مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے دادا، کھتری حاجی ابراہیم اللہ رکھا پٹیل12جولائی 1893ء کوریاست کچَھ کے ایک مشہور شہر مانڈوی میں پیدا ہوئے۔ کم سِنی ہی میں والدین کا انتقال ہوگیا، تو اُن کی پرورش اُن کے دادا اور دادی نے کی۔ وہ برادری کے پٹیل یعنی سردار ہونے کے ساتھ کچھی ادب کا گراں قدر سرمایہ تھے اور دنیائے ادب میں ’’مقبول کچھی‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ابتدائی تعلیم، گجراتی زبان میں کچَھ مانڈوی کے ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے دادا کی سرپرستی اور رہنمائی میں تجارت کے میدان میں قدم رکھا اوراُن کے تجربات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے کام یابی کی منازل طے کیں۔
دادا کی رہنمائی میں تجارتی امور کے نشیب و فراز سے آگہی کے بعد بیرونِ ملک چلے گئے اور مکّہ مکرمہ اور عدن میں کئی برس تک مختلف تجارتی اداروں میں فرائض سرانجام دیتے رہے، جہاں ان کی صلاحیتوں کو مزید جِلا ملی۔ پھر کچھ عرصے بعد اپنے آبائی شہر مانڈوی آگئے اور وہاں کی مشہور بندرگاہ، سونا والا گیٹ پر اجناس کی تجارت سے منسلک ہوگئے۔ محنت، دیانت داری اور خلوص و اخلاق کی وجہ سے میدانِ تجارت میں کام یابی اُن کا مقدر بنی اور نئی راہیں کھلتی چلی گئیں، بہت جلد ان کا شمار شہر کے معزز تاجروں میں ہونے لگا۔ شعرو ادب سے دل چسپی تو انھیں شروع ہی سے تھی، دیارِ غیر سے واپسی کے بعد آتشِ شوق مزید بھڑک اٹھی۔ ابتدا میں اُن کا کلام اور تحریریں ’’سن و دیس‘‘ (اپنا وطن) ’’کچَھ ورتمان‘‘ (جدید کچَھ) اور ’’جتے شو‘‘ (خیرخواہ) جیسے رسالوں کی زینت بنیں۔
کچَھی زبان پر عبور کی وجہ سے اُن کی تخلیقات، خاص و عام میں مقبولیت کی سند پانے لگیں اور اپنے جداگانہ اسلوب اور منفرد انداز کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند کے ادبی حلقوں میں ’’کچھی زبان کے غالب‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ گجراتی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات و جرائد یعنی کھتری متر، کھتری جگت، کھتری بلیٹن، کھتری عالم، روزنامہ ملّت گجراتی، روزنامہ ڈان گجراتی اور روزنامہ وطن گجراتی میں اُن کا کلام باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ اُن کی شعر و ادب میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں 1953ء میں سندھ کے شہر ٹنڈو محمد خان میں منعقدہ ’’آل پاکستان مسلم کچھی کانفرنس‘‘ میں انھیں ’’بابائے کچھ‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔
اپنی شاعری کے ذریعے اُنھوں نے لوگوں کو فرسودہ رسوم و رواج کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کرنے کی ترغیب دی۔ اس طرح اُن کا یہ فن معاشرے کی اصلاح میں بھی معاون ثابت ہوا۔ کچھی برادری کو مقبول کچھی کے دلیرانہ کارناموں اور بے باک تخلیقات پر بجا طور پر فخر ہے۔ انھوں نے کچھی ادب کو اس قدر بیش قیمت اور عظیم الشان ذخیرہ دیا، جو یقیناً آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔ اُن کا کلام کچھی، سندھی اور گجراتی زبان میں نام وَر فن کار بڑے ذوق و شوق سے گاتے ہیں۔ آج بھی حیدرآباد ریڈیو سے سندھی پروگراموں میں اُن کا کچھی کلام نشر کیا جاتا ہے، جسے سامعین کی ایک بڑی تعداد بڑے ذوق و شوق اور دل چسپی سے سنتی ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مقبول کچھی اپنی ریاضت، لگن اور جدوجہد کی وجہ سے عظمت اور شہرت کے اُس مقام تک جاپہنچے، جہاں تک پہنچنے کی تمنّا ہر شاعر، ادیب اور اہلِ قلم رکھتا ہے۔ کچھی ادب اور شاعری پر اُن کی اٹھارہ تصانیف کچھی قوم کا اثاثہ ہیں۔ اس زبان میں شایع ہونے والا اُن کا مطبوعہ مجموعہ کلام اور تصانیف میں ’’کچھی بولیں جی کریا‘‘ (کچھی الفاظ کا استعمال اور زیادہ مطالب والے الفاظ)، ’’جاہلیں جی جھڑکٹ‘‘ (جاہل لوگوں کے جھگڑے)، ’’کچھ کرتن (کچھی زبان کے گیت اور قومی نغمات)، ’’کچھی کوئل‘‘ (غزلیں)، ’’سون جیون سنگروں‘‘ (سونے کی زنجیریں)، ’’کچَھ جا مٹّھا بول‘‘ (کچھی شیریں الفاظ)، ’’پھورندل پھول‘‘ (مہکتے پھول)غزلوں کا مجموعہ)، ’’کچھی دوآ‘‘ (کچھی گیت) کے علاوہ کچھی لغت، مسّدسِ حالی اور اور علامہ اقبال کا شکوہ جوابِ شکوہ کا گجراتی ترجمہ کے علاوہ کچھی گرامر کی کتابیں غیرمعمولی مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ علاوہ ازیں، گجراتی زبان میں اُن کا کلام ان ہی کی آواز میں پچاس سے زائد کیسٹس میں محفوظ کیا گیا، جو گجراتی، سندھی، میمنی اور کچھی زبانیں بولنے والے بہت شوق سے سنتے ہیں۔
میرے دادا، مقبول کچھی نے جون 1953ء میں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ اُس زمانے میں حج کا سفر انتہائی کٹھن اور دشوار گزار ہوتا تھا، آج کی طرح قدم قدم پر سہولتیں نہیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں طویل العمری سے نوازا اور28جنوری 1986ء کو ایک مطمئن و مسرور زندگی گزار کر 92برس کی عُمر میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ گو وہ آج جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں، لیکن اپنی علمی، ادبی اور تخلیقی کاموں کی بدولت ہمارے درمیان ہمیشہ موجود رہیں گے۔ (کھتری عصمت علی پٹیل، کراچی)