• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآنِ کریم سننے کے واقعات: جِنّات کے قرآنِ کریم سُننے کے پہلے واقعے کی تفصیل قرآنِ کریم کی 46ویں سورۃ، سورت الاحقاف میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ واقعہ مکّہ کے قریب وادئ نخلہ میں پیش آیا، جہاں حضورؐ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ سورۃ الاحقاف کی آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جِنّات پہلے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سابق کتبِ آسمانی پر ایمان رکھتے تھے۔ (دیکھیے، تفسیر، سورۃ الاحقاف، آیت30)۔دوسرا واقعہ سورئہ جِن کی آیت نمبر ایک اور دو میں بیان ہوا ہے۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ سفرِ طائف کا واقعہ ہجرت سے تین سال قبل10 نبویؐ میں پیش آیا تھا اور اس سفر میں آپؐ کے ساتھ حضرت زید بن حارثہؓ کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ 

حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت کے مطابق، جِنّات کے قرآن سُننے کا واقعہ اُس وقت پیش آیا، جب آپؐ مکّے سے عکاظ تشریف لے جارہے تھے اور آپؐ کے ساتھ دیگر صحابہؓ بھی تھے۔ ان وجوہ سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ الاحقاف اور سورئہ جِن میں ایک ہی واقعے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہ دو الگ الگ واقعات تھے، جو دو مختلف اسفارمیں پیش آئے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلا واقعہ نبوّت کے ابتدائی دَور کا ہو، جب کہ دوسرے واقعے کے بارے میں راوی متفق ہیں کہ وہ10نبویؐ کے سفرِطائف میں پیش آیا تھا۔ (تفہیم القرآن، 6/108)۔

جِنّات انسانوں سے ڈرتے ہیں:حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں ایک رات نماز ادا کررہا تھا کہ اچانک میرے سامنے ایک لڑکا آکر کھڑا ہوگیا، تو مَیں نے اُسے قابو کرنے کی تیاری کی، اُس نے چھلانگ لگائی اور دیوار کے پیچھے جاپڑا۔ میں نے اُس کے گرنے کی آواز بھی سُنی تھی۔ اس کے بعد وہ کبھی میرے پاس نہیں آیا۔‘‘ حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہ جِنّات تم سے اُسی طرح سے ڈرتے ہیں، جس طرح سے تم جِنّات سے ڈرتے ہو۔‘‘ (تاریخِ جِنّات، امام سیوطی، صفحہ 268)۔

جنّت میں مومن جِنّات: علامہ محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ ’’جو مومن جِنّات، جنّت میں داخل ہوں گے، وہ جنّت میں موجود انسانوں کو نہیں دیکھ پائیں گے، جب کہ انسان جِنّات کو دیکھ سکیں گے، یعنی وہاں دنیا کے برعکس معاملہ ہوگا۔‘‘ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’مومن جِنّات پر ثواب بھی ہے اور عذاب بھی۔‘‘ ہم نے عرض کیا،’’ انھیں کیا ثواب ملے گا؟‘‘ فرمایا، ’’ یہ اعراف میں ہوں گے۔ جنّت میں امّتِ محمدیؐ کے ساتھ نہیں ہوں گے۔‘‘ ہم نے عرض کیا ’’یہ اعراف کیا چیز ہے؟‘‘ فرمایا، ’’جنّت کی دیوار ہے، جس میں نہریں بہتی ہوں گی اور پھلوں سے لدے درخت ہوں گے۔‘‘ (بیہقی، حدیث نمبر 117)۔

گھروں میں رہنے والے جِنّات: سیّدنا علی مرتضیٰؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’تم لوگ اپنے گھروں میں قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کرو۔ جن گھروں میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے، وہ گھر والوں کے لیے باعثِ خیر و برکت بن جاتا ہے اور اس گھر میں مومن جِنّات رہائش اختیار کرلیتے ہیں، لیکن جس گھر میں تلاوت نہیں ہوتی، وہ گھر والوں کے لیے وحشت بن جاتا ہے۔ خیر و برکت کم رہ جاتی ہے اور کافر جِنّات گھر میں بسیرا کرلیتے ہیں۔‘‘ (کنزالعمال، حدیث نمبر 41525)۔

کیا قومِ جِنّات میں نبی آئے: قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اے جِنّات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے؟ جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تمھیں اس آج کے دن کی خبر دیتے۔‘‘ (سورۃ الانعام 130)۔رسالت اور نبوت کے معاملے میں جِنّات انسانوں ہی کے تابع ہیں، ورنہ جِنّات میں الگ سے نبی نہیں آئے، البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جِنّات میں ہوتے رہے ہیں۔ 

جو اپنی قوم کے جِنوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور اب بھی دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چوں کہ جِنّات کا وجود انسان کی پیدائش سے پہلے کا ہے، تو اُن کی ہدایت کے لیے اُن ہی میں سے کوئی نبی آیا ہو؟ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے آنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ جِنّات نبیوں کے تابع رہے ہوں۔ البتہ نبی آخر الزماں، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت بہرحال تمام جِن و انس کے لیے ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں۔ (تفسیر، مولانا یوسف، صفحہ 390)۔

