• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

منفرد موضوع پر عُمدہ تحریر

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ورک ٹیم خیریت سےہوگی۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے’’قصص القرآن‘‘ سلسلےمیں محمود میاں نجمی نے’’قصّہ حضرت آدمؑ اور بی بی حوّاؑ‘‘ سُنایا۔ ہمیشہ کی طرح معلومات میں بڑا اضافہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دائمی سبق حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا نے بھی بہت خُوب صُورت مضمون تحریر کیا۔ جب کہ رئوف ظفر انتخابی اخراجات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اعظم کا تحریکِ آزادیٔ کشمیر پر مضمون فکر انگیز تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور راجپوت نے انتخابی پہلوانوں کا ذکر کیا۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عاطف وقار سرطان کے مریض کی دیکھ بھال جیسے منفرد موضوع پرعُمدہ تحریر کے ساتھ تشریف لائے۔ اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کا مضمون تو ہمارے سَر ہی سے گزر گیا۔ پتا نہیں کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ ہاں، ’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی کا سفرنامہ پسند آرہا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سلمیٰ اعوان نے ’’پتھر‘‘ کے عنوان سے شاہ کار افسانہ لکھا۔ ہم تو اُنہیں بس سفرنامہ نگار ہی سمجھتے تھے، وہ تو بہترین افسانہ نگار بھی ہیں۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر، کراچی)

ج: سلمیٰ اعوان تو ہرفن مولا ہیں۔ ان دو حوالہ جات کے علاوہ بھی اُن کے کئی حوالے ہیں اور ہر تعارف ہی اپنی جگہ بہت خُوب اور مکمل ہے۔

تصویر کے بغیر بھی…

’’سنڈے میگزین‘‘ میں منور راجپوت ماشااللہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ گویا اُنھیں ہر طرح کی تحریر لکھنے پر ملکہ حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کمائی میں برکت عطا کرے۔ بس، آپ سے ایک درخواست ہے کہ غالباً 1998 ء سے سنڈے میگزین چَھپ رہا ہے اور اُس کے سرِورق پر ماڈل ہی کی تصویر نظر آتی ہے، تو اب اِس فارمیٹ کو تبدیل کردیں۔

یہ جریدہ اتنا مقبول ہو چُکا ہے کہ اب ماڈل کی تصویر کے بغیر بھی بِک جائے گا۔ سو، براہِ مہربانی سرِورق پر ماڈل کی تصویر نہ لگایا کریں۔ آپ خُود ہی تو کہتی ہیں کہ ہماری رائے آپ کے لیے مقدّم ہے، تو ہم جو رائے دے رہے ہیں، اُس کو مقدّم ہی جانیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: بچپن سے سُنتے آئےہیں کہ ’’فارغ دماغ شیطان کاکارخانہ ہوتا ہے۔‘‘ بات کچھ خاص پلّے نہیں پڑتی تھی، مگراب تواس کارخانےکی ایسی ایسی پراڈکٹس دیکھ لی ہیں کہ کہاوت کا مفہوم ہی سمجھ نہیں آیا، ایسی کئی کہاوتیں ہم خُود بھی تخلیق کرسکتے ہیں۔ بھئی، کوئی بیسیوں بار آپ کے اِس ایک فضول سوال (مطالبے) کا جواب دے دے کے اب تو ہماری ہمّت ہی جواب دے گئی ہے۔ کیا جب تک آپ کو روزگار نہیں ملتا، سنڈے میگزین کی جاں بخشی نہیں ہوگی۔

تسکینِ طبع کا سامان

سنڈے میگزین سدا بہار تحریروں کاایک خوش رنگ گلدستہ ہے،16 صفحات کے اِس رنگین، خُوب صورت کتابچے کی صُورت کیا کیا کچھ پڑھنے کو نہیں مل جاتا۔ ہر ایک طبقۂ فکر اور ہرعُمر اور مزاج کے افراد کی دل چسپی اور تسکینِ طبع کا کچھ نہ کچھ سامان اس میں ضرور موجود ہوتا ہے۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکھلیہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، شکارپور، سندھ)

ماڈل ماٹھی تھی

محترم محمود میاں نجمی نے ’’قصّہ حضرت آدم علیہ السلام اور امّاں حوّا علیہا السلام‘‘ کچھ اس انداز سے بیان کیا کہ ایمان کو تازگی مل گئی۔ بےشک، انسان خطا کا پتلا ہے۔ اللہ رب العزت سے معافی و درگزر ہی کا سوال کرتا ہے۔ منور مرزا کا خیال تھا کہ عام انتخابات سے مُلک و قوم کے لیے تعمیر و ترقی کی راہ ہم وار ہوگی۔ یقیناً ہمیں اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہونا چاہیے۔ ویسےمرزا صاحب کا ہاتھ عوام، ووٹرز اور حکومت کے نمائندگان کی نبض پر ہوتا ہے۔ الیکشن پر 200 ارب کے اخراجات سے متعلق تفصیلی رپورٹ کافی معلومات افزا تھی۔ ڈاکٹر عاطف وقار سرطان سےمتعلق محوِ گفتگو تھے۔

انہوں نےعلاج معالجے کے ساتھ احتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا۔ الیکشن ہی سے متعلق ’’کون کس کے مقابل؟‘‘ سیاسی جوڑ توڑ کے موضوع پر منور راجپوت کا تجزیہ بھی بہترین تھا۔ ویسے اُن کی تو ہرتحریر ہی ایک سے بڑھ کر ایک ہوتی ہے اور اِس بار آپ کی ماڈل تو بہت ہی ماٹھی تھی۔ سچ کہوں تو فوٹوگرافر ہی کا کمال ہے کہ کسی کسی پوز میں کچھ بہتر کرکے دکھا دیا۔ اور آپ کی بھی ہمّت کو سلام ہے، جو اس قدر تعریفی و توصیفی رائٹ اَپ لکھا۔ ویسے اختر سعیدی کا بھی شان دارحافظہ ہے کہ کُتب پر تبصرہ تو کرتے ہی ہیں، ساتھ گڑے مُردے بھی اکھاڑتے رہتےہیں۔ اور آخرمیں جریدے کے سب سے جذباتی صفحے پرغلام اللہ چوہان، سیّد زاہد علی شاہ، شری مُرلی چند، رونق افروز برقی اور شمائلہ نیاز کے خطوط پڑھے۔ سب ہی کافی اچھے لکھے گئے تھے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج: اصل تو شمائلہ نیاز ہی کا خط پڑھا ہوگا کہ اُس سے اچھا خط بھلا کس کا ہوسکتا تھا۔ اور رہی ماڈل، تو اچھی خاصی تو تھی۔ تم لوگوں نے تو پتا نہیں حُسن کا پیمانہ ہی کیا مقرر کرلیا ہے کہ کوئی نگاہ میں ٹھہرتا ہی نہیں۔

16 سے کم نہ ہوں

اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں ہی میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات موجود تھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں پوچھا گیا ’’عام انتخابات سے مُلک کو نئی سمت مِل سکے گی؟‘‘ تو میرا توخیال ہے کہ نہیں، کیوں کہ جس طرح یہ الیکشن کروائےگئے ہیں، مُلک کوکوئی نئی سمت نہیں مل سکے گی۔ دو سو ارب کا انتخابی سیزن تھا اور کھودا پہاڑ، نکلا چوہا۔ الیکشن 2024 ء کے بڑے معرکے بھی چھوٹے ہی رہے۔ ’’ارسطو کے دیس میں‘‘ شان دار انداز سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 

ہمیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم بھی روشنیوں، خوشبوئوں کے شہرِ محبّت، پیرس کے سفر میں سفرنامہ نگار کے ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ ایڈوانس اسٹیج پر سرطان کےمریض کی دیکھ بھال سے متعلق خصوصی مضمون بہت ہی معلوماتی تھا۔ ’’انتخابات کے بعد کا منظرنامہ‘‘ ہمیں کچھ زیادہ ہی دھندلا نظر آرہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے شان دار ماضی، بےمثال خدمات پرمضمون بہت پسندآیا۔ ممنون ہوں کہ مَیں نےتوریڈیو بچپن ہی سےسُننا شروع کردیا تھااوریہ شوق اب بھی برقرار ہے۔ 

