• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں افواج پاکستان کے پالیسی سازوں کے دماغ کےساتھ عوام کا ذہن نہیں مل رہا ۔دونوں کے درمیان بعد المشرقین پایا جارہا ہے ۔ چونکہ میرا تعلق بھی عوام سےہے۔اس لئے میں بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ کھڑا ہوں جیسے پوری قوم کھڑی ہے۔بے شک میں بازو فضا میں لہرا لہرا کر احتجاج نہیں کرپا رہا مگرجو کرسکتا ہوں وہ توکررہا ہوں

قلم کے ٹکڑے سڑک پر بکھیر دینے تھے

کسی زباں میں مجھے احتجاج کرنا تھا

مگر میں اس احتجاج میں افواج پاکستان کے فلاحی منصوبوں کے خلاف نہیں ہو سکتا ۔ یہ منصوبے میرے ملک کے منصوبے ہیں ۔یعنی میرے منصوبے ہیں ۔ ہم سب کے منصوبے ہیں ۔اس وقت میں ان میں سے صرف ایک پربات کرنا چاہ رہا ہوں ۔وہ ہے ۔ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ۔اسے فلاح و بہبود کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔خاص طور پر آرمی کے لوگوںکیلئے ۔ریٹائرڈ ہونے والوں کیلئے ،شہدا کے اہل خانہ کیلئے ،زخمی ہوجانے والوں کیلئے ۔اس کا بنیادی مقصد شہیدوں کے سوگوار خاندانوں کی فلاح و بہبود، جنگ کے زخمیوں، معذوروں اور دیگر افراد کے حوصلے بلند کرنے اور مالی تحفظ فراہم کرناہے۔ملٹری میں ایک مسئلہ ہمیشہ یہ چلا آرہا ہے کہ فوجیوں نے بہت جلد ریٹائرڈ ہوجانا ہوتا ہے ۔36-46 سال کی عمر میں فوجی ریٹائر ہوجاتے ہیں ۔اس عمر میں ان کی فیملیز بن چکی ہوتی ہیں ۔بچے ہوتے ہیں۔سو ان لاکھوں ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہود کا ایک نظام مرتب کرنا ضروری تھا۔ سو وہ بڑے شاندار انداز میں بنایا گیااورافواج پاکستان نے اس سلسلے میں سرکاری یا عوامی فنڈ ز کا کبھی سہارا نہیں لیا۔پھر ان پر وجیکٹس میں ریٹائرڈ فوجیوں کو ملازمتیں بھی ملتی ہیں۔اس وقت مختلف ڈی ایچ ایز میں پینتیس فیصد ملاز م ریٹائرڈ فوجی ہیں پینسٹھ فیصد عام شہری ہیں۔پھر یہ بھی ہے کہ پچانوے فیصد ڈی ایچ اے عام شہریوں کی ملکیت ہے ۔ ڈی ایچ ایز تمام قابل اطلاق ٹیکس پوری طرح ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں صرف ٹیکسز کی مد میں ستاون ارب روپے ادا کیے گئے ہیں ۔اس کا دوسرے کارپوریٹ سیکٹر کے اداروں کی طرح ملک کی نامور آڈٹ فرمیں باقاعدہ آڈٹ کرتی ہیں ۔

پاکستان کا دفاعی بجٹ بہت کم ہے ۔ہمسایہ دشمن ملک کا بجٹ ہم سے تقریباًسات گنا زیادہ ہے ۔ایسے میں فلاح و بہودکیلئے ایسے اداروں کا قیام ہی ہمارے دفاعی اخراجات میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔صرف پاکستان میں نہیں بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ملٹری نے فلاح و بہبود کے ادارے بنا رکھے ہیں اور جہاں تک افواج پاکستان میں ان پلاٹوں کی تقسیم کا مسئلہ ہے تو شہیدوں کےسوگوار خاندانوں کےبچوں کو چھت اور رہائش فراہم کرنے کے قابل بنانے والی پالیسی کے مطابق پلاٹ الاٹ کیے جاتے ہیں ۔بہادراور ایوارڈ یافتہ لوگوں کو اولیت دی جاتی ہے ۔پھر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی تمام کالولینز میں صحت عامہ کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے ۔وہاں تمام شہری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔اعلیٰ درجہ کی زندگی مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ہمیشہ سبز اورمعیاری اور جدید ماحول ڈی ایچ ایز کا ماٹو رہا ہے ۔یہ افواج پاکستان کے ان کا موں میں ہے جس پر فخر کیا جاسکتا ہے مگر اس وقت یہ سب اچھے کام عوام کو اس لیے اچھے نہیں لگ رہے کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے جو کچھ کیا ہے اس کا تمام ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیاگیا ہےاور اس نے خود بھی سامنے آکر اس کی ذمہ داری قبول کی ہے جس کی وجہ سے قوم ناراض ہے۔پالیسی سازوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ غربت کی چکی میں پستی ہوئی قوم کو کیسے راضی کیا جاسکتا ہے۔عدلیہ کے لگائے گئے الزامات سے اسٹیبلشمنٹ کیسےخود کومبرا قرار دےسکتی ہے۔بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا کیسے ازالہ کیا جاسکتا ہے۔

پھر یہ بھی ہوا ہے کہ بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہمارے کچھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اس انداز میں ٹکرا گئے ہیں کہ انہوں نے تمام حدیں عبور کرلی ہیں یعنی معاملہ ریاست سے دشمنی تک پہنچ گیا ہے ۔حالانکہ ان کا مسئلہ صرف چند پالیسی سازوں کے ساتھ تھا مگر وہ دائرے کے اندر نہیں رہ سکے ۔انہیں بھی اپنے کیے پر شرمندگی کا احساس ہونا چاہئے ۔

قوم احتجاجی تحریک شروع کرنے والی ہے ۔وہ قوم کا حق ہے کہ یہ احتجاجی تحریک صرف چند پالیسی سازوں کے خلاف ہے ۔ان کی لائی ہوئی کٹھ پتلیوں کے خلاف ہے۔عوام اور اسٹیبلشمنٹ کو پھر ایک پیج پر لانے کی اشد ضرورت ہے ۔یہی کام اس ملک کے شاندار مستقبل کی ضمانت ہو سکتا ہے۔سو یہ احتجاجی تحریک جو پی ٹی آئی اور اسکے ساتھ دوسری اتحادی جماعتیں مل کر شروع کررہی ہیں یہ عدلیہ اور افواج پاکستان کی عزت کی بحالی کیلئے شروع کی جارہی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کیلئےیہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔

تازہ ترین