• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جِنّات کی حقیقت: مفتی محمد شفیع، ’’تفسیرِ مظہری‘‘ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جِنّات‘‘ مخلوقاتِ الٰہیہ میں ایک ایسی مخلوق کا نام ہے، جوذی اجسام بھی ہیں، ذی رُوح بھی اور انسان کی طرح عقل وشعور رکھنے والے بھی، مگر لوگوں کی نظروں سے مخفی ہیں۔ اسی لیے اُن کا نام جِن رکھا گیا کہ ’’جن‘‘ کے لفظی معنی ’’مخفی ‘‘کے ہیں۔ جِنّات کی تخلیق کا غالب مادّہ آگ ہے، جیسے انسان کی تخلیق کا غالب مادّہ مٹّی ہے۔ اس نوع میں بھی انسان کی طرح نرومادہ یعنی مرد عورت ہیں اور انسان ہی کی طرح اُن میں توالد وتناسل کا سلسلہ بھی ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن میں جِنّات کو شیاطین کہاگیا ہے، تووہ بھی جِنّات ہی میں سے شریر لوگوں کا نام ہے۔ جِنّات اور فرشتوں کا وجود قرآن وسنّت کی قطعی دلائل سے ثابت ہے، جس کا انکار کفر ہے۔( معارف القرآن،`574/8)۔

قرآنِ کریم میں جِنّات کا تذکرہ: قرآنِ مجید کی اصطلاح میں ’’جِن‘‘ ایک غیر مرئی مخلوق ہے۔ اس مخلوق کا ذکر قرآنِ کریم کی بارہ سورتوں میں بیس مرتبہ آیا ہے، جب کہ قرآنِ مجید کے انتیسویں پارے میں موجود ایک سورت ’’سورہ جن‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ ’’مکّی‘‘ سورت ہے، جس میں28آیات اور2رکوع ہیں۔ جِنّات کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے دوہزار سال قبل تخلیق فرمایا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ، ترجمہ:’’ ہم نے انسان کو کھنکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جِنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھویں کی آگ سے پیدا کیا۔‘‘ ( سورۃ الحجر، آیت26) ایک اور جگہ فرمانِ الٰہی ہے، ترجمہ:’’اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹّی سے بنایا اور جِنّات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔‘‘( سورہ رحمٰن، آیات14/15)۔اللہ تعالیٰ کا جِنّ واِنس کو پیدا کرنے کا مقصد کیا تھا؟ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے، ترجمہ:’’مَیں نے جِنّات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔ نہ مَیں ان سے روزی چاہتا ہوں، نہ میری یہ چاہت ہے کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تعالیٰ تو خُود ہی سب کا روزی رساں، توانائی والا اور زور آور ہے۔‘‘ ( سورۃ الذّاریٰت:آیات56تا58)۔

جِنّات کی پیدائش: حضرت ابوالعالیہؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بدھ کے دن پیدا کیا۔ جِنّات کو جمعرات اورحضرت آدم علیہ السلام کو جمعے کے دن پیدا فرمایا۔‘‘ حضرت ابنِ مسعود ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’لَو کی وہ آگ، جس سے جِنّات کو پیدا کیا گیا، وہ دوزخ کی آگ کا ستّرواں حصّہ ہے اور یہ دنیا کی آگ اس لوکی آگ کا ستّرواں حصّہ ہے۔ لوکی آگ وہ ہے، جس سے جِنّات کو پیدا کیا گیا ہے۔‘‘(تفسیر ابنِ جریر)۔ حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ آسمانوں کے آباد کنندگان فرشتے ہیں، جب کہ زمین پر جِنّات رہا کرتے تھے۔

جِنّات، شعلہ زن آگ سے پیدا شدہ ناری مخلوق ہیں، چناں چہ یہ زمین پر بہت زیادہ دنگا فساد اور خون خرابا کیا کرتے تھے، جس کی روک تھام اور سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ آسمانوں سے فرشتوں کو زمین پر بھیجا کرتا، ایسے ہی ایک معرکے کے اختتام پر فرشتوں کو جِنوں کا ایک معصوم بچّہ ملا، جس کے والدین اُس حالیہ فساد میں قتل ہوگئے تھے۔ تو اللہ کے حکم سے فرشتے اُس بچّے کو آسمانوں پر لے گئے۔ عزازیل نامی یہ جِن بچّہ بڑا ہوکر فرشتوں کا استاد مقرر ہوا، لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں ذلیل وخوار ہوکرجنّت سے نکالا گیا اور پھر ابلیس وشیطان کے نام سے مشہور ہوا۔