محکمۂ ڈاک کو ہم بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ ہرخاص موقعے پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرتا ہے۔ گلوبل ٹیچر پرائز جیتنے والی باہمّت پاکستانی سسٹر زیف نے اپنے انٹرویو میں کیا خُوب صُورت باتیں کیں۔ انگلش فلموں مائی بوائےجیک، لارنس آف عریبیہ اورمائیکل کولنز پر بھی خُوب تبصرہ کیا گیا۔ میرا خط شائع فرمانے کا شکریہ۔ آپ نے شہناز سلطانہ کو اِس بار بھی خُوب جواب دیا۔ کاغذ کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اخبار و جرائد بند ہو رہے ہیں، لیکن ہماری دلی دُعا ہے کہ روزنامہ جنگ کبھی بند نہ ہو اور سنڈے میگزین کے صفحات 16 سے ہرگز کم نہ ہوں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: جی…دوا تو فی الحال کوئی نظر آنہیں رہی، تو بس، اب دُعائوں ہی کا آسرا رہ گیا ہے۔ پرنٹ میڈیا کا مستقبل ترقی یافتہ ممالک میں تاریک ہو رہا ہے، تو ہم جیسے آئی ایم ایف کے طفیلیے ممالک کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

مسند والی چٹھی

بہت سے سلام اور بہت ساری دُعائیں۔ کیا شور، رولا پڑا ہو ا تھا کہ 8 فروری کو الیکشن ہوگا، تو تمام تر ترقیاتی کاموں پر جو اسٹاپ لگا ہوا ہے، وہ ہٹ جائے گا۔ نئی حکومت بنے گی، تو رُکے کام نہایت تیزی سے شروع ہوں گے۔ مُلکی معیشت پٹری پرآجائے گی۔ منہگائی و بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ عوام کچھ سکون کا سانس لیں گے،مگرہوا کیا۔ ہرطرف بس دھاندلی، دھاندلی کا شور، الیکشن کو اس قدر متنازع بنا دیا گیا ہے کہ کسی ایک شخص کو یقین نہیں کہ منتخب قیادت واقعی منتخب ہوئی بھی ہے یا نہیں۔ 

ہمارا تو ازل سے وہی حال ہے کہ ؎ ہوتا ہے، شب و روز تماشا میرے آگے۔ اب دیکھیں، یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ فی الحال تو ’’نہ نَہ پائے رَفتَن، نَہ جائے ماندَن‘‘ والا ہی معاملہ ہے۔ وہ محسن بھوپالی نے کیا خُوب کہا ہے ؎ جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے…اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے…میخانے کی توہین ہے، رِندوں کی ہتک ہے…کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے۔ معذرت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قصّہ جنّات پڑھ کربہت اچھا لگا، بہترین سلسلہ ہے۔ 

شاید اب تک شائع ہونے والے سب سلسلوں سے زیادہ دل چسپ اور پُراثر۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ کی تحریریں بھی بہت ہی حسین و دل فریب ہوتی ہیں۔حیرت ہوتی ہےکہ کیاسب ہی سفرنامہ نگار، ایسےعُمدہ رائٹرزبھی ہوتے ہیں۔ رہی بات اپنے صفحے کی، تو وہ تو اپنی پوری آب و تاب سے میگزین میں چمکتا ہوا نظر آتا ہی ہے۔ اور جناب! ہم آپ کے بہت زیادہ ممنون و شُکرگزار ہیں کہ ہماری تحریریں اور خطوط شاملِ اشاعت کرتی ہیں اور اس قدر اپنائیت سے جوابات سے بھی نوازتی ہیں۔ بے حد شکریہ ہاں، البتہ آپ کی ’’مسند والی چٹھی‘‘ ہمیں لکھنی نہیں آتی، اِس لیے اُن چٹھیوں کو بس رشک سے دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)

