• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر عام انتخابات کا عمل مکمل ہو گیا۔ ممکنہ دہشت گردی نے سیاسی ماحول کو بے رونق بنا دیا تھا، رہی سہی کسر پی ٹی آئی کو ’’لیول پلینگ‘‘ فیلڈ کی عدم موجودگی نے نکال دی، وہ انتخابی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی جو عام انتخابات کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی نے بلے کا نشان نہ ملنے کے باوجو د اپنے کھلاڑی میدان اتار دئیے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پی ٹی آئی کو اقتدار نہیں ملے گا عمران خان نے مسلم لیگ (ن) سے بھی زائد امیدواروں کی حمایت کے سرٹیفکیٹ جاری کر دئیے۔ پی ٹی آئی نے حمایت یافتہ امیدواروں کی واضح کامیابی کے باوجود عام انتخابات میں نتائج تبدیل کرنے کے الزامات عائد کئے ہیں، سیاسی تجزیہ کار انتخابات کے متنازع ہونے کا فتویٰ جاری کر کے اپنی ’’سیاسی سوچ‘‘ کو تسکین پہنچاتے رہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی نے انتخابی عمل کی شفافیت کی توثیق کر دی ہے۔

انتخابات میں پی ٹی آئی کے بیشتر حمایت یافتہ امیدواروں کو انتخابی مہم نہ چلانے کی شکایات موصول ہوئی ہیں بعض آزاد امیدوار اپنے پولنگ ایجنٹوں کا انتظام نہ کر سکے لیکن ان کے بیلٹ بکس بھرے نکلے۔ 8فروری 2024کو پی ٹی آئی کا ووٹر نکلا اور اس نے بڑے بڑے برج الٹ دئیے، خلاف توقع نتائج پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے پی ٹی آئی کی قیادت پچھلے دو سال سے زیر عتاب، بیشتر رہنما پارٹی کو داغ مفارقت دے گئے، آزاد امیدواروں کی رہائش گاہوں پر آئے روز چھاپے مارنے کی شکایات موصول ہوئیں لیکن پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ’’قیادت اور بلے‘‘ سے محروم ہونے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا، اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہی ہوا۔

پی ٹی آئی کے ناراض کارکن اپنے گھروں سے ایسے نکلے کہ ’’کھمبوں‘‘ کو کامیاب کرا نے کی روایت زندہ کر دی۔ تمام سیاسی تجزیہ کار انتخابی نتائج پر حیران و ششدر رہ گئے ہیں اکثر و بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) واحد اکثریتی جماعت نہیں بن کر ابھرے گی تاہم وہ وفاق میں آسانی سے 100،115نشستیں حاصل کر لے گی لیکن سر دست وہ آزاد امیدواروں کے مقابلے میں دوسرے نمبر ہے، سب سے زیادہ اپ سیٹ پنجاب میں ہوا جو مسلم لیگ (ن) کا پاور بیس تصور کیا جاتا تھا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) سے متعدد نشستیں چھین لیں جبکہ پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں بری طرح پٹ گئی تاہم اس نے سندھ کی حد تک اپنے آپ کو محفوظ کر لیا۔

سندھ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے اپنی کچھ نشستوں کو برقرار رکھا ہے، مجموعی طور پورے ملک میں ووٹرز ٹرن آئوٹ بہت زیادہ رہا اس کی بھی پاکستان کی انتخابی تاریخ میں خال خال ہی مثال ملتی ہے، کہا جاتا تھا پی ٹی آئی کا کارکن اپنے قائد کو اوپر تلے 31سال سزا ہو جانے پر احتجاج کے لئے نہیں نکلا، عمران خان کے جیل جانے کے بعد نہیں نکلا چنانچہ انتخابات میں بھی باہر نہیں نکلے گا لیکن پی ٹی آئی کے کارکن و حامیوں نے ’’الیکشن ڈے‘‘ پر نکل کر ووٹ کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کر دیا عام انتخابات میں دو کروڑ سے زائد نوجوان ووٹر شامل ہوئے جنہوں نے انتخابی نتائج کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ پی ٹی آئی نے 2018ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر کامیابی حاصل کی جبکہ 2024ء کے انتخابات میں اس کے پاس کارکردگی نام کی کوئی چیز نہیں تھی، کل تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا جو نعرہ نواز شریف کے پاس تھا اسے پی ٹی آئی نے اپنا لیا۔

لاہور مسلم لیگ (ن) کا لینن گراڈ تھا اس میں شگاف ڈال دئیے، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کاحلقہ این اے 130جو انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا ہے نواز شریف ایک خاتون قیدی کے مقابلےمیں بمشکل کامیاب ہوئے۔ اطلاع ہے کہ پنجاب میں کے پی کے سے نقل مکانی کر کے آنے والے کافی ووٹر آباد ہیں اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کا جشن منانے والوں میں بھی یہی لوگ پیش پیش تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کو عام انتخابات میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن انتخاب ہار گئے ہیں، عام انتخابات میں جماعت اسلامی کا کوئی امیدوار قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہوا تاہم جماعت اسلامی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔

آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد میں کامیابی سے ان کا ملکی سیاست میں کردار بڑھ گیا ہے، یہ کامیاب امیدوار اپنی نئی جماعت بھی بنا سکتے ہیں، ان کو مسلم لیگ (ن) میں شامل کرانے کی کوشش کی جائےگی، وہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی قوت میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کتنے حمایت یافتہ منتخب ارکان قومی اسمبلی میں اپنے حلف پر قائم رہتے ہیں؟ ارکان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے ایک دو روز بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ بہر حال پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو کر اس کی خصوصی نشستوں میں تو اضافہ کر سکتے ہیں لیکن خود پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں سے ایک بھی نشست پرحصہ نہیں لے سکے گی۔

انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مل کر پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کے کردار کو محدود بھی کر سکتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دوریاں ہونے کے باوجود مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے نیشنل یونٹی کی حکومت کی داغ بیل ڈالی جائے نواز شریف اور آصف علی زرداری کیا سوچ رہے ہیں فی الحال ان کے آئندہ لائحہ عمل بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے اس کے لئے ہمیں چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین