• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’غزوہ بدر‘‘ رسولِ اکرمﷺ کی دفاعی اور جنگی حکمتِ عملی کا عظیم مظہر

بدر کا میدانِ کارزار
بدر کا میدانِ کارزار

غزوۂ بدر (12 تا 17 رمضان 2ہجری /8 تا13 مارچ 624ء)اسلامی تاریخ کا وہ عظیم اور تاریخ ساز معرکہ ہے کہ جب اسلام و کفر، حق و باطل پہلی بار براہِ راست صف آراء ہوئے۔ اس تاریخی معرکے میں فرزندانِ اسلام کی تعداد کفّار کے مقابلے میں ایک تہائی تھی۔ وسائلِ جنگ کے اعتبار سے مسلمان بظاہر بہت کم زور تھے اور جزیرہ نمائے عرب کا اجتماعی ماحول بھی اُن کے خلاف تھا۔ کُفر اپنے پورے کرّوفر، غرور و رعونت کے ساتھ تین گُنا زاید فوج لے کر حق کی بے سروسامانی سے نبردآزما ہونے کو میدان میں آیا تھا، لیکن اللہ کی مدد و نصرت، رسولِ اکرمﷺ کی دعائوں، آپﷺ کی دفاعی اور جنگی حکمتِ عملی، صحابۂ کرامؓ کی ایمانی فراست، جرأت و شجاعت، بے نظیر استقامت، بہادری اور جذبۂ ایمانی کی بدولت کفّار و مشرکین کو ایسی فیصلہ کُن ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کہ جس نے اُن کی کمر توڑ کے رکھ دی۔

مؤرّخین اور سیرت نگار اِس تاریخ ساز معرکے کو’’غزوۂ بدرۃ الکبریٰ‘‘اور’’ بدرالعظمیٰ‘‘ کے ناموں سے بھی موسوم کرتے ہیں، جب کہ قرآنِ کریم میں اسے ’’یوم الفرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ یعنی وہ دن، جس میں حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے درمیان فرق آشکار ہوگیا۔ حق غالب رہا اور باطل مغلوب۔

تجزیہ و پس منظر

طلوعِ اسلام اور دعوتِ حق کے نتیجے میں معاشرہ دو گروہوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک طرف وہ تھے، جنہوں نے پیغمبرِ رحمتﷺ کی دعوتِ حق پر لبّیک کہتے ہوئے حق و صداقت کا ابدی راستہ اختیار کیا، جب کہ دوسری طرف، باطل پرستوں کی پوری جماعت تھی، جو تمام تر وسائل و اسباب کے ساتھ حق کے خلاف صف آرا تھی۔

اہلِ اسلام کہتے تھے کہ اُنہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ جسے بہتر سمجھیں، وہ راہ اختیار کریں، جب کہ مشرکینِ مکّہ اِس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں، یعنی وہ مسلمانوں کے اعتقاد و ضمیر کی آزادی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اُن کی پوری جدوجہد، مخالفت اور کوششوں کا حاصل یہ تھا کہ اہلِ اسلام کو دینِ حق اور دعوت و توحید سے باز رکھیں۔

غزوۂ بدر کے اسباب

مؤرخین اور سیرت نگاروں نے غزوۂ بدر کے متعدّد مذہبی، سیاسی اور معاشی اسباب بیان کیے ہیں۔(1)اسلام کی روز افزوں ترقّی اور دین کی اشاعت سے قریشِ مکّہ کے بُت پرستانہ باطل نظام کو خطرہ لاحق تھا۔(2) مکّے کی تیرہ سالہ زندگی میں کفّارِ قریش، مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ڈھاتے رہے، بالآخر اُنھیں سخت اذیّت پہنچا کر مکّے سے ہجرت پر مجبور کیا۔(3) جو مسلمان ہجرت کر کے مکّے سے مدینے جا رہے تھے، اُن پر مظالم ڈھائے جاتے اور اُن کی جائیدادیں ضبط کر لی جاتیں۔(4) مسلمانوں کے نئے مسکن، یعنی حبشہ اور مدینے کے حُکم رانوں یا با اثر افراد کو کفّارِ قریش مسلسل یہ ترغیب اور دھمکی دے رہے تھے کہ مکّے کے اِن تارکین کو پناہ نہ دی جائے۔(5)اِن ناانصافیوں کے انتقام لینے کے لیے ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمان، قریش پر معاشی دبائو ڈالتے رہے۔ قریش کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت کو یثرب کے علاقے میں روک دیا جاتا تھا۔