ج: ’’مسند والی چٹھی‘‘ تو ہمیں بھی لکھنی نہیں آتی۔ ہمیں بھی بس منتخب ہی کرنی آتی ہے، اگر خُود لکھنی پڑے تو شاید ہم بھی نہ لکھ سکیں۔ سو، اتنی سی بات پر دل میلا کرنے کی ضرورت نہیں۔ یوں بھی ہر کام، ہر ایک کو کرنا آہی نہیں سکتا۔ اور سب سفرنامہ نگاروں کے اچھے لکھاری ہونے کی جہاں تک بات ہے، تو اِس غلط فہمی میں ہرگز نہ رہیے گا۔ یوں تو جریدے کی سب ہی تحریروں کی نوک پلک سنواری جاتی ہے، کاٹ چھانٹ کی جاتی ہے، لیکن بخدا جس قدر محنت ہمیں اِن سفر ناموں پر کرنی پڑتی ہے، خُود ہمیں بھی دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔

14 سال والے…؟

تازہ سنڈے میگزین کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی، ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا کے مضامین قابلِ دید اور لائقِ مطالعہ تھے۔ سیر حاصل معلومات پائیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں کھتری عصمت علی پٹیل کی اپنے دادا جان سے متعلق کہانی بہت ہی اچھی لگی۔ ’’متفرق‘‘ کے دونوں تحریریں بھی پسند آئیں، خاص طور پر محمّد عمیر جمیل کی تحریر ’’دنیا کے پانچ چھوٹے ممالک‘‘ خاصی معلوماتی تھی۔ یہ محمّد عمیر جمیل وہی ہیں ناں 14سال والے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی ،کراچی)

ج: جی یقیناً، وہی محمّد عمیر جمیل ہیں۔ ممکن ہے، اب 14 سال اورکچھ ماہ کے ہو چُکے ہوں۔

                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ربِ کریم سے دُعا ہے، آپ اور آپ کی پوری ٹیم عافیت کے ساتھ ہو۔ رمضان المبارک، عید الفطر کی پیشگی مبارک باد قبول کیجیے کہ خط شائع ہوتے ہوتے عید آ ہی جائے گی۔ (اے کاش! کے پہلے شائع ہوجائے) عموماً خط لکھنےکا کوئی خاص محرّک نہیں ہوتا، بس جی چاہتا ہے، کسی شمارے پر تبصرہ کرنے کو یا پھر جب ہمارا خط شائع ہوئےکافی دن گزر جاتے ہیں، تو سوچتی ہوں، بڑے دن ہوئے آپ سے اور محفل کے دوستوں سے ملاقات ہوئے، تو اب حاضری لگا ہی لینی چاہیے۔ ہاں، لیکن اِس بار خط لکھنے کی واحد وجہ ’’خاصّےکی چیز‘‘ ہے۔ جی بالکل، آپ صحیح سمجھیں، مَیں بات کررہی ہوں ’’جلوۂ دانشِ فرنگ‘‘ کی۔ 

واہ لُطف آگیا، کیا کہنے۔ ڈاکٹر صائمہ اسماء نے بہت ہی دل چسپ پیرائے میں برطانیہ کے شہر، کوونٹری کے (جس کا ذکر ہم نے پہلی بار سُنا، ہائے رے بےخبری) ماضی و حال سےمتعارف کروایا۔پڑھ کےمزہ آگیا۔ ویسے یہ محترمہ پہلے کہاں تھیں، کیا پہلے کبھی اِن کی کوئی تحریر شائع ہوئی ہے؟ بہرکیف چھا گئیں۔ کیا طرزِ تحریر تھا۔ وہ گڑیا گھر، بغیر ٹکٹ میوزیم، لیڈی گوڈائیو کی کہانی، کیتھڈرل کا احوال اورخاص طور پر سروس اٹینڈ کرتے سورۃ اخلاص کا ورد، شروع شروع میں تو لگا، کوئی ناول پڑھ رہی ہوں۔ بس اب کوئی ہیرو اینٹری دیا ہی چاہتا ہے۔ ہا ہا ہا… مگر یہ کیا ہیرو تو آخر تک نہ آیا، ہاں ہیروئن حواسوں پرضرورچھا گئی۔ ہا ہا ہا۔۔۔ وہ کیا مزےدار جملہ تھا ’’شیر کا بچّہ جوتے بعد میں اُتارتا، میوزک پہلے آن کرتا‘‘ بس، اِس سے پہلے کہ آپ ڈانٹ پلادیں کہ ارے! کیا دیوانی ہوگئی ہو۔آگےبڑھتی ہوں۔

