمان ممالک اخلاقی، اصلاحی و سماجی نشریات پھیلا کر بے ادب نسل کو باادب بنا سکتے تھے۔ غیر مہذب لوگوں کو تہذیب و ثقافت کا درس دیا جا سکتا تھا اور دلدل میں پھنسی امّہ یا امّت کے درد کا مداوا تلاش کیا جا سکتا تھا لیکن یہ غیرت کا فقدان ہی کہئے کہ مسلم معاشرے میں اس سلسلے میں کوئی خاطرخواہ اقدامات کرنے کے بجائے اس سودمند اختراعی ایجاد اور جدید عصری میڈیا کو مسلم معاشرے میں پس و پشت ڈال کر اس کے خلاف محاذ بنا لیا گیا ہے اور ٹیلی ویژن و انٹرنیٹ کو مسلم معاشرے کو ’’تباہ‘‘ کرنے کی سازش قرار دیا جا رہا ہے لیکن میرے حساب سے ایسا ہرگز نہیں ہو رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ ایجادات کہیں بھی عقیدے یا علم کی سطح پر امّت کے مزاج کو ہیجان میں مبتلا نہیں کرتیں اور نہ ہی اسلام کے اصولوں سے مسلم فرد اور معاشرے کو اجنبی بنا رہی ہے۔ اگر اخلاقی اور سماجی پروگراموں کو دیکھنے اور سننے کے لئے ہمارے نوجوانوں کے پاس وقت نہیں اور اخلاق باختہ پروگراموں کو دیکھنے کے لئے ان کے پاس کافی وقت ہے تو اس میں اس ذرائع ابلاغ کا کیا قصور؟ کیا ایسی صورت میں ٹی وی، کیبل یا انٹرنیٹ کو ہی خیرآباد کہہ دیا جائے؟ میرے حساب سے اب ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کے مضر یا مفید ہونے کے بارے میں بحث کا وقت گزر چکا ہے، چاہے اس کو مضر سمجھیں یا مفید۔ یہ انسانی زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اچھے یا برے کا فیصلہ اس کے استعمال پر ہے اور یہ کہ اچھی سے اچھی شے بھی غلط استعمال سے بری ثابت ہو سکتی ہے اور اکیسویں صدی میں یہ بات طے ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی لو اور لے دبائی نہیں جا سکتی۔
آج الیکٹرانک ٹیکنالوجی، موبائل فون، کمپیوٹرسافٹ ویئر اور انٹرنیٹ وغیرہ (اس وغیرہ میں مزید 13؍سہولتیں شامل ہیں) نے جغرافیائی سرحدوں کو دھندلا کر دیا ہے اور بارڈر کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اب ایک ملک دوسرے ملک کے اتنے قریب آ چکا ہے کہ اس کی کوئی ’’برائی‘‘ ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اب مندرجہ بالا تمام ٹیکنالوجی ہمارے ڈرائنگ روموں سے ہوتی ہوئی بیڈروموں تک آ گئی ہے۔ ایک نئے مسئلے کا ابھرنا یا ابھارا جانا سابقہ مسئلے کو اگر ختم نہیں کرتا تو معزول ضرور کر دیتا ہے کہ کیتلی کے ڈھکن کو دبائے رکھنے سے بھاپ کا پریشر یا دبائو محدود نہیں رہتا، کیتلی کے نیچے لگی آگ کو ہٹانے سے ہی پریشر کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد معترضین کے صفائی دینے کے لئے کیا باقی رہ جاتا ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں، آپ بھی سوچئے۔
ہمیں نے اس کے لئے راستے بنائے تھے
کہ گھر تک آ گیا بازار یہ تو ہونا تھا
تازہ ترین