قریشِ مکّہ کو اپنے تجارتی قافلوں کے لُوٹے جانے کا ہر وقت اندیشہ لاحق رہتا، جب کہ دُور دراز کے راستے اختیار کرنے پر اُنہیں نقصان ہوتا تھا۔ تو یہ تمام وہ اسباب تھے، جو آخر کار جنگِ بدر کا سبب بنے۔ (سیّد واجد رضوی / رسول اللہﷺ میدانِ جنگ میں۔ص 111)پیغمبرِ اسلام ﷺاور جاں نثارانِ نبوتؐ نے مسلسل تیرہ برس تک ہر طرح کے مظالم برداشت کیے، آخر جب اُن کے لیے مکّے میں زندہ رہنا دشوار ہوگیا، تو وہ مدینے چلے آئے، لیکن قریشِ مکّہ نے اُنھیں یہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا، پے درپے حملے شروع کردیئے، اب پیغمبر اسلامﷺ کے سامنے تین راہیں تھیں:(1) جس بات کو آپﷺ حق سمجھتے تھے، اُس سے دست بردار ہوجائیں۔(2) اُس پر قائم رہیں، لیکن مسلمانوں کو ہر طرح کی اذیّت کا سامنا کرنے دیں۔(3) ظلم و تشدّد کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور نتیجہ اللہ پرچھوڑ دیں۔

آپؐ نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور نتیجہ وہی نکلا، جو ہمیشہ نکتا ہے۔ یعنی حق فتح مند ہوا اور باطل ذلّت آمیز شکست سے دوچار۔ میدانِ کارزار کی طرف روانگی کے وقت اثنائے راہ میں حالات کی اچانک اور پرُخطر تبدیلی کے پیشِ نظر، رسول اللہ ﷺ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلسِ مشاورت منعقد کی، جس میں درپیش صُورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈرز اور عام فوجیوں سے تبادلۂ خیال کیا اور اس موقعے پر صحابۂ کرامؓ نے بھرپور جرأت و استقامت اور عزیمت کا اظہار کیا۔

صحابۂ کرامؓ کی بے مثال جرأت و استقامت

مجلسِ مشاورت میں قافلۂ حق کے اوّل اوّل مسلمان، السّابق، الاوّل، سیّدنا صدیق اکبرؓ نے نہایت والہانہ اندازمیں اظہارِ جاں نثاری فرمایا اور بسر و چشم آپﷺ کے حکم کو قبول کیا اور مال و جان سے اطاعت کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ اس کے بعد فاروقِ اعظمؓ کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے بھی اظہارِ جاں نثاری فرمایا۔ بعد ازاں، مقداد بن اسودؓ کھڑے ہوئے۔ اِس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ امام الانبیاء، سیّد المرسلین، حضورعلیہ الصلوٰۃوالسّلام جب مقامِ ذفران پر پہنچے، تو اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر بڑی شان وشوکت کے ساتھ بڑھا چلا آرہا ہے، تاکہ وہ اپنے قافلے کا بچاؤ کر سکے۔ 

اِس اطلاع نے صُورتِ حال بدل کر رکھ دی کہ پہلے مسلمان، ابو سفیان کے تعاقب میں بڑھے چلے آ رہے تھے، اب اچانک معلوم ہوا کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور قریشِ مکّہ ایک لشکرِ جرّار کے ساتھ آرہے ہیں، اِس لیے حضور سرور عالمﷺ نے مجلسِ مشاورت منعقد کی۔مہاجرین، انصار، اوس و خزرج کے قبائل سب کو اس مجلس میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔جب سب جمع ہوگئے، تو حضوراکرمﷺ نے صُورتِ حال سے آگاہ فرمایا اور پوچھا، اب تمہاری کیا رائے ہے؟ اِس موقعے پر سب سے پہلے سیّدنا صدیق اکبرؓ اُٹھے اور بہت خُوب صُورت گفتگو کی، پھر حضرت عُمرؓ اُٹھے، اُنہوں نے بھی اپنے جذبۂ جاں نثاری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

