• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ میں جنگ بندی: اسرائیل سے تجارت کا خاتمہ ناگزیر

حفصہ طارق

فلسطین کے شہر، غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو 150سے زائد دن گزر چُکے ہیں اور ان سطور کی اشاعت تک اس یک طرفہ جنگ میں 30ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق اورکم و بیش70ہزار زخمی ہو چُکے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے خلاف جہاں دُنیا بَھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں، وہیں مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے اَن گنت افراد نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کر رکھا ہے، جن میں سامانِ خورونوش قابلِ ذکر ہے۔بلاشُبہ یہ ایک قابلِ تحسین اَمر ہے اور اسرائیلی مصنوعات کے مقاطعے سے اس کی آمدن میں کمی واقع ہو رہی ہے، لیکن صیہونی ریاست پر موثر اور نتیجہ خیز دبائو ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اُس کی معیشت کے بنیادی ستونوں سے متعلق کماحقہ علم ہو اور ہم انہیں کم زور کر کے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر سکیں۔

2022ء کے اعدادو شمار کے مطابق اسرائیل کی جی ڈی پی تقریباً 522ارب ڈالرز ہے۔ گرچہ اسرائیل کی مستحکم معیشت کے سیکڑوں عوامل ہیں، لیکن ان میں ہائی ٹیک انڈسٹری قابلِ ذکر ہے، جو مسلسل ترقّی کی منازل طے کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ ہائی ٹیک یا ایگزو ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد کو دیگر کے مقابلے میں تین گُنا زیادہ تن خواہیں ملتی ہیں۔2021ء میں اسرائیل کی مجموعی برآمدات میں ہائی ٹیک ایکسپورٹس کا حصّہ 54فی صد تھا، جن کی مالیت 67بلین ڈالرز بنتی ہے۔ 2022ء میں اسرائیل کی جی ڈی پی اور مجموعی برآمدات میں ایڈوانس ٹیکنالوجی پر مبنی ایکسپورٹس کا تناسب بالترتیب 18.1فی صد اور 48.3فی صد تھا۔ ہائی ٹیک انڈسٹری پر اسرائیلی باشندوں کے غلبے کا سبب اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کی جانے والی بیش بہا سرمایہ کاری اور علم و تحقیق میں دِل چسپی ہے۔

اس کا اندازہ اس اَمر بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2021ء میں اسرائیل نے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر اپنی جی ڈی پی کا 5.6فی صد خرچ کیا۔پھراسرائیل اس وقت سائبر سکیوریٹی، زرعی ٹیکنالوجی، فوڈ ٹیکنالوجی، کلین ٹیک اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت ہائی ٹیک کے دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اگر سائبر سکیوریٹی اور ہوم لینڈ سکیوریٹی انڈسٹری کی بات کی جائے، تو 2017ء کے اعدادوشمار کے مطابق 300اسرائیلی کمپنیز دُنیا بَھر میں بارڈر کنٹرول، بائیو میٹرک اسکین، یو اے وی جیمنگ سسٹم، ویڈیو سرویلیئنس اور انٹیلی جینس گیدرنگ جیسی سہولتیں فراہم کررہی ہیں اور ان شعبہ جات میں مسلسل تحقیق جاری ہے، جب کہ گزشتہ برس اس ضمن میں امریکا اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر 4ملین ڈالرز کا ایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے۔

زرعی ٹیکنالوجی کی بات کی جائے، تو یہ پانی اور قابلِ کاشت اراضی کی کمی سمیت دیگر زرعی مسائل پر قابو پاتے ہوئے پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس وقت اسرائیل دُنیا بھر میں اپنی زرعی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کر رہا ہے، جن میں پیکیجنگ پلانٹس، مویشیوں کی خوراک تیار کرنے والی مشینز اور پولٹری کے آلات سمیت دیگر زرعی مشینری شامل ہے۔ 

