• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی جوابی کارروائی کے بعد اگرچہ حکومت طالبان مذاکرات بے یقینی کا شکار ہوچکے ہیں تاہم دونوں جانب سے آنے والے بیانات کے قدرے سخت لب و لہجے کے باوجود مذاکراتی کمیٹیوں کے تاحال برقرار رہنے اور فریقین کی طرف سے اب بھی مذاکرات کی اہمیت کے اعتراف کے باعث مذاکرات کی بحالی کا امکان معدوم بہرحال نہیں ہوا ہے۔ وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور وزیر اطلاعات سمیت حکومتی حلقوں کی طرف سے آنے والے بیانات میں کراچی ، پشاور اور مہمند ایجنسی کے حالیہ واقعات پر شدید ردعمل بالکل فطری ہے۔ یہ اندوہناک سانحے پوری قوم کو غم و غصے کی شدید کیفیت میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں مگر اس فضا میں بھی جب وزیر اطلاعات پرویز رشید طالبان کو مخاطب کرکے یہ کہتے ہیں کہ ’’تم ایک بار بات کروگے تو ہم دو بار بات کریں گے، تم ایک بار وار کروگے تو ہم دوبار وار کریں گے‘‘ تو اس میں بات چیت کے امکان کی موجودگی کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ اسی طرح جب وزیر داخلہ چوہدری نثار مذاکرات اور خونریزی کے اکٹھے نہ چلنے کی بات کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی وہ مذاکراتی عمل کی بحالی کے لئے قتل و غارت بند کرنے کا مطالبہ بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ایک اطلاع کے مطابق تحریک طالبان کی طرف سے حکومت کو دیئے گئے ایک پیغام میں امن کی خواہش کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ طالبان مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں۔ یہ اشارے یقیناً مثبت ہیں مگر پانچ ماہ قبل کل جماعتی کانفرنس کے بعد حکومت کی طرف سے امن مذاکرات کی کوششیں شروع ہونے کے وقت سے اب تک دہشت گردی کے واقعات کو طالبان کی امن کی خواہش اور مذاکرات میں سنجیدگی کے بیانات کے خاکے میں فٹ کرنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اس دوران ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور مختلف حلقوں کے بڑھتے دبائو کے باوجود حکومت نے تحمل اور برداشت کا قابل تعریف مظاہرہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ کے اس استدلال میں وزن ہے کہ ستمبر سے اب تک فوجی آپریشن کا بند رہنا جنگ بندی ہی تھی۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں تو پیمانہ صبر لبریز ہونا تھا۔ کراچی میں پولیس اہلکاروں کی بس پر حملے ، پشاور میں آرمی افسر کی شہادت اور مہمند ایجنسی میں 23۔ایف سی اہلکاروں کے گلے کاٹے جانے اور پھر طالبان کی طرف سے ان کی ذمہ داری قبول کرنے کے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وزیراعظم کو وہ فیصلہ کرنا پڑا جو کراچی، پشاور اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے مراکز، خاص طور پر غیرملکیوں کے ٹھکانوں پر ، بمباری اور بعدازاں زمینی دستوں کے داخلے کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ اچھا ہوتا کہ یہ نوبت نہ آتی اور باہم بات چیت سے امن کی ایسی فضا قائم ہوتی جس میں آئین پاکستان کے تقاضوں اور نظریہ پاکستان کے مطابق فلاحی مملکت کے خواب کی تعبیر کی سمت تیزی سے پیش قدمی ممکن ہوتی، تاہم سرکاری حلقوں اور طالبان کے بیانات سے اب بھی یہ امید بندھتی ہے کہ ایک عمل کے ردعمل اور پھر اس ردعمل کے ردعمل کے لامتناہی سلسلے سے بچنے کی صورت نکالی جاسکتی ہے۔ یہ بات بہرطور نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ یک طرفہ جنگ بندی دیرپا نہیں ہوتی۔ اس لئے اب مذاکرات کی بحالی اور اسے منطقی انجام تک لے جانے کے لئے دونوں فریقوں کو جنگ بندی کرنا ہوگی۔ ان حالات میں یہ اشارے حوصلہ افزاء ہیں کہ حکومت اور طالبان کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر رابطے جاری ہیں اور حکومت نے مذاکرات کرنے والوں کے لئے دروازے اب بھی کھلے رکھے ہیں۔ حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں میں شامل افراد سمیت علماء اور دانشوروں میں ایسے لوگ کم نہیں ہیں جو دونوں جانب اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اب بھی حالات کو سنبھال سکتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ مذاکرات کا ڈول پھر ڈالا جائے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ بعض بنیادی باتیں پہلے سے طے کرلی جائیں۔ جنگ اور خونریزی میں کسی کا فائدہ نہیں۔ اس کے نقصانات کے بعد بھی بالاخر مذاکرات کی طرف آنا پڑتا ہے۔ اس لئے مزید وقت اور جان و مال کے زیاں سے بچنے کے لئے اسی راستے کی طرف واپس آنا بہتر ہے۔ مسئلے کا آخری حل بات چیت ہی ہے۔ اس بات کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔

پاک چین معاہدے :سرمایہ کاری کے نئے امکانات