پھر حضرت مقدادؓ اُٹھے، اُنہوں نے عرض کیا’’یارسول اللہﷺ! تشریف لے چلیے، جہاں اللہ نے آپؐ کو حکم دیا ہے، ہم آپؐ کے ساتھ ہیں، بخدا! ہم آپؐ کو وہ جواب نہیں دیں گے، جو جواب بنی اسرئیل نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو دیا تھا کہ’’جائیے! آپؑ اور آپؑ کا ربّ اُن سے جنگ کیجیے، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘بلکہ ہم یہ کہیں گے، تشریف لے چلیے، ہم آپﷺ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔اُس ذات کی قسم ! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اگر آپؐ ہمیں برک الغماد تک بھی لے جائیں، تو ہم آپﷺ کے ساتھ چلیں گے اور آپﷺ کی معیّت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے، یہاں تک کہ آپﷺ وہاں پہنچ جائیں۔‘‘حضور علیہ الصلوٰۃوالسّلام نے حضرت مقدادؓ کے یہ ایمان افروز کلمات سُن کر اُنہیں کلمۂ خیر سے یاد فرمایا اور اُن کے لیے دُعا فرمائی۔

اس کے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔‘‘حضرت سعد بن معاذؓ یہ سُن کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کیا’’اے اللہ کے رسولﷺ!یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضورﷺہماری رائے پوچھ رہے ہیں؟‘‘حضور اکرمﷺ نے فرمایا’’بے شک۔‘‘ اِس پر حضرت سعدؓ گویا ہوئے’’بے شک، ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں، ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے۔ ہم نے گواہی دی ہے کہ جو دین لے کر آپؐ تشریف لائے ہیں، وہ حق ہے اور اس پر ہم نے آپؐ کے ساتھ وعدے کیے ہیں۔ ہم نے آپؐ کا حُکم سُننے اور اسے بجالانے کے پیمان باندھے ہیں۔یا رسول اللہﷺ! آپؐ تشریف لے چلیے، جدھر آپﷺ کا ارادہ ہے۔ 

ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں۔ اُس ذات کی قسم، جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اگر آپؐ ہمیں سمندر کے سامنے لے جائیں اور خُود اس میں داخل ہوجائیں، تو ہم بھی آپؐ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگا دیں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ہم جنگ کے گھمسان میں صبر کرنے والے ہیں، دشمن سے مقابلے کے وقت ہم سچّے ہیں، ہمیں اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو ہم سے وہ کارنامے دِکھائے گا، جس سے آپﷺ کی چشمِ مبارک ٹھنڈی ہوجائے گی۔پس، اللہ کی برکت پر آپﷺ روانہ ہوجائیے۔‘‘حضرت سعدؓ کے یہ مجاہدانہ جذبات سُن کر حضور اکرمﷺ کی خوشی کی انتہانہ رہی۔پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’روانہ ہوجاؤ۔ تمہیں خوش خبری ہو، اللہ تعالیٰ نے مجھے دو گروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بخدا! مَیں قوم (کفّارِ مکّہ) کے مقتولوں کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘

غزوۂ بدر کے موقعے پر آپؐ کی دفاعی حکمت عملی یہ تھی کہ فوج کے ہر حصّے پر جو افسر مقرّر فرماتے، اُسے بتاتے کہ کفّارِ مکّہ آگے بڑھیں اور اِتنی دُور پہنچ جائیں، تو اُن پر سنگ باری کی جائے اور جب اس سے قریب آجائیں، تو تیر اندازی کی جائے۔ اگر مشرکین یک لخت حملہ کردیں، تو اُنہیں آگے بڑھنے دینا اور جب یقین ہوجائے کہ تمہارے تیر کارگر ہوں گے، تو اُس وقت اُنہیں تیروں کا نشانہ بنانا، جب وہ مزید قریب ہوجائیں، تو نیزوں سے کام لینا اور جب وہ تلوار کی زَد میں ہوں، تو تلوار سے حملہ آور ہونا۔

