کم از کم دو نسلوں کے خیالات اور معاملات کا جائزہ لینے کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ قوم کو سیاسی اور سماجی طور سے آگے کیسے بڑھنا ہے۔ بیسویں صدی کی ساٹھ کی دّہائی (1960) اور اکیسویں صدی (2000) کے پہلے عشرے کی پود کا موازنہ کرنے سے قبل قابلِ غور بات یہ کہ پچھلے پچاس سال کے بعد کے ارتقا کو انقلاب ہی جانئے، پچاس سال سے پہلے دنیا کی تاریخ میں تغیر اس قدر سست تھا جو واقعتاً ارتقاء کی تعریف پر پورا اترتا یعنی ایک ادنیٰ سی تبدیلی کہ صدیوں پر محیط ! کنویں کا پانی اور کھیتوں کو سیراب کرنا، بیل گاڑی کی جدتوں تک ہی سفر کا محدود ہونا، جنگوں میں فقط شمشیروں کا بےنیام ہونا، جس سائنس کی سمجھ نہ آنا اسے خدا مان لینا یہ سب پچھلے پچاس سال تک یورپ کے پسماندہ اور مشرق کے جدید خِطوں میں وجود رکھتا تھا۔ کل ہی کی بات ہے کہ تیس پینتیس سال قبل سائیکل کو بھی پیار سے گاڑی کہا جاتا، لیکن آج کا نوجوان بھلے وہ ایتھوپیا اور پاکستان ہی میں کیوں نہ بستا ہو وہ روایتی خط پَتر سے ناآشنا اور سائیکل کو گاڑی کہنے کو سنگین مذاق گردانتا ہے کیونکہ یہ ڈیجیٹل لائف والا گلوبل ویلیج کا باسی ہے!
جدید اور ماضی قریب کی نسلوں کے مقدمہ کے فکری اور نظریاتی زاویے کھنگالنے کی التماس سیاسی و سماجی و نفسیاتی ماہرین سے بھی کی جاتی ہے کہ تبدیلوں کے فہم میں اس بات کو بھی بٹھانے کی ضرورت ہے کہ جیسے پورے عالم پر موسمیاتی تبدیلیوں نے پنجے گاڑ لیے ہیں کچھ ایسے ہی جمہوریت نے مغرب سے مشرق تک انسانی حقوق کی آڑمیں سرمایہ اور اشرافیہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنےکی ٹھان لی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سابق صدر نے امریکہ میں غیر روایتی و غیر حقیقی طرزِ عمل اپنائے، مجرمانہ غفلتوں سے قانون تک کا بھی مذاق اڑایا ، محققین اور مبصرین کی سنجیدہ اور معتبر ریسرچ کے مطابق امریکی صدور کی رینکنگ میں وہ ناکام ترین قیادت کی فہرست کا حصہ ہے لیکن اسکی عوامی پذیرائی کا یہ عالم کہ وہ آگے کہیں پھر الیکشن جیت سکتا ہے! بات چونکہ ایک مخصوص نسل کے مخصوص پود کے موازنہ سے شروع ہوئی چنانچہ یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ کچھ ہی سال قبل بارک اوباما جیسے سیاہ فام کو دو دفعہ صدر چنا گیا، اور وہ کئی صدارتی رینکنگ میں ٹاپ ٹین فہرست تک بھی پہنچا لیکن چند ہی برس بعد اگر امریکی عوام میں ٹرمپ کی قبولیت بڑھ جاتی ہے تو اس پر سوشل انجینئرز اور ماہرین سیاسیات کو تحقیق بہرحال کرنا ہو گی!
یہاں، پچھلی ڈیڑھ دَہائی کی سیاست نے ایسی ہلچل مچا رکھی ہے کہ حقیقت کا کوئی سِرا ہاتھ آتا ہے نہ عصرِ حاضر کے سیاسی فلسفے کی کوئی قَلعی کھلتی ہے۔ آ جا کر ہم اسٹیبلشمنٹ پر ملبہ ڈال دیتے ہیں، بھئی مقتدر ہی کے پاس قیادت کی امامت آ ٹھہری تو سوال بنتا ہے کہ زرداری صاحب سے میاں صاحب تک اور فضل الرحمٰن سے سراج الحق تک، حتیٰ کہ خان تک پھر لیڈر کیسے ہوئے؟
ڈیڑھ عشرے میں عمران خان کا ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح کا جھوٹ سچ سے مہنگا ہی نہیں رہا ہاتھوں ہاتھ بِکا بھی۔ پورے دورِ اقتدار میں کارکردگی اوسط درجہ سے نیچے، بات بات پر مُکرنا بھی شباب پر رہا، وزیراعظم ہوتے ہوئے تقاریر اپوزیشن لیڈر والی، ریکارڈ قرض بھی اٹھایا گیا، گورننس پر اپنے بھی تنقید کرتے رہے، کرپشن، اقربا پروری کی واضح شہادتیں، فیملی معاملات کی شرعی نازکی پر سوالیہ نشان، ماضی کی سلیبرٹی کے دور کے دامن پر واضح داغ کہ اولاد تک کو ماننے نہ ماننے کا عالمی سطح پر جھگڑا.... لیکن پارسائی کو وہ تقویت کہ عوام میں سے مرشد بھی مانیں اور لیڈر بھی! حالانکہ خان صاحب جب اقتدار کی کسوٹی پر آئے تو وہی روایتی رنگ انکے بھی تھے اور وہی روایتی لوگوں پر مشتمل ٹیم جس نے’’تبدیلی‘‘ جذبہ یا ’’تبدیلی‘‘ اصطلاح کا بھرکس نکال دیا مگر پوسٹ ٹرُتھ اور گیس لائٹنگ کی بھرپور عمرانی صلاحیتوں نے ہر جھوٹ اور ہر وعدہ خلافی کے علاوہ دکھائے خوابوں کی نہ نظر آنے والی تعبیر کو بھی ملمع کاری سے بدل ڈالا، ناکام وزیر اعظم بیانیہ بنانے کے ناقابلِ تسخیر بادشاہ ثابت ہوئے، دس پندرہ سال شریف بُرا اور زرداری بُرا کہہ کہہ کر نوجوانوں کو خوب گرویدہ بنایا، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا وہ استعمال عمل میں لائے جو زرداری و نواز اور انکی ٹیموں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ آصف علی زرداری جو وقت کے ساتھ چلنے اور مفاہمت تھامے رکھنے والے لیڈر ہیں انکی 18ویں ترمیم کی فراست، ایرانی گیس کے حصول کی چاہت، سی پیک کے آغاز کی طاقت اور این ایف سی ایوارڈ کی طویل المدتی نفاست، جمہوری عزم اور پارلیمانی تقویت کو پیپلزپارٹی کی طرف سے نوجوانوں کو باور ہی نہ کرایا جاسکا کہ بیشتر نوجوانوں کا مطالعہ پاکستان پچھلے دس بیس سال پرہی جامد ہو کر رہ گیا۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم بھٹو سیاست کو کوڑوں اور قلعوں کی نذر کیسے بغیر ڈیو پراسس اور بغیر فیئر ٹرائل رکھا گیا، یہی نہیں بیسیوں مار بھی دئیے گئے! بہت سے لوگ مولانا، زرداری و شریف کے اس لئے خلاف ہوگئے کہ خان بھلے خود کچھ نہیں کرتا لیکن دیگر قیادت کے متعلق کہتا درست ہے۔ گویا ایک بڑا طبقہ کردار چھوڑ کر گفتار کے پیچھے دوڑ پڑا....جس نسل نے خان کو کھیلتے بھی نہ دیکھا اس نے بھی ہیرو مان لیا،’’ریاست مدینہ‘‘کا جادو اسلام پسندوں پر چل گیا جو بھول گئے یہ چائنہ و ملائشیا ماڈلوں کے نام بھی لیتے رہے! اس کا مطلب یہ نہیں کہ فضل الرحمٰن ، آصف زرداری اور شرفاء نے غلطیاں نہیں کیں۔ یقیناً کی ہیں لیکن عمران خان مقتدر ہ کی مدد سے ابتدا میں وہ فنکار ثابت جو اپنی غلطیاں مخالفین کی غلطیوں میں چھپا دیتے ہیں۔ آخر مقتدر کے ساتھ بھی خان نےمقتدر ہی کی چال چل دی، اُنکے سب احسان کو اپنی مظلومیت میں روند ڈالا، اگر عمران کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد الیکشن کرادئیے جاتے تو عمران خان کی خراب کارکردگی اور جھوٹ’’مظلوم رنگ‘‘ چادر نہ اوڑھ پاتے اور بری طرح ہار جاتے بعد میں IMF سے عمرانی غلط بیانیوں کا سامنا بھی مخالفین نے کیا اور مہنگائی کے کردہ و ناکردہ گناہ خود سمیٹے!
حالیہ پود کو موٹرویز اور گلوبل ویلیج سہولتیں ورثہ میں ملی ہیں انہیں شریف ترقیاتی کمال، بھٹو آئینی جمال کا ادراک تب ہوتا اگر 1970سے قبل کا پاکستان دیکھا ہوتا۔ قصہ مختصر ، شریف برادران اور آصف زرداری کو ٹیموں سمیت پُراثر ڈیجیٹل ہونا ہوگا ورنہ مدعی ہوتے ہوئے بھی عوامی عدالت میں ملزم قرار پائیں گے، اپنا مقدمہ خود لڑنا ہوگا، کوئی اور نہیں لڑ پائے گا!