جِنّات کی اقسام: حضرت ابوالدرداءؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ نے جِنّات کو تین اقسام پر پیدا فرمایا ہے۔ ایک قسم میں سانپ بچّھو اور زمین کے کیڑے مکوڑے، ایک قسم فضا میں ہوا کی طرح اُڑنے والوں کی ہے اور ایک قسم وہ ہے، جس پر حساب وعذاب ہوگا۔‘‘ (کنزالعمال، 15179)- 

حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’بعض کتّے بھی جِنّات کی ایک ضعیف قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ چناں چہ اگر کھانے کے دوران کتّا آکر بیٹھ جائے، تو اس کے آگے کچھ ڈال دیں یا اُسے وہاں سے ہٹا دیں۔‘‘ شیطان اکثر کالے کتّے کا روپ دھار لیتا ہے۔ اسی طرح جِنّات بھی بہت سی صُورتیں بدل سکتے ہیں، مثلاً وہ انسان، چوپائے، سانپ، بچّھو، اونٹ، بیل، بکری، گھوڑے، خچر، گدھے اور پرندوں وغیرہ کی شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔(مجمع الزوائد8/136)۔

جِنّات کے عقائد: سورہ جن کی آیات گیارہ سے پندرہ تک کی تفیسر بیان کرتے ہوئے مولانا صلاح الدین فرماتے ہیں کہ ’’جِنّات بھی متفرق جماعتوں اور مختلف اصناف میں بٹے ہوئے ہیں، یعنی جِنّات میں بھی مسلمان، کافر، عیسائی، یہودی، مجوسی، وغیرہ ہیں اور بعض کے مطابق، اُن میں بھی مسلمانوں کی طرح فرقہ بندیاں ہیں۔ جو جِنّات نبوّت محمدیہﷺ پرایمان لائے، وہ مسلمان اور اُس کے منکر کافر ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جوجِنّات ، کافر ہوں گے، وہ جہنم میں اور جو مسلمان ہوں گے، وہ جنّت میں جائیں گے۔ (تفسیرِقرآنِ کریم شاہ فہد، قرآن کمپلیکس، صفحہ1640)۔

نیک اور مسلمان جِنّات صوم وصلوٰۃ کے پابند، تہجد گزار اور تلاوتِ کلام پاک کے شوقین ہوتے ہیں۔ حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ’’تم میں سے جو شخص رات کو نماز ادا کرے، تو اُسے چاہیے کہ وہ اونچی آواز سے قرأت کرے، کیوں کہ فرشتے بھی اُس کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اُس کی تلاوت بھی سُنتے ہیں اور مومن جِنّات جو ہوا میں ہوتے ہیں یا اُس کے پڑوسی ہوتے ہیں، وہ بھی اُس کے ساتھ نماز ادا کرتے اور اُس کی تلاوت سُنتے ہیں اور انسان کا اونچی آواز میں تلاوت کرنا، اُس کے اپنے گھر اور آس پاس کے گھروں سے شریر جِنّات اور سرکش شیاطین کو بھگا دیتا ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد2/662)-

ختمِ قرآن میں جِنّات کی شرکت: حضرت ابنِ عمران النہارؒ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں ایک دن فجر سے پہلے حضرت حسن بصریؒ کی مجلس میں شرکت کے لیے گیا، تودیکھا کہ مسجد کا دروازہ بند ہے۔ ایک شخص دُعا مانگ رہا ہے اور پوری جماعت اُس کی دُعا پر ’’آمین‘‘ کہہ رہی ہے۔ چناں چہ مَیں باہر بیٹھ گیا۔ حتیٰ کہ موذّن آیا، اُس نے اذان دی اور مسجد کا دروازہ کھولا، مَیں اندر داخل ہوا، تو دیکھا کہ وہاں حضرت حسن بصری ؒ اکیلے تشریف فرماہیں، اُن کا رُخ قبلے کی جانب ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ ’’مَیں فجر ہونے سے پہلے آیا تھا، اُس وقت آپ دُعا کررہے تھے اور لوگ آمین کہہ رہے تھے، لیکن جب مَیں اندر آیا، توآپ کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا؟‘‘ توانہوں نے فرمایا، ’’یہ اہلِ نصیبین کے جِنّات تھے، جو شبِ جمعہ، ختمِ قرآن میں میرے پاس آتے ہیں۔ پھر شرکت کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘( تاریخِ جِنّات، علامہ سیوطی، صفحہ130)۔