ان ہدایات سے آپؐ کا مقصد یہ تھا کہ غیر دانش مندی اور گھبراہٹ میں کوئی اقدام نہ کیا جائے، بلکہ جس وقت جس ہتھیار کے استعمال کا موقع ہو، اُسی سے کام لیا جائے۔ جوش و جذبات میں آکر جنگ میں پہل نہ کی جائے۔ حملہ اُسی وقت کیا جائے، جب حکم دیا جائے۔دوسری طرف، جنگِ بدر میں عورتوں کے سپرد صرف بعد از جنگ مرہم پٹی ہی کی ذمّے داری نہ تھی، بلکہ جنگ کے دوران جن تیر اندازوں کے تیر گرجائیں، اُنہیں اُٹھا کر تیر اندازوں کو پہنچانے اور جنگ کرنے والوں کو پانی پلانے کی خدمت بھی اُن کے سپرد تھی۔ مجاہدین کو یہ ہدایت تھی کہ وہ دشمن کی عورتوں کو قتل نہ کریں۔

صف بندی اور اس کے معائنے کے بعد آپؐ نے جو خطبہ دیا، وہ فصاحت وبلاغت میں بے نظیر ہے۔حمد وثنا کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا’’ جن باتوں پر اللہ تعالیٰ تمہیں آمادہ کر رہا ہے، اُن ہی کی مَیں بھی تمہیں دعوت دیتا ہوں اور اُن ہی باتوں سے مَیں تمہیں روکتا ہوں، جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ اللہ کی شان بہت عظیم ہے۔ نہ معلوم وہ تمہارے کس عمل سے خوش ہوکر تمہیں کیا دے دے اور کس خواہشِ نفس پر قابو پانے کا کیا صلہ عطا فرما دے۔ اللہ حق کا حکم دیتا ہے، سچّائی کو پسند کرتا ہے، نیکی کرنے والوں کو اُن کے اخلاصِ مراتب کے اعتبار سے نوازتا ہے۔ 

اسی نیکی کے ساتھ اس کی یاد کی جاتی ہے اور اسی نیکی کی وجہ سے اس کے درجے قائم ہوتے ہیں۔ نیکی تو ایک ہی ہوتی ہے، لیکن جس درجے کا اخلاص اور اُسے انجام دینے کی جتنی زبردست خواہش ہوتی ہے، اُسی لحاظ سے اجر کے درجات میں کمی و زیادتی ہوتی ہے۔ اللہ نے تمہیں حق کی میزان بنا دیا ہے، تم جانتے ہو، وہی نیکی قبول ہوگی، جو اللہ کی خوش نُودی کے لیے ہو اور جنگ کے وقت چوٹ سہہ جانے اور مقابلے میں قوّتِ برداشت واستقامت کے لحاظ سے تمہاری افکار دُور ہوں گی، غم سے نجات پائو گے اور آخرت میں بھی نجات تمہاری قوتِ برداشت کے اندازے پر ملے گی۔ 

اللہ کے نبیؐ تمہارے درمیان موجود ہوں گے، جو گناہ اور کم درجے کی چیزوں کی طرف تمہیں جانے سے بچاتے ہیں، نیکی اور بلند درجوں کی باتوں کا تمہیں حکم دیتے ہیں۔ اِس بات سے شرم کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ایسی باتوں پر مطلع ہو، جس سے وہ نفرت کرتا ہے اور غضب ناک ہوتا ہے۔ دیکھو! اللہ نے اپنی کتاب میں تمہیں کیا احکام دیئے ہیں اور کچھ ایسے واقعات اللہ نے تمہارے سامنے پیش کردیئے ہیں، جن کی تعمیل کے خوش کُن نتائج تمہارے سامنے آچُکے ہیں اور اس نے کِن کِن نعمتوں سے تمہیں سرفراز کیا ہے۔ تم بہت کم زور اور بے وقار تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں غالب اور باوقار بنادیا۔ 

