• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ اسّی کی دہائی کا واقعہ ہے۔ میرے دادا، رحمت خان ایک مدرسے کے متولّی تھے، جہاں سے انھیں ایک ہزار روپے، ماہانہ مشاہرے کی مَد میں ملا کرتے تھے، دادا نے مصروف رہنے کے لیے مدرسے کی ذمّے داری اُٹھارکھی تھی۔ اُس زمانے میں اسٹریٹ کرائمزیا گن پوائنٹ پر لُوٹنے کی وارداتوں کا کوئی تصوّر بھی نہیں تھا۔ اکثر جرائم یا لُوٹ مارکی وارداتیں لوگوں کو بے وقوف بناکر یا دھوکا دے کر ہوتی تھیں۔ 

ایسے لوگوں کو عرف ِعام میں ٹھگ یا نوسر باز کہاجاتا تھا۔ اکثر اُن ٹھگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکرسادہ لوح افراد اپنی زندگی بھر کی جمع شدہ پونجی تک گنوا بیٹھتے تھے۔ میرے دادا کو اللہ نے طویل عُمرعطا فرمائی تھی۔ مَیں نے انہیں ہمیشہ سفید لباس زیبِ تن کیے دیکھا۔ اُن کے سر کے بال، داڑھی یہاں تک کے بھنویں بھی سفید ہوچکی تھیں۔ اس کے باوجود ان کی صحت قابلِ رشک تھی۔ دانت بھی بالکل سلامت تھے۔ بہرحال، اُن کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ان ہی کی زبانی پیش کررہا ہوں۔

’’مَیں، اُس روز حسبِ معمول مدرسے سے آرہا تھا اور چوں کہ مہینے کی پہلی تاریخ تھی، تومشاہرے کی رقم میری تھیلی میں تھی۔ ابھی تھوڑا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک میرے سامنے دوباریش اجنبی آگئے۔ حلیے سے کسی متموّل گھرانے کے افراد لگ رہے تھے۔ اُن میں سے ایک نے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور دوسرے نے صرف سلام ہی پر اکتفا کیا۔ مصافحہ کرنے والا دراز قد تھا اوراُس کی آنکھیں بالکل گول، اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ غور سے دیکھنے سے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے کوئی الّو آنکھوں سے آنکھیں ملا کردیکھ رہا ہو۔

مَیں نے فوراً اس کے چہرے سے اپنی نظریں ہٹالیں۔ دوسرا شخص قدرے پستہ قد تھا، لیکن اُس کی آواز میں ایک خاص تمکنت تھی۔ مَیں حیرت سے اُنھیں دیکھ ہی رہا تھا کہ دراز قد شخص نے مجھ سے مخاطب ہوکرکہا ’’بابا! آپ کے بیٹے کے پائوں میں درد رہتا ہے؟‘‘ مَیں غیرمتوقع سوال سُن کر حیران رہ گیا، کیوں کہ واقعی میرے بیٹے کے پائوں میں تکلیف رہتی تھی اور ڈاکٹرز نے اُسے عرق النسا کا درد بتایا تھا، جس کا باقاعدہ علاج چل رہا تھا۔ جب کہ اُن دونوں اشخاص کو مَیں بالکل نہیں جانتا تھا، وہ دونوں میرے لیے یک سر اجنبی تھے۔ میں حیران رہ گیا کہ اُنہیں کیسے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے کے پائوں میں تکلیف ہے۔ 

مَیں نے پوچھا کہ ’’آپ کون ہیں اور آپ کو کیسے پتا چلا کہ میرے بیٹے کی ٹانگ میں تکلیف ہے؟‘‘ ان میں سے پستہ قد نے کہا کہ ’’بابا! ہم خاندانی حکیم ہیں، حکمت ہمارا آبائی پیشہ ہے۔ ہمارا تعلق شکارپور سے ہے، ہم اکثر دُور دراز کے علاقوں میں حکمت کی غرض سے جاتے ہیں اور مہینے دومہینے لوگوں کا علاج اور خدمت کرکے اپنے شہرواپس لوٹ جاتے ہیں، شکارپورمیں ہمارا ذاتی مطب ہے۔‘‘ خیر، وہ مجھے ایک ریستوران میں لے گئے اور چائے کا آرڈر دے دیا۔ مجھے تھوڑی بہت تسلّی ہوگئی تھی کہ چلو، اُن سے اپنے بیٹے کے لیے دوا لے لوں گا، جس کی وجہ سے مَیں اکثر پریشان رہتا ہوں۔ پستہ قد شخص کا نام منظور علی، جب کہ دراز قد شخص کا نام برکت علی تھا۔ 