جِنّات کی اولاد: سورہ رحمٰن کی آیت56میں حُوروں سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’ نہ تو اُن سے کسی انسان نے قربت کی ہوگی اور نہ ہی کسی جِن نے۔‘‘ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جِنّات بھی ازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں۔ حضرت قتادہؒ بیان کرتے ہیں کہ جِنّات کی اولاد ویسے ہی پیدا ہوتی ہے، جیسے انسانوں کی، لیکن جِنّات کی افزائشِ نسل بہت تیز ہوتی ہے اوراُن کی اولاد کثرت سے ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جِنّات کو دس حصّوں میں تقسیم فرمایا ہے، اُن میں سے نو حصّے جِنّات ہیں اور ایک حصّہ انسان، جب انسان کا ایک بچّہ پیدا ہوتا ہے، تو جِن کے نو بچّے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘(ابن ابی حاتم)۔

جِنّات کی خوراک: حضرت علقمہؒ فرماتے ہیں، ’’مَیں نے حضرت ابنِ مسعودؓ سے عرض کیا ’’کیا آپ میں سے کوئی ’’لیلۃ الجن‘‘ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا؟‘‘ فرمایا ’’نہیں، لیکن ہم نے ایک رات آپﷺ کو مکّہ میں نہ پایا، تو ہمیں یہ خیال ہوا کہ کہیں خدانخواستہ اچانک کفار کے نرغے میں نہ آگئے ہوں، نہ جانے آپﷺ کے ساتھ کیا بیتی؟ مسلمانوں نے یہ رات بڑے اضطراب وبے چینی میں گزاری۔ جب صبح صادق ہوئی، تو ہم نے دیکھا کہ آپﷺ غارِحرا کی جانب سے تشریف لارہے ہیں۔ صحابہ ؓ نے اپنی فکروتشویش کا اظہار کیا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جِنوں کا قاصد مجھے بلانے آیا، تو مَیں اس کے ساتھ چلاگیا اور اُنہیں قرآن پڑھ کر سُنایا۔‘‘ پھر آپﷺ نے ہمیں ساتھ لیا اور اُن کے آثار اور اُن کی آگ کے نشانات دکھائے، جِنّات نے آپﷺ سے توشۂ سفرمانگا، کیوں کہ وہ جِنّات کسی جزیرے کے باسی تھے۔

آپﷺ نے فرمایا ’’ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا، تمہارے ہاتھ پر پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی اور یہ ہڈیاں جِنّات کی خوراک ہوں گی۔ اور ہر قسم کی لید تمہارے چوپایوں کا چارہ ہے۔‘‘ پھر حضورﷺ نے فرمایا ’’ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرو، کیوں کہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جِنوں کی خوراک ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی،3258)۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’میرے پاس شہرنصیبین کے جِن آئے تھے، وہ کیسے اچھے جِن تھے، انہوں نے مجھ سے زادِ راہ کی خواہش کی، تو مَیں نے اُن کے لیے اللہ سے دُعا کی کہ جس ہڈی یا گوبر پر سے اُن کا گزر ہو، تواس پر وہ کھانا پائیں گے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث3860)۔

سورہ جن کی شانِ نزول: مولانا مفتی محمد شفیعؒ سورہ جن کی تفسیر میں اس سورت کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے چار اہم واقعات کا ذکر فرماتے ہیں۔ واقعہ اوّل، رسول ﷺ کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمان تک پہنچ کرفرشتوں کی باتیں سُنتے تھے۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد انھیں شہابِ ثاقب کے ذریعے سُننے سے روک دیا گیا اور اسی حادثے کی تحقیق کے ضمن میں یہ جِنّات آپﷺ تک پہنچے۔ 

