مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
کالج لائف، ہر طالبِ علم کی زندگی کا ایک یادگار دَور ہوتا ہے، اس دوران اگر اچھے اساتذہ کی رہنمائی میسّر آجائے تو طالب علم کی صلاحیتیں خُوب نکھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ معاشرے کا قابل اور کام یاب فرد بن کر اُبھرتا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمی ہے کہ اُس دَور میں ہمارے کالج کو ایک نیک اور قابل پرنسپل میسّر آئیں، جن سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے کا موقع ملا۔ میڈم حافظہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی قابل خاتون تھیں، جو حافظۂ قرآن ہونے کے ساتھ دنیاوی علوم میں بھی ماہر تھیں۔ اُن کے دَور میں کالج میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی بہت زور دیا جاتا تھا۔
علمی وادبی مباحثے منعقد کروائے جاتے، جن میں تمام طالبات بھرپور حصّہ لیتیں۔ اُن ہی کے دَور میں کالج کی طالبات کے لیے این سی سی، یعنی نیشنل گارڈ ٹریننگ کا آغاز ہوا۔ مَیں نے بھی اس ٹریننگ میں حصّہ لیا اور اپنی کمپنی کی کمانڈر نام زَد ہوئی۔ اچھی کارکردگی کی بنیاد پر مجھے کورس کے اختتام پر تعریفی سند اور ایک کپ ملا، جوآج بھی میرے لیے فخر کا باعث ہے۔ ہماری میڈم، طالبات کے لیے درس کا بھی خصوصی اہتمام کرتیں۔ رمضان المبارک میں کالج میں نمازِ ظہر کے بعد صلوٰۃ التسبیح پڑھواتیں۔ خصوصاً رمضان المبارک میں اُن کے درسِ قرآن کا وہ پُرکیف منظرآج بھی دل پر نقش ہے۔ اگرچہ کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اُن سے رابطہ نہیں رہا، لیکن آج بھی میرے دل سے ان کے لیے دُعا نکلتی ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں، خوش ہوں اور خیریت سے ہوں۔ (آمین) (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭ جب شہنشاہِ فٹ بال کی ہڈی ٹوٹی (غلام اللہ چوہان، گزدر آباد، کراچی)۔ ٭موت مجھ سے چھے انچ کے فاصلے پر تھی (بشیر احمد بھٹی، بہاول پور)۔ ٭انسانی ذہن کے سربستہ راز(ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)۔ ٭ناقابلِ فراموش (سیّد ذوالفقار حیدر، گلستانِ جوہر، کراچی)۔ ٭آڑ کے پار (ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)۔ ٭میری زندگی کے ناقابلِ فراموش مناظر(مصباح طیّب، سرگودھا)۔ ٭دو طوطوں کی آپ بیتی (ڈاکٹر افشاں طاہر، گلشنِ اقبال، کراچی)۔
برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭برصغیر پاک و ہند کا عظیم شاعر، ساحر لدھیانوی (بابر سلیم خان)۔ ٭Elly Brownلاوارث نہیں تھا (حسیب اعجاز عاشر)۔٭جب سائنس ہم پر فرض ہوا کرتی تھی (عثمان عاشق)۔