دورانِ گفتگوانہوں نے مجھ سے کہا ’’بابا! تمہارے پاس پیسے ہیں۔‘‘ مَیں نے فوراً ہامی بَھرتے ہوئے رقم کی تھیلی اُن کے سامنے رکھ دی۔ منظور علی نے تھیلی اُٹھائی اور اُس میں سے صرف ایک سوروپیا نکالا اور تھیلی واپس دیتے ہوئے کہا ’’بابا! فی الحال مَیں آپ کو ایک سو روپے میں صرف ایک پھکی دے رہا ہوں۔ یہ اپنے بیٹے کو دودھ کے ساتھ کھلا دینا، اگر فائدہ ہوتا نظر آئے، تو ہم ایک ہفتے تک اسٹیشن کے قریب مسافر خانے میں ٹھہرے ہوئے ہیں، بقیہ دوا وہاں سے لے جانا۔‘‘ میں مطمئن ہوگیا کہ چلو، ایک سوروپے میں بیٹے کی دوامل گئی۔

دوا لے کرمیں خوشی خوشی گھر آگیا۔ گھر پر سب میرا بے چینی سے انتظار کررہے تھے، کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ آج مَیں مدرسے سے تن خواہ لے کر آئوں گا۔ میرے بیٹے کو بھی گھر کے کچھ کام کے لیے پیسوں کی اشد ضرورت تھی۔ مَیں نے فوراً پیسوں کی تھیلی نکالی اور اپنے بیٹے کو دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں ایک سوروپیا کم ہے، کیوں کہ آج مجھے راستے میں دوفرشتہ صفت حکیم ملے تھے، تیرے پائوں کے درد کے لیے اُن سے دوا لیتا آیا ہوں۔‘‘ بیٹے نے جب تھیلی کھولی، تو اُس میں رقم کی جگہ سوکھی گھاس بَھری ہوئی تھی۔ اور پھر ہمیں سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ میرے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔ 

میری اہلیہ اور بیٹا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ بیٹا مجھ سے سوال، جواب کرنے لگا کہ کون لوگ تھے، کیسے تھے؟ مَیں نے بے چارگی کے عالم میں اُن کا حلیہ بتایا تو وہ چونک گیا اور بتایا کہ ’’ابّا جی! اسی حلیے اور قد کاٹھ کے دو آدمی آج محلّے میں مدرسے کا چندہ مانگنے آئے تھے۔ انہوں نے ہمارے گھر سے پانی بھی پیا تھا اور باتوں ہی باتوں میں مَیں نے اُنھیں اپنے پائوں کی تکلیف کا بھی بتایا تھا۔‘‘ بیٹے کے منہ سے یہ انکشاف سن کر تو مَیں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ 

پھر فوری طور پر میرا بیٹا اور محلّے کے چند نوجوان اسٹیشن کے مسافر خانے کی طرف دوڑے، مگر وہاں سے معلوم ہوا کہ ان ناموں کا کوئی مسافریہاں نہیں ٹھہرا۔ مَیں لُٹ چکا تھا، جس کا صرف افسوس ہی کیا جاسکتا تھا۔ تھوڑی دیر میں میرا بیٹا اور محلّے کے لوگ واپس آگئے، لیکن حیرانی اس بات کی تھی کہ انہوں نے میرے سامنے ایک سو روپیا نکال کر بقیہ رقم تھیلی میں رکھ کر مجھے دی تھی۔ تو پھر وہ گھاس پھوس میں کیسے بدل گئی۔ یہ نظر کا دھوکا تھا یا کوئی جادوگری، مَیں بالکل نہ سمجھ سکا۔‘‘

اپنے دادا کے ساتھ پیش آئے اس واقعے کو ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں، جومعمولی فائدے کے لیے اپنا ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ قارئین سے میری گزارش ہے کہ کبھی کسی اجنبی پر بھروسا کریں، نہ اپنے گھر کی معلومات کسی سے شیئر کریں۔ (فضل محمود تائولی،غوثیہ کالونی، میرپورخاص)