اللہ تعالیٰ کے احکام پر پوری قوّت سے عمل کرو، تمہارا ربّ خوش ہوجائے گا اور صبرو برداشت کے موقعے پر اپنے ربّ کو امتحان دے کر ان نعمتوں کے مستحق بنو، جن کا اللہ تعالیٰ نے تم سے وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوگی۔ اس کی مغفرت سے سرفراز ہوگے۔ بے شک اس کا وعدہ حق ہے۔ اس کی بات سچّی ہے۔ اس کی نافرمانی بڑے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ بے شک، ہمارا تمہارا وجود اس حیّ وقیوم کی حیات بخشی سے ہے اور اس قیوم کے نظمِ قیامِ عالم سے ہماری زندگی کی منزلیں گزر رہی ہیں۔ ہم اس سے توقّع قائم کرتے ہیں، اسے مضبوطی سے تھامتے ہیں، اُسی پر بھروسا ہے اور اُسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ اللہ ہمیں اور سب مسلمانوں کو بخش دے۔‘‘

نبی کریم ﷺ کا یہ خطبہ بلاغت اور ایجازِ کلام، نیز اپنے مقاصد کی جامعیت کا ایک منفرد نمونہ ہے، جس میں مسلمانوں کے سامنے وہ امور پیش کیے گئے، جن کے مطابق انہیں اپنی زندگی گزارنی ہے اور جن کے بغیر یہ اندیشہ ہے کہ اُن کی زندگی کا وہ کارنامہ، جس نے اُنہیں حیاتِ ابدی عطا کی ہے، محض انتقام نہ ہوجائے۔ نیز، نام وَری وشہرت کا جذبہ، مالِ غنیمت کی حرص اُن کے دل و نظر کو گم راہ نہ کردے۔ یہ موقع جنگ کا تھا اور مسلمانوں کو آخرت طلبی اور نیکیوں میں سبقت کی دعوت دی جارہی تھی، قلوب کو متوجّہ کیا جارہا تھا تاکہ دنیا طلبی کا کوئی شائبہ نہ آنے پائے۔

کسی موقعے پر آپؐ نے مسلمانوں کو ظلم پر آمادہ کیا اور نہ ہی خون ریزی پر اُبھارا۔ ہاں، سرفروشی کے موقعے پر جان چُرانے سے ضرور روکا۔ موت کو آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود راہِ حق پر جمے رہنے کی تلقین کی۔ آپؐ نے اپنے اِس خطبے سے مسلمانوں کے اندر یہ بصیرت پیدا کردی کہ محض نفسانی جذبے کی بناء پر بڑی سے بڑی قربانی بھی نہ صرف یہ کہ بے وزن ہوجائے گی بلکہ دنیا و آخرت کی رسوائی کا سبب بنے گی۔حضور اکرم ﷺ نے جہاد فی سبیل اللہ کو مسلمانوں کا سب سے بڑا شرف بتایا اور اسے سب سے بڑی عبادت قرار دیا۔ یہ خطبہ مجاہدینِ بدر کا مورال بلند کرنے، اُن کی جرأت و شجاعت، دین پر استقامت اور اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردینے کا سبب بنا۔

رسولِ کریم ﷺ کی دفاعی اور جنگی حکمتِ عملی

ہجرتِ مدینہ کے بعد رسول اکرم ﷺ نے ’’مواخات‘‘ کے ذریعے مہاجرین کی آباد کاری، انصارِ مدینہ اور مہاجرین میں وسیع تر اخوّت و یگانگت اور معاشی و معاشرتی استحکام کے بعد ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے ذریعے مدینۃ النبیؐ میں امن کے قیام، ریاست کے استحکام، داخلہ امور اور دفاع پر خصوصی توجّہ دی۔ چناں چہ، آغاز ہی میں مدینے کے شمال، پھر جنوب اور پھر مشرقی علاقے میں آباد قبائل سے فوجی اور دفاعی معاہدے کیے، اُنہیں اپنا حلیف بنانے میں کام یابی حاصل کی۔ 