اس واقعے کا ذکر سورہ احقاف میں بیان کیا گیا ہے۔ واقعہ دوم،`زمانۂ جاہلیت میں عادت تھی کہ جب کسی جنگل یا وادی میں دورانِ سفر قیام کی نوبت آتی، تو اس اعتقاد سے کہ جِنّات کے سردار ہماری حفاظت کریں گے، یہ الفاظ کہا کرتے تھے، ترجمہ:’’مَیں اس جنگل کے سردار کی پناہ لیتا ہوں اور اس کی قوم کے بے وقوف شریر لوگوں سے۔ واقعہ سوم، مکّہ مکرّمہ میں آپﷺ کی بد دُعا سے قحط پڑا تھا اور کئی سال تک رہا۔ واقعہ چہارم، جب آپﷺ نے دعوتِ اسلام شروع کی، تو کفّارو مخالفین کا آپﷺ کے خلاف ہجوم اور نرغہ ہوا۔

جِنّات کا آسمان میں داخلہ ممنوع: حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ جِنّات آسمان کی طرف چڑھتے تھے اور وحی کے کلمات سُنتے تھے، پھر اُن میں نو حصّے اضافہ کرکے زمین پر پھیلا دیا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد اُن شریر جِنّات کو اس عمل سے روک دیا گیا، یہ جب آسمان کی جانب رُخ کرتے ،تو شہابِ ثاقب چھوڑے جاتے۔ ان جِنّات نے اس کا ذکر ابلیس سے کیا، تو اس نے کہا کہ ’’ضرور زمین میں کوئی نئی بات ظہور پذیر ہوئی ہے، جس کی وجہ سے آسمانِ دنیا کی سخت ترین حفاظت کی جارہی ہے۔‘‘ چناں چہ یہ طے کیا گیا کہ زمین میں ہرطرف جِنّات کے وفود پھیلادئیے جائیں، تاکہ وہ اس کی تحقیق کریں کہ دنیا میں ایسی کیا نئی چیز وجود میں آئی، جس کی بِنا پر آسمانوں کی سخت ترین حفاظت کی ضرورت پیش آئی۔

چناں چہ جِنّات کا ایک وفد تہامہ حجاز کی جانب بھیجا گیا۔ وہ جب مقامِ نخلہ پر پہنچے، تو وہاں آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ صبح کی نماز کی امامت فرما رہے تھے۔ جِنّات کے اس وفد نے جب قرآنِ کریم کی تلاوت سُنی، تو آپس میں قسمیں کھاکر کہنے لگے کہ ’’واللہ! یہی وہ کلام ہے، جس کی وجہ سے ہمیں آسمانوں پرجانے سے روک دیا گیا ہے۔‘‘ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے، تو یہ اسلام کی حقّانیت پر یقین وایمان لاکراپنی قوم کے پاس واپس گئے اور اُنھیں واقعہ سُناتے ہوئے خبر دی کہ ہم تو مسلمان ہوگئے، تمھیں بھی چاہیے کہ ایمان لے آئو، مگر رسول اللہﷺ کوان جِنّات کے آنے جانے اور قرآن سُن کرایمان لانے کی خبر نہ ہوئی، یہاں تک کہ سورہ جِن کا نزول ہوا، جس میں آپﷺ کواس واقعے کی خبر دی گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ جِنّات، شہرِ نصیبین کے رہنے والے تھے اور اُن کی کُل تعداد نو یا سات تھی۔ جب انہوں نے اپنی قوم کو ایمان لانے کی ترغیب دی، تو پھر اُن میں سے تین سو افراد (جِنّات) اسلام لانے کے لیے حاضرِ خدمت ہوئے۔

حضرت خفّاجیؒ نے فرمایا کہ جِنّات کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ کرنے کے واقعات چھے مرتبہ پیش آئے ہیں۔( معارف القرآن 814/7)۔ آنحضرتﷺ نے طائف کے سفر سے واپسی پر مقامِ نخلہ میں قیام فرمایا اور آخرِشب میں نمازِ تہجّد پڑھنے لگے۔ مُلکِ یمن کے شہر نصیبین کے جِنّات کا ایک وفد بھی وہاں پہنچا ہوا تھا۔ انھوں نے جب قرآنِ کریم کی تلاوت سُنی، تو مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کی طرف واپس جاکر اس واقعے کی تفصیل بیان کی۔ جس کاذکر سورہ جِن میں بیان فرمایا گیا ہے۔ (معارف القرآن، 8/577)۔ (جاری ہے)