کفار و مشرکین، قرآن کی ایک سطر بھی نہ بناسکے: ارشادِ ربّانی ہے ’’اگر تم انسان اور کُل جِنّات آپس میں مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہو، تو اُن سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے۔ گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔‘‘ (سورئہ بنی اسرائیل، آیت 88)۔ شانِ نزول۔ مشرکین نے کہا تھا کہ ہم چاہیں، تو اس قرآن کی مثل بنالیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کی تردید کی کہ خالق کے کلام کے مثل مخلوق کا کلام ہو ہی نہیں سکتا، اگر جِنّ و انس باہم مل کر بھی کوشش کریں، تو بھی ممکن نہیں کہ اس کلام کی مثل لاسکیں، چناں چہ ایسا ہی ہوا، تمام کفّار عاجز ہوئے، انہیں رسوائی اٹھانی پڑی اور وہ ایک سطر بھی بناکر پیش نہ کرسکے۔ (کنزالایمان، صفحہ 418)۔

جِنّات و شیاطین حضرت سلیمان ؑ کے تابعِ فرمان: حضرت سلیمان علیہ السلام ہفتِ اقلیم کے بادشاہ تھے۔ دنیا کی ہر شے آپ کی مطیع اور فرماں بردار تھی۔ ہوا کو حکم دیتے، تو وہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کردیتی۔ چرند، پرند ہر حکم کی تابع داری کے لیے حاضر ہوتے۔ سرکش جِنّات ہر وقت ہاتھ باندھے احکامات کی بجاآوری کے لیے تیار رہتے۔ شیاطین زنجیروں میں جکڑے کاموں میں مصروف رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن جِنّات اور سرکش شیاطین کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا تابع اور فرماں بردار بنادیا تھا، جو نوکروں، چاکروں کی طرح آپ کا ہر حکم بجا لاتے۔ 

یہ آپؑ کے لیے سمندر کی تہہ سے قیمتی موتی، ہیرے جواہرات نکال لاتے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بڑی اور خُوب صُورت عمارتیں بنانے کا شوق تھا، چناں چہ وہ آپ کے حکم پر عالی شان عمارات تعمیر کرتے۔ اگر اُن میں سے کوئی سرکشی کرتا، تو حضرت سلیمان علیہ السلام اُسے سزا دیتے اور زنجیروں میں جکڑ دیتے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’ہم نے بہت سے شیاطین بھی اُن کے تابع کیے تھے، جو اُن کے فرمان سے غوطے لگاتے اور بہت سے دوسرے کام سرانجام دیتے اوراس کے نگہبان ہم ہی تھے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، آیت 82)۔ 

اِن جِنوں میں دو طرح کے جِنّات تھے۔ ایک تو اہلِ ایمان تھے، جو اپنے نبی کا ہر حکم مذہبی فریضہ سمجھ کر پورا کرتے، لیکن جو کافر تھے، وہ اپنے کفر اور سرکشی کے باوجود حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع رہتے، لیکن اُن سے نقصان کا بھی اندیشہ تھا، چناں چہ سورئہ سبا میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم سے پِھرے گا، اُسے ہم آگ کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘ (سورئہ سبا، آیت 12) مفسّرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر فرمادیا تھا، جس کے ہاتھ میں آگ کا سونٹا ہوتا۔ جِنّات میں سے کوئی حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کرتا، تو فرشتہ اُسے سونٹا مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا۔

جِنّات اور غیب کا علم: آنحضرتﷺ کی بعثت سے پہلے، جِنّات عالمِ بالا کی خبریں معلوم کرنے کے لیے آسمان میں سُن گُن لینے کا کوئی نہ کوئی موقع پالیتے تھے اور پھر ایک سچ بات میں نو مَن گھڑت اور جھوٹی باتیں ملاکر کاہنوں کو بتادیا کرتے تھے۔ یوں کاہنوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ جِنّات غیب کا علم جانتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ مَیں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! یہ کاہن جو بات کہتے ہیں، ہمیں سچ بھی ملتی ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا، ترجمہ:’’یہ بات حق ہوتی ہے، اسے جِن چوری کرکے اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے اور وہ اس میں سو جھوٹ ملادیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،122، 124)۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جِنّات کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے ذریعے اس عقیدے کے فساد کا قلع قمع کردیا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’پھر جب ہم نے اُنؑ پر موت کا حکم بھیجا، تو اُن کی خبر جِنّات کو کسی نے نہ دی، سوائے گُھن کے کیڑے کے، جو اُن کی عصا کو کھا رہا تھا۔ پس، جب حضرت سلیمانؑ گر پڑے، اس وقت جِنّات نے جانا کہ اگر وہ غیب کا عِلم رکھتے، تو اس ذلّت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔‘‘ (سورئہ سبا، آیت 14)۔ 

حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے ایک سال بعد تک جِنّات بیت المقدس کی تعمیر میں مصروف رہے۔ وہ دُور سے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے شیشے کے کمرے میں کھڑا ہوا دیکھتے اور سرجھکا کر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے۔ جِنّات کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ قریب چلے جاتے، یہاں تک کہ ایک سال گزر گیا، تعمیرِ بیت المقدس مکمل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے جِنّات کے عالمِ غیب کے دعوے کو اپنے انجام پر پہنچادیا اور تمام دنیا کو جِنّات کی بے خبری اور بے بسی کا علم ہوگیا۔ (تفسیر، سورئہ سبا، آیت 14)۔

بسم اللہ کی مُہر: حضرت صفوان بن سلیمؒ فرماتے ہیں کہ جِنّات انسانوں کے سامان اور کپڑوں کو استعمال کرتے ہیں۔ پس، تم میں سے جو شخص کوئی کپڑا اٹھائے یا رکھے، تو ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ لیا کرے، کیوں کہ ’’اللہ کا نام‘‘ مہر ہے۔ (اس طرح سے جِنّات ان کپڑوں کو استعمال نہیں کریں گے) (تاریخِ جِنّات، امام سیوطیؒ صفحہ228)۔’’بسم اللہ‘‘ جِنّات کے سامنے پردہ ہے۔ 

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ترجمہ:’’گندے مقامات شیاطین کے رہنے کی جگہیں ہیں۔‘‘ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ قضائے حاجت کو جاتے، تو یہ پڑھا کرتے تھے، ’’اللّٰھمّ اِنّی اعوذُبک من الخُبث والخبائث‘‘ ترجمہ ’’اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں، خبیث جِنوں سے اور خبیث جِنّنیوں سے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف 337، متفق علیہ) امام سعید بن منصورؒ نے اس دُعا کے شروع میں ’’بسم اللہ‘‘ کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں۔ (کنزالعمال، 17874)۔

جِنّات بھگانے کے وظائف:اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا ہے۔ چناں چہ جِنّات و شیاطین سمیت دنیا کی ہر مخلوق انسان سے خوف کھاتی ہے۔ اللہ اور اس کے نبیﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں بدترین جِنّات اور شیاطین کو شکستِ فاش دینا بہت آسان ہے، لیکن اگر جِنّات کی وجہ سے کچھ لوگوں کو بیماری یا موت لاحق ہوجائے، تو یہ خود اپنے اوپر ظلم کرنے کے مترادف ہے، جس میں جعلی پیر فقیر اور سنیاسیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ جِنّات سے مقابلے کے لیے ذکرِ الٰہی، دعائیں، اعوذُباللہ من الشّیطان الرّجیم، استغفار اور سورئہ معوّذتین کثرت سے پڑھی جائے، لیکن پانچ وقت کی نماز ادا کرنا سب سے اہم ہے۔

آیۃُ الکرسی کی کرامات: جِنّات و شیاطین کے خلاف مدد حاصل کرنے اور انہیں شکستِ فاش دینے کےلیے سب سے بڑا عمل ’’آیۃُ الکرسی‘‘ کا پڑھنا ہے۔ انسان سے شیاطین کو بھگانے، جِنّات کے اقدامات کو باطل کرنے، اُن کی آفات سے بچنے اور منفی عملیات سے محفوظ رہنے کے لیے ’’آیۃُ الکرسی‘‘ میں بڑی عظیم تاثیر ہے۔ یہ مرگی کا بھی علاج ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’ آیۃُ الکرسی قرآنِ پاک کی سب آیات کی سردار ہے۔ جس گھر میں شیطان ہو، تو اسے پڑھا جائے، وہ بھاگ جائے گا۔‘‘ (کنزالعمال، حدیث 2557)۔ 

ہر رات سونے سے پہلے گھر میں آیۃُ الکرسی پڑھ کر حصار باندھنا بزرگانِ دین، اولیائے کرام اور تجربہ کار حضرات کا معمول ہے۔ اس عمل سے صبحِ صادق تک پورا گھر مع افراد و اسباب ہر طرح کے انسانی و شیطانی شر سے محفوظ رہتا ہے۔ حضرت قتادہؒ بیان فرماتے ہیں ’’جس نے اپنے بستر کی ٹیک لگاتے ہوئے آیۃُ الکرسی پڑھ لی۔ دو فرشتے اس کے سپرد کردیئے جاتے ہیں۔ جو صبح تک اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (تاریخ جِنّات امام سیوطی، صفحہ 217)۔

سورئہ معوذتین ہر قسم کے شیطانی عملیات اور نظرِبد کا تیر بہ ہدف علاج: سورئہ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس) قرآنِ کریم کی یہ آخری دو سورتیں ہر قسم کے شیطانی عملیات، جادو ٹونے اور نظرِبند کا تیربہ ہدف علاج ہیں۔ حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ جِنّات اور انسانوں کی نظرِبد سے پناہ مانگتے تھے۔ یہاں تک کہ جب آخری دونوں سورتیں نازل ہوگئیں، تو آپؐ نے انہیں پڑھنا شروع کردیا۔‘‘ (مشکوٰۃ حدیث 4563)۔ (ختم شُد)