• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی معیشت کا بھاری بھرکم جہاز اس وقت ہچکولے کھا رہا ہے۔ ایک طرف اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے جبکہ دوسری طرف مہنگائی اور افراط زر نے اس کے رہے سہے وجود پر کاری زخم لگا دیے ہیں۔اس وقت ملک کی معیشت پر 130ارب ڈالر سے زائد کا قرض ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح فروری کے مہینے میں 23.1 فیصد کی بلند ترین سطح پر موجود رہی جس کے باعث عام آدمی کیلئے کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی ایک مشکل ترین ٹاسک بن کر رہ گئی ہے۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم نہ ہونے کے برابر ہے اور ملکی برآمدات میں بھی کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو رہا یہ سب اسباب مل کر پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا سبب بن رہے ہیں اور اس وقت ایک ڈالر کی قیمت 280 روپے کے لگ بھگ ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستانی معیشت کے ساتھ یہ کھلواڑ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ گزشتہ کئی سالوں کی ناقص پالیسیوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔

خصوصی طور پر پی ڈی ایم (1) حکومت میں موجود جناب اسحاق ڈار کی ناقص پالیسیوں نے ملکی معیشت پر گہرے گھاؤ لگائے۔ ان حالات میں آٹھ فروری 2024 کے انتخابات ہوئے مسلم لیگ نون نے سابقہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر نئی حکومت تشکیل دی جس میں سب سے اہم تعیناتی محمد اورنگزیب کی تھی جس نے تمام حلقوں کو چونکا دیا۔میاں نواز شریف کے سمدھی جناب اسحاق ڈار مسلم لیگ کی ہر حکومت میں خزانے کے ''محافظ'' رہے۔۔تاہم اس مخلوط حکومت کے دوران بطور وزیر خزانہ ان کا کردار از حد متنازع رہا۔معاشی ماہرین کے خیال میں آئی ایم ایف کے خلاف غیر ضروری بیانات کی وجہ سے ایک طرف ان کی افادیت ختم ہو گئی دوسری طرف اکاؤنٹنٹس اور اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کر کے جو پالیسیاں بنائی گئی تھیں تمام عالمی معاشی ادارے ان سے آگاہ ہو چکے تھے لہذا اس مرتبہ چہرہ تبدیل کرنا ضروری سمجھا گیا۔پاکستان کے نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ایک بینکر ہیں ماضی میں بھی کئی بینک کار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے دور حکومت میں شوکت ترین بھی یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔لیکن قابلیت اور اہلیت کے اعتبار سے محمد اورنگزیب کا ٹریک ریکارڈ اپنے پیش رو وزرائے خزانہ سے کہیں بہتر ہے۔وہ یونیورسٹی آف پینسلوانیا امریکہ کے وارٹن سکول سے تعلیم یافتہ ہیں۔وہ وزیر خزانہ بننے سے قبل پاکستان کے بڑے بینکوں میں سے ایک بینک حبیب بینک لمیٹڈ کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ اس سے قبل وہ جے پی مورگن گلوبل کارپوریٹ بینک ایشیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔علاوہ ازیں وہ اے بی این ایمرو بینک اور آر بی ایس میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر کام کرنے کا 30 سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔بینکنگ سیکٹر میں وسیع تجربہ رکھنے والے ہمارے نئے وزیر خزانہ ایک ایسے ماحول میں اس منصب پر فائز ہوئے ہیں جس کے متعلق معاشی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں وزیر خزانہ کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ پرانے قرضے ادا کرنے کیلئےنئے قرضے کیسے لئے جائیں۔کیا ہمارے وزیر خزانہ اسی لگی بندھی روٹین پر کام کرتے رہیں گے۔یا پھر کچھ ایسے انقلابی اقدامات اٹھائیں گے جن کی بدولت ہماری دم توڑتی معیشت کو زندگی کے طرف روانہ کرنے میں مدد ملے گی۔نئے وزیر خزانہ کا سب سے پہلا اور اہم ہدف آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہیں۔پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کےا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام میں شامل ہے جس کے تحت اب تک دو ارب ڈالر پاکستانی خزانے میں شامل ہو چکے ہیں اور جون میں پاکستان ایک نئے پروگرام کا خواہشمند ہے۔مذاکرات پر جاتے ہوئے وہ ایک ایسی حکومت کے نمائندہ ہوں گے جس کے بارے میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف الزامات کا شہرہ ہے اور پاکستان کی ایک مقبول ترین جماعت اسے دھاندلی زدہ حکومت سمجھتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ عالمی مالیاتی ادارے کیا حکومت کی سابقہ ساکھ کے مطابق پاکستان کے ساتھ سلوک کرتے ہیں یا نئے وزیر خزانہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے عالمی مالیاتی اداروں خصوصا آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کر سکیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنا پروگرام مکمل کرے اور پاکستانی معیشت درست سمت پر گامزن ہو سکے۔یوں تو ہر حکومت یہ اعلان کرتی ہے اسے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے لیکن بدقسمتی سے مشکل فیصلوں کا تمام بوجھ پاکستان کے غریب آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔اشرافیہ ان تمام مشکلات سے ماورا ہو کر اپنی زندگی گزارتی ہے۔ہمارے وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد ٹیکسز کی ایک نئی فہرست لے کر قوم کے سامنے آئیں گے۔ایک مرتبہ پھر مشکل فیصلوں کا اعلان ہوگا غریب آدمی جو پہلے ہی گیس اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے اس کی ٹوٹی کمر پر مزید بوجھ لادا جائے گا۔کاش ہمارے وزیر خزانہ ایسے اقدامات کریں کہ جس سے حکومتی حجم میں کمی ہو اور ایسے اداروں کو نجکاری کے ذریعے فروخت کیا جائے جو جونک کی طرح ملکی معیشت کو چمٹے ہوئے ہیں۔مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔کاروبار کے لیے افسر شاہی کا سرخ فیتہ ختم کیا جائے،سرمایہ کار کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ایک محسن کے روپ میں دیکھا جائے تب ہی یہ معیشت درست سمت پر گامزن ہو سکتی ہے غریب آدمی تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک قربانی دے رہا ہے اب تو اس میں ذبح ہونے کی سکت باقی نہیں پاکستانی قوم محمد اورنگزیب صاحب کی اہلیت کی تب معترف ہوگی جب اسے کہیں سے ریلیف ملے گا اور سکھ کا سانس نصیب ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین