• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کی نئی ڈیل کے لیے شہباز شریف کی نو منتخب حکومت بڑی پر امید ہے۔ سوال یہ ہے کہ انتہائی سخت شرائط کے ساتھ اس ڈیل سے پاکستانی عوام کا کیا حال ہوگا؟ کیا انہیں کوئی ریلیف مل پائے گا یاپھر ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا؟اس کا اندازہ اگلے ایک دو ماہ میں ہو جائے گا۔ پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد12کروڑ 66لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے۔طرفا تماشا یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال 300 ارب روپے سرکاری افسران کی شاہانہ طرز زندگی بر قرار رکھنے پر خرچ ہو تے ہیں۔ہمارے بست وکشاد کی تعیشات اورغیر ضروری پروٹوکول کا خمیازہ غریب عوام عرصہ دراز سے بھگت رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب آئی ایم ایف کی بھیک کے سہارے نہیں چلا جا سکتا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ تجارتی خسارہ گزشتہ نو ماہ کے دوران 22ارب 90کروڑ روپے ہے۔ مہنگائی میں بھی48فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کی معاشی شرح نموانتہائی کم رہی جس کی وجہ سے مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی صورتحال پر شدیدتشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو احسا س ہی نہیں ہے کہ عوام کس قدر اذیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے موجودہ نا مساعد حالات کی وجہ سے رواں سال کے دوران آٹھ لاکھ پچاس ہزار افراد بیرون ممالک چلےگئے ہیں۔ نئی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جو ملک بھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں گئے ان کی معیشت تباہ ہو ئی۔ ہمیں آئی ایم ایف کی بجائے قو می خود انحصاری کے ذریعے ملکی معیشت کو سدھارنا ہوگا۔المیہ یہ ہے کہ ملک و قوم اس وقت قرضوں کی دلدل میں بری طرح دھنسے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا غربت کے خاتمے کے لئے چینی ماڈل کی پیروی کرنے کے عزم کا اظہار خوش آئند ہے مگر ان کو سب سے پہلے ملک سے کرپشن اور بیورو کریسی کے شاہانہ اخراجات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ملکی معیشت کو درست کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کو درست کرنا پڑے گا۔ وزرا کی فوج ظفر موج کو مرکز اور صوبوں میں کم کر کے سرکاری اخراجات اور مراعات کو کنٹرول کرنا بھی وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ کرپشن اور کرپٹ نظام کو تقویت دینے والے ہمارے بعض ارباب اقتدار ہیں جنھوں نے قومی خزانے کو بیدردی سے لوٹا ہے۔ ان کا کڑا احتساب ہی ملکی ترقی کا ضامن ہے۔ جب تک یہ لوگ ملک و قوم پر مسلط رہیں گے اس وقت تک کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ چین کی مثالیں دینے والے ہمارے حکمراں یہ مت بھولیں کہ چین نے اپنے ملک میں سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کیا تھااور پھر وہ ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ ہے، اس کے بعد ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ اور پھر عدلیہ ہے۔جبکہ تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم، ایکسائز اور انکم ٹیکس بالترتیب چھٹے، ساتویں اور آٹھویں کرپٹ ادارے ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت غربت کی شرح بلند ہے، 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بے روزگاری ایک اور اہم معاشی چیلنج ہے، جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگارہے۔ ہمارے ہاں افراط زر ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔جس میں ضروری اشیاء اور خدمات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔جس سے اب غریبوں کے لیے پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کی تباہی سے لے کر معاشی بدحالی تک کرپشن ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بدعنوانی کے سدباب کے لئے ایماندار لوگوں کو تمام سرکاری عہدوں پر فائز کرنااور ان کےکام میں سیاسی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔سرکاری افسران کو اختیارات کے غلط استعمال اور فنڈز میں خرد بردکرنے والوں کا بھی سخت ترین محاسبہ ہونا چاہیے۔ دنیا میں وہ ملک جن کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ان کا دفاعی اور دیگر شعبوں میں بجٹ تو اربوں روپے کا ہے، مگر تعلیم کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے، یہی ان کی تباہی کا باعث ہے۔بدقسمتی سے پاکستان بھی اس میں شامل ہے۔ اگر کوئی بھی ملک چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا تعلیمی نظام مضبوط کرے۔سرکاری سطح پر یونیورسٹیوں، میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر پروفیشنل اداروں کی تعدا د میں اضافہ کرے۔ آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے۔ صرف علم حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کا اطلاق بھی ضروری ہے۔تعلیمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 21فیصد پرائمری اسکول ایسے ہیں جن کو صرف ایک استاد کی مدد سے چلایا جا رہا ہے اور 14فیصد ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ 40فیصد ایسے ہیں جہاں بجلی نہیں ہے، 29فیصدا سکولوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں، 43فیصد اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور 7 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کے پاس اسکول کے لیے کوئی عمارت ہی نہیں۔ ماہرینِ تعلیم کے مطابق پاکستان میں شرحِ خواندگی کا صرف 35فیصد ہونا ملک کی معاشی ترقی کے حصول کی راہ میں ایک سب سےبڑی رکاوٹ ہے۔

تازہ ترین