معروف سیرت نگار، ڈاکٹر محمّد حمید اللہ کے بقول:’’غالباً رسولِ اکرم ﷺ نے ان حلیف قبائل کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہوگی کہ تم تنہا ہو۔ تمہارے دشمن موجود ہیں، اگر وہ تم پرحملہ آور ہوں گے، تو کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا، ان حالات میں کیا یہ مناسب نہیں کہ تم اور ہم باہم حلیف بن جائیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی تم پر حملہ آور ہوگا، تو ہم تمہاری مدد کو دوڑے آئیں گے اور اگر ہم پر کوئی حملہ کرے اور ہم تمہیں بُلائیں، تو تم بھی ہماری مدد کو آنا۔ (محمّد حمید اللہ، ڈاکٹر/ عہدِ نبویؐ کے میدانِ جنگ، راول پنڈی، علمی مرکز، 1988ء، ص 25)اِس قسم کے معاہدوں میں یہ صراحت تھی کہ یہ صرف فوجی معاہدہ ہے۔(ایضاً ص 25)ڈاکٹر حمیداللہ لکھتے ہیں:’’اِس قسم کے پانچ، سات معاہدے تاریخ میں اب تک محفوظ ہیں۔ 

اُن پر غور کیجیے، تو نظر آئے گا کہ ریاستِ مدینہ کو محفوظ کرنے کی تدبیر اِس انداز سے کی جارہی ہے کہ مدینے کے اطراف کے علاقوں کو حلیف بنا لیا جائے، تاکہ اگر دشمن (بالخصوص کفّارِ قریش) مدینے پر حملہ کرنا چاہیں، تو وہ براہِ راست مدینے تک نہ پہنچ سکیں، بلکہ مدینے تک پہنچنے سے پہلے ہی درمیان کے علاقوں میں اُنہیں رکاوٹوں سے واسطہ پڑے، اس صُورت میں ہمارے حلیف اور دوست وہاں موجود ہوں گے، وہ اطلاع دے دیں گے۔ گویا، ایک ’’منڈل‘‘ حلقہ( Cordon )قائم ہوگیا۔ 

چناں چہ آغاز ہی سے آپؐ نے دفاعی نقطۂ نظر سے مدینے کے اطراف حلیفوں کی بستیاں قائم کیں اور پھر اُن دوستوں کی مدد سے دفاعی جنگی نقطۂ نظر سے مدینے کی حفاظت عمل میں آئی۔‘‘ (ایضاً ص 26)یہ ایک حقیقت ہے کہ مکّے میں کفّارِ قریش نے اسلام، پیغمبرِ اسلام ﷺ اور صحابۂ کرامؓ کی عداوت و مخالفت میں تمام حربے استعمال کیے، جو کچھ اُن سے ممکن تھا، وہ کیا، اسلام اور مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے، صحابہؓ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، یہاں تک کہ قریشِ مکّہ کے مظالم سے تنگ آکر رسول اکرم ﷺ اور صحابۂ کرامؓ اپنا سب کچھ مکّے میں چھوڑ کر مدینۂ منوّرہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔صحابۂ کرامؓ مدینہ آئے، تو کفّارِ مکّہ نے اُن کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا۔ ان حالات میں مسلمانوں کو قانونِ فطرت کے تحت یہ حق حاصل تھا کہ وہ اُن سے جانی و مالی دونوں طرح سے انتقام لیں۔ 

میدانِ بدر کا ایک منظر، آنے والوں کے لیے ہدایات بھی درج ہیں
میدانِ بدر کا ایک منظر، آنے والوں کے لیے ہدایات بھی درج ہیں

