• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تکبر اور رعونت کی بنیاد پر قائم حکومتیں دیرپا نہیں ہوتیں

ماضی نے عبرتناک شکست کی صورت میں ثابت کردیا ہے کہ تکبر اور طاقت کے نشے میں رونما ہونے والی رعونت کے زور پر قائم کی جانے والی حکومت پر صرف مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ تکبر اور رعونت زدہ حکمرانوں یا سیاستدانوں کو بہرصورت ووٹ کی بھیک مانگنے کے لئے عوام کے پاس جانا ہی ہوتا ہے۔بالفاظ دیگر آنے والی حکومت کی عمارت تکبر اور رعونت کی بنیاد پر استوار نہیں ہونی چاہئیے، ریاست کے استحکام، ملک کی تعمیر اور عوام کو آسودگی فراہم کرنے کو مربوط اور روشن مستقبل مہیا کرنے کا مقصد آئندہ حکومت کا پہلا ایجنڈہ ہونا چاہئیے۔عام تاثر تو یہی ہے کہ تکبر مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا نمایاں جزو رہا ہے جس کے نتیجے میں پارٹی کے بنیادی کارکنوں اور بعض قائدین میں مایوسی پیدا ہوئی، یہی وجہ ہے کہ عوام نے ملک میں تعمیروترقی کی نئی تاریخ رقم کرنے والی پارٹی کے اس کردار کو نظرانداز کردیا اور قوم پر اس پارٹی کو مسلط کردیا جس کی سیاست ریاست دشمنی، گمراہی اور تکبرورعونت پر استوار تھی۔جو طاقت کے بےدریغ استعمال کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کو اخلاقی، سیاسی اور آئینی حق تصور کرتی تھی اور کسی بھی متنازعہ مسئلے کو "میں نہ مانوں" کی مصداق پر حل کرنے پر یقین رکھتی ہو اور تحریک انصاف انتخابات کے اختتام اور شکست کے تین چار روز بعد بھی اپنا ’’اخلاقی حق‘‘ حاصل کرنے کیلئے موٹروے سمیت پشاور، راولپنڈی، لاہور، کراچی اور کوئیٹہ کی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس پر پتھراؤ کے علاوہ پرائیویٹ گاڑیوں کو نذر آتش کرکے ملک اور ریاستی املاک کو تباہ کرنے کے پارٹی ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لایعنی احتجاجی سلسلہ تحریک انصاف کی’’اعلیٰ لیکن عارضی قیادت‘‘ کی جانب سے ’’اصلی قیادت‘‘ نے عمران خان کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے ’’کلین سویپ‘‘ کےغیر حقیقی دعووں کے ذریعے گمراہ کیا اور گمراہ ہونا عمران خان کی فطری عادات اور پسندیدہ مشاغل میں شامل ہیں۔لیکن 8فروری نے تحریک انصاف کی ’’مقبولیت‘‘ کا پول کھول دیا لیکن پھر وہی مسئلہ "جمہوری روایات" کی راہ میں رکاوٹ ہے کہ تحریک انصاف سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ماننے کے لئے آسانی سے تیار نہیں ہوتی۔تحریک انصاف 2018کی دھاندلی کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ انہوں نے اسی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دلا کر اقتدار حاصل کیا لیکن اب اپنی شکست تسلیم کرنے کے لئے اس مؤقف کی آڑھ میں تیار نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے طے شدہ منصوبہ کے تحت انہیں ہرایا ہے اور ان کے نتائج تبدیل کر کے ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا۔منفی سیاست پر یقین رکھنے والی تحریک انصاف کو مقافات عمل پر یقین نہیں اور ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو کل جو کچھ آج ان کے خلاف کیا گیا، غلط ہے تو کل اسی اسٹیبلشمنٹ نے ان کے لئے جو کچھ کیا، کیسے درست تھا؟تحریک انصاف نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ ان کی ماضی کی گمراہ کن پالیسیوں کے نتیجے میں جہاں کوئی سیاسی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہونے کے لئے تیار نہیں وہیں ان کے حمائت یافتہ امیدوار، خواہ انہیں کامیابی نصیب ہوئی یا شکست سے دوچار ہوئے، ایک ایک کرکے پارٹی سے الگ ہو رہے ہیں، بالفاظ دیگر تحریک انصاف اپنے رویوں اور آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے ’’پت جھڑ‘‘ کا شکار ہے۔انہی بنیادوں پر کسی مدد کے بغیر تن تنہا حکومت بنانے کے دعوے کرنے والے پی-ٹی-آئی کی عارضی یا قائم مقام قیادت اپنی شکست تسلیم کرکے یہ حقیقت ماننے کے لئے تیار دکھائی دے رہی ہے کہ وہ اپنے طور پر حکومت بنانے کے قابل نہیں اور ان کے لئے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے میں ہی ان عافیت ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے اقتدار کی دوڑ سے باہر ہونے کے اشارہ کے باوجود باقی تمام سیاسی جماعتیں اگرچہ مشترکہ حکومت بنانے کی کوششوں میں ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی بجائے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی خواہش کے نتیجے میں مشکلات اور پیچیدگیاں دکھائی دے رہی ہیں جو نئے انتخابی عمل کی جانب بڑھنے کا اشارہ ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نئے انتخابی عمل میں الجھنے کے لئے تیار نہیں تاہم جلد یا بدیر مشترکہ حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن ہیں۔

تازہ ترین