پاکستان اور چین کے تعلقات ہر دور میں مثالی رہے ہیں ۔ دفاع، امور خارجہ، تعلیم ، تحقیق، تجارت، توانائی، انفرا اسٹرکچر وغیرہ کے شعبوں میں ہمیں چین کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ گوادر کی بندرگاہ اور ایٹمی توانائی کے متعدد منصوبوں میں چین کی مہارت اور وسائل سے پاکستان پورا استفادہ کررہا ہے۔ معیشت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں چین کے مزید تعاون سے ہم ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بہت کم وقت میں دور کرسکتے ہیں۔چین ہماری تعمیر و ترقی میں مزید مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے گزشتہ ادوار حکومت میں بھی آمادگی ظاہر کرتا رہا مگرخود ہمارے ارباب اقتدار نے اس کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ اعلیٰ سرکاری سطح پر پائی جانے والی کرپشن بھی چینی دوستوں کے لئے اس معاملے میں ایک رکاوٹ بنی رہی۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کے لئے کوشاں نظرآتی ہے۔ اس کا ایک بھرپور مظاہرہ گزشتہ روز چینی دارالحکومت بیجنگ میں چین اور پاکستان کے درمیان بیس ارب ڈالر کے منصوبوں کی سمجھوتے کی شکل میں ہوا ۔ دونوں ملکوں کے صدور کی موجودگی میں اس سمجھوتے پر پاکستان کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور چین کے نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے وائس چیئرمین ژانگ ژیاؤ کیانگ نے دستخط کیے۔ان میں بیس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار،شاہراہ قراقرم کی اسلام آباد تک توسیع نیزکراچی لاہور موٹر وے ،نیاگوادرایئرپورٹ اور اقتصادی زون کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کے مطابق چین نے پاکستان میں ٹرانسپورٹ، ریل اور روڈ لنکس کے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بلاشبہ چین کے وسائل اور مہارت سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی یہ حکمت عملی پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردارا دا کرسکتی ہے لیکن اس کے لئے تمام معاملات، معاہدوں اور ان پر عمل درآمد کے طریق کار کو مکمل طور پر شفاف اور کرپشن کے ہر امکان سے پاک رکھنا اور ہر قدم پر قومی مفاد اور خود مختاری کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

لاپتہ افراد اور قانون کی عملداری
وزارت دفاع کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خالد نے سپریم کورٹ میں بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے 8 افراد کے بارے میں بعض ایجنسیوں پر لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت بلوچستان نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے بعض افسران پر اغوا کے الزام میں ایف آئی آر درج کروائی ہے جن کے خلاف متعلقہ قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔بلوچستان سے مختلف افراد کا اچانک غائب ہو جانے کا سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اور اس کا الزام بڑے تواتر اور تسلسل سے بعض حساس اداروں پر لگایا جاتا رہا ہے اگرچہ ان سارے الزامات کے لئے کسی ایک ایجنسی کو مورد الزام ٹھہرانا تو درست نہ ہوگا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض اہلکار کئی مرتبہ اپنی حدود سے ایسا تجاوز بھی کر جاتے ہیں جس کی آئین اور قانون ہی نہیں مسلمہ اخلاقی ضوابط بھی اجازت نہیں دیتے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد باغیانہ سیاسی سوچ رکھنے، ریاست کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے یا دانستہ و نادانستہ طور پر بعض دشمن ممالک کے مفادات کے لئے کام کرتے رہے ہیں ۔اس نوع کے الزامات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو بھی کسی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ازخود کسی پر فرد جرم عائد کر کے اسے حق آزادی سےہی محروم کر دے اس پس منظر میں سپریم کورٹ کے سابق اور موجودہ چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے لئے جو پرزور جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ نہ صرف متعدد لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہیں بلکہ اب دو حاضر سروس افسران کے خلاف ان کے متعلقہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جارہی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ملک میں قانون کی عملداری قائم ہے اور کسی سرکاری اہلکار کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالا سمجھے کیونکہ اگر باڑ ہی کھیت کو کھانے لگےتو پھر ریاست کہاں رہے گی۔اس لئے نچلی سطح سے لیکر بلند ترین ایوانوں تک قانون کا یکساں نفاذ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
تازہ ترین