آغاز میں مسلمانوں کے پاس اِتنی فوجی قوّت اور وسائلِ حرب نہیں تھے کہ وہ دشمن کو جانی نقصان پہنچائیں، لیکن مسلمانوں نے اُن پر معاشی دبائو ڈالنا شروع کردیا۔ دوسری جانب، قریشِ مکّہ اپنی گزر اوقات کے لیے تجارت کے سوا کوئی اور وسیلہ نہیں رکھتے تھے۔ چناں چہ، جنگِ بدر سے قبل تقریباً سات مرتبہ مسلمان فوجیں، یہ اطلاع ملنے پر کہ قریش کا تجارتی قافلہ گزر رہا ہے، اسے روکنے کے لیے گئیں، لیکن وہ اُن کے ہاتھ نہ آیا، بلکہ کسی نہ کسی طرح بچ نکلا۔ تاہم کوششیں جاری رہیں، معلومات کے حصول کے وسائل کو ترقّی دی جانے لگی۔ حلیفوں کی تعداد بڑھانے پر توجّہ دی گئی۔ غرض، دفاعی اور جنگی نقطۂ نظر سے جو تدابیر ممکن تھیں، اختیار کی جاتی رہیں۔ 

جب قریش نے دیکھ لیا کہ مسلمان اُنھیں آسانی سے گزرنے نہیں دیں گے، تو اُنہوں نے زبردستی گزرنے کی ٹھان لی۔جنگِ بدر سے عین قبل کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ دیکھا کہ قریشِ مکّہ شمال کی طرف گئے ہیں، تو آپؐ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ دشمن کا کارواں اس راستے سے واپس آئے گا، کسی اور راستے سے وہ واپس نہیں نکل سکتا۔ 

لہٰذا دو جاسوس مقرّر کیے گئے کہ وہ ملکِ شام جا کر اس تجارتی کارواں کے قریب رہیں۔ جیسے ہی یہ کارواں انتظام کرکے واپسی کا قصد کرے، تیزی سے اطلاع دی جائے کہ دشمن اب آنے والے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب یہ دونوں جاسوس تیزی سے مدینہ واپس آئے، تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ کو کارواں کی آمد کی اطلاع دیگر وسائل سے ہوچُکی ہے اور آپؐ مدینے سے روانہ بھی ہوچُکے ہیں۔ اِس سے یہ استنباط کرنا پڑتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مختلف وسائل اختیار فرماتے تھے تاکہ دشمن کی خبریں مسلمانوں تک پہنچتی رہیں اور اس کا بھی انتظام کیا جاتا کہ مسلمانوں کی خبریں دشمن تک نہ پہنچنے پائیں۔ 

رسول اکرم ﷺ مدینے سے نکل چُکے تھے اور فوجی فراست کی بدولت مدینے کے شمال کی جانب جانے کی بجائے جنوب کی جانب جاتے ہیں تاکہ دشمن کے پہنچنے سے پہلے کسی محفوظ مقام پر پہنچ پائیں، جہاں دشمن کو روکنا ممکن ہو۔ اس کے لیے بدر کا مقام منتخب کیا گیا۔ یہ مقام بلند پہاڑیوں کے درمیان تنگ وادیوں سے گزرتا ہے، اِس لیے نسبتاً آسانی کے ساتھ یہ ممکن تھا کہ مسلمان ایک ایسے مقام پر قیام کریں، جہاں تنگ راستہ ہو۔ وہ پہاڑوں میں چُھپے رہیں، دشمن بے خبری میں آئے اور وہ اس پر چھاپہ مار سکیں۔(ایضاً ص 29) اِن حالات میں تمام حربی، عسکری اور دفاعی امور پر بھرپور توجّہ دی گئی، یہاں تک کہ رسولِ کریمﷺ نے اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں تک اُتارنے کا حکم دیا، معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے یہ کام فوج کی نقل وحرکت کو مخفی رکھنے کے لیے کیا تھا، کیوں کہ اونٹوں کے چلنے سے گھنٹیوں سے بلند آواز نکلتی ہے، جس سے دشمن کو فوج کی جگہ معلوم کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے دشمن کے قافلے کے حالات معلوم کرنے کے لیے اپنے جاسوس بھی بھیجے۔ (محمّد احمد باشمیل/ غزوۂ بدر، مترجم اختر فتح پوری، نفیس اکیڈمی، کراچی، 1986ء، ص 140)