دوسری جانب دُنیا بھر میں خوراک کی کمی دُور کرنے کے لیے اسرائیل کی فوڈ ٹیک انڈسٹری سرگرم ہے۔ مذکورہ انڈسٹری کے چار شراکت دار ہیں، جن میں سرمایہ کار،ا سٹارٹ اپس، کارپوریشنز، جامعات اور تحقیقی مراکز شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، پینے کے صاف پانی کے بُحران سے نمٹنے کے لیےبھی اسرائیل ہی کی کلین ٹیک انڈسٹری پیش پیش ہے۔ 

مذکورہ انڈسٹری نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے، قابلِ تجدید توانائی اور ماحولیات کے حوالے سے خدمات فراہم کرتی ہے۔ 2017ء کے اعدادوشمار کی رُو سے اسرائیل کی کلین ٹیک انڈسٹری کی برآمدات کا حجم ایک بلین ڈالر تھا اور اس میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ نیز،اسرائیل، فضائی آلودگی میں کمی اور فضا کو بہتر بنانے کے لیے آٹو موٹیو انڈسٹری میں نِت نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروا رہا ہے۔

گرچہ اسرائیل بڑے پیمانے پر گاڑیاں تیار نہیں کرتا، مگر تقریباً150اسرائیلی کمپنیز گاڑیوں کے مختلف پُرزہ جات تیار کرتی ہیں، جنہیں مینو فیکچررز اور مارکیٹ کو سپلائی کیا جاتا ہے۔اسی طرح اگر ’’فنٹیک‘‘ یا فنانشل ٹیکنالوجی کی بات کی جائے، تو اسرائیل دُنیا کی ترقّی یافتہ فنٹیک کمپنیز کے اعتبار سے بھی سر فہرست ہے۔ 2017ء میں اسرائیل میں فنٹیک سے وابستہ تقریباً 250کمپنیز کام کر رہی تھیں، جب کہ گزشتہ برس اس شُعبے میں 617ملین ڈالرز کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی۔ فنٹیک کمپنیز پیمنٹ ٹیکنالوجیز، قرضے، سرمائے کے انتظام، بچت، رقم کی منتقلی اور ورچوئل کرنسی سمیت دیگر سروسز فراہم کرتی ہیں۔

اب ہم بات کرتے ہیں ،اُس انڈسٹری کی، جس کا اسرائیلی ہائی ٹیک ایکسپورٹس میں سب سے زیادہ حصّہ ہے، یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ جب سافٹ ویئر کی بات ہو، تو دُنیا بَھر کے سافٹ ویئر ہائوسز اسرائیل کی جانب دیکھتے ہیں۔ اسرائیل کے آئی ٹی سیکٹر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1998ء میں اس کی آئی ٹی ایکسپورٹس کا حجم 1.5بلین ڈالر تھا، جو 2009ء میں 400فی صد اضافے سے 6.2بلین ڈالر ہو گیا۔ نیز، اسرائیلی ہائی ٹیک کمپنیز کے تیار کردہ مدر بورڈز بھی دُنیا بَھر میں مقبول ہیں، جو پی سی سے لے کر اسمارٹ فونز تک میں نصب کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ اسرائیلی کمپنیز کی دیگر خدمات بھی دُنیا بَھر میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

ہر چند کہ غزہ میں جاری صیہونی ریاست کے وحشیانہ مظالم کے خلاف احتجاج اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے اظہارِ یک جہتی کے طور پر اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حلیف، امریکا کی فوڈ پراڈکٹس اور فوڈ چینز کے بائیکاٹ سے دونوں ممالک کی معیشت پر منفی اثرات مرتّب ہوں گے، لیکن اس کے نتیجے میں اسرائیل، غزہ میں جنگ بندی پر مجبور نہیں ہوگا، لیکن اگر دُنیا بَھر کے ممالک، بالخصوص اسلامی ریاستیں اجتماعی طور پر اسرائیل سے اپنے تجارتی تعلقات منقطع کر لیں، تو یہ دبائو کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ 

یاد رہے کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم سے ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے عالمی برادری کو مخلصانہ کوششیں کرنا ہوں گی، جب کہ مسلمانوں کے لیے تو یہ جنگ بندی ناگریز ہے، کیوں کہ اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہو گیا، تو پھر فلسطین کے ارد گرد واقع دیگر اسلامی ممالک اس کا اگلا ہدف ہوں گے۔