موجودہ دَور میں انہیں انٹیلی جینس یا حالات معلوم کرنے کے آلات کہا جاتا ہے، انٹیلی جینس کے افراد فوج کے آگے اِدھر اُدھر پھیل جاتے ہیں، ان میں سے ایک بسبس بن عمرو جہنی اور دوسرے عدی بن ابی الزغبا تھے۔ یہ دونوں پہلے اشخاص تھے، جنہیں رسولِ کریم ﷺ نے بدر کی جانب ابو سفیان کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔( ایضاً ص 140)رسولِ کریمﷺ نے صحابۂ کرامؓ کے مشورے سے بدر کے ایک اندرونی حصّے کا انتخاب کیا، جہاں کنواں تھا۔ 

اس میں یہ مصلحت پیشِ نظر رکھی گئی کہ کفّارِ مکّہ بدر آئیں گے، تو انہیں بھی پانی کی ضرورت ہوگی اور پانی کا صرف ایک کنواں تھا، اگر وہ مسلمانوں کے قبضے میں رہے گا، تو دشمن یہاں آئے گا، اِس طرح دشمن پر جنگی نقطۂ نظر سے فوقیت حاصل ہوگی۔بعض صحابۂ کرامؓ کے مشورے سے ایک گڑھا بھی کھودا گیا، جس میں وافر مقدار میں پانی ذخیرہ کیا گیا۔ اس میں یہ مصلحت پوشیدہ تھی کہ دوران جنگ کسی کو پیاس لگے، تو اس دوران گہرے کنویں سے پانی نکالنے اور پینے میں دقت ہوگی، اس دوران دشمن حملہ آور ہو تو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ 

لہٰذا، مناسب ہوگا کہ ایک گڑھا ہو، جس میں پانی بَھر دیا جائے اور سپاہی وہاں پہنچ کر فوراً چلّو سے پانی پی لیں۔ دشمن اگر یہاں آئے اور پانی پینا چاہے، تو اس کی نگرانی کے لیے کچھ لوگ یہاں متعیّن رہیں، گو کہ آج یہ تدبیریں معمولی محسوس ہوتی ہیں، لیکن اُس زمانے میں فوجی اور دفاعی نقطۂ نظر سے نہایت کارآمد ثابت ہوئیں۔(ایضاً ص 32)اِس اثنا میں دشمن کی مکّے سے آنے والی فوج ابوجہل کی سرداری میں وہاں پہنچ گئی۔ دشمن کی فوج کی تعداد جاننے کے لیے ایک نگراں دستہ (پٹرول) بھیجا گیا۔ اس نے دشمن کی فوج کے دو آدمیوں کو گرفتار کرکے رسول اکرم ﷺ کے سامنے پیش کیا۔ آپؐ نے ان سے سوالات کیے، وہاں بھی دوباتیں ایسی نظر آتی ہیں کہ جو فوجی اور عسکری لحاظ سے انتہائی دل چسپ اور بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے ان سے سوال کیا کہ’’ تم کون ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مکّے سے آنے والی فوج کے سپاہی ہیں۔‘‘ پھر آپؐ نے ایک دل چسپ سوال یہ کیا کہ’’ تم لوگوں کی غذا کے لیے روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ ایک دن نو اور ایک دن دس۔‘‘ یہ سُن کر حضوراکرمﷺنے فوراً یہ استنباط کیا کہ ان کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہوگی، کیوں کہ ایک اونٹ ایک سو افراد کی ایک دن کی غذا کے لیے کافی ہوتا ہے۔(ایضاً ص 32)

ایک سوال اُن سے یہ کیا گیا کہ فوج میں کون کون سے نام وَر سردار موجود ہیں؟ اِس سوال سے غالباً آپؐ یہ اندازہ لگانا چاہتے تھے کہ جنگ کے وقت فوج کی کمان کون کون کرے گا، میمنہ میں کون ہوگا، میسرہ میں کون ہوگا، مختلف مقامات پر کون کون ہوسکتا ہے؟قصّہ مختصر، غزوۂ بدر کی تفصیلات پر غور کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ حاضر میں ماہرینِ حرب نے صدیوں کی تاریخ سامنے رکھ کر جنگ کے جو بنیادی اصول وضع کیے ہیں، اُن پر پیغمبرِ اسلامﷺ پہلے ہی عمل کرچُکے تھے۔