ویسے میری طرف سے ڈاکٹر صائمہ کو بہت بہت شاباش اور مبارک باد۔ اب آتی ہوں، عرفان جاوید کی دو انتہائی شان دار تحریروں کی طرف۔ بھئی، کمال کے مضامین لکھے دو قابلِ قدر، عظیم ہستیوں سے متعلق۔ ضیاء محی الدین اور امجد اسلام امجد کی زندگی کے اُن پہلوؤں کو اتنی خُوب صُورتی سے اجاگر کیا کہ جن سے ہم جیسے لوگ سِرے سے نابلد تھے، خاص طور پر ضیاء محی الدین کی خواتین کو عزت واحترام دینے والی بات اور امجد اسلام امجد کی وہ بات کہ اپنے بچّوں کے سمجھ دار ہونے کے بعد محافل میں رومانی شاعری پڑھنا ترک کردی۔ کیسے قدآور اور نابغۂ روزگار لوگ تھے۔ اللہ پاک جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔ 

محمود میاں نجمی ’’قصص القرآن‘‘ کو بہت خُوب لے کر چل رہے ہیں۔ کم عِلموں کےعلم میں اضافےکا سبب بن رہے ہیں، تو اپنے اور آپ کے لیے بہت سی دعائیں اور ثواب اکھٹا کررہے ہیں۔ اس بار’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر بھی ہمیشہ سے کافی مختلف، برمبنی حقیقت تھی۔ دسمبر کی اداسی کا ذکر، پھر عورت کی بات، واقعی عورت کی طاقت و ہمّت کا ہر کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اُسے زمانے نے خوامخواہ شوکیس میں سجی کوئی مورتی یا گڑیا سمجھ لیا ہے۔ 

نیز، آپ کا شاعری کا انتخاب بھی حسبِ معمول بہت شان دار تھا۔ جب کہ ماڈلز اور اُن کے ملبوسات بھی بہت بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ قیصر قصری کا افسانہ ’’واپسی‘‘ المیۂ فلسطین کے تناظر میں بہت پُراثر اور بروقت تھا۔ ڈاکٹر قمر عباس آج کل بس شاعری ہی کررہے ہیں۔ اُن کی نظم ’’زمین بوس عمارت‘‘ اچھی لگی۔ خط طوالت کا شکار ہورہا ہے، مگر ہم خط لکھیں اوراپنی بزم کے ساتھیوں کا ذکر نہ کریں، ممکن نہیں۔ ماشااللہ، پسندیدہ، ہردل عزیز صفحہ نئے، پرانے احباب سے سجا سجا سا تھا۔ 

ایک طرف نازلی فیصل کا فلسفیانہ تبصرہ، تو شاہدہ تبسم کا تھوڑا میٹھا، تھوڑا ترش خط بھی۔ پروفیسر منصور کی محبّت کی چاشنی میں ڈوبی نصیحتیں، دُعائیں، تو نواب زادہ صاحب کی بونگیاں اور زاہد علی کی اپنی ہی منطقیں اور رونق افروز برقی، ضیاالحق قائم خانی کی مستقل مزاجی۔ اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے اور آپ کو سب سے ایسے ہی نمٹنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپور)

ج: آپ کی عید کی ’’پیشگی مبارک باد‘‘ تو دیر آید ہی ہوگئی۔ چلیں خیر، ’’دیر آید، درست آید‘‘۔ اور ڈاکٹرصائمہ اسماء کی تحریر نے اِک آپ ہی کو نہیں، بہت سوں کومتاثر کیا ہے۔ اورتب ہی ہم نے اُنھیں کُھلے دل سے آفر کی ہے کہ وہ جب بھی کچھ لکھنا چاہیں، جنگ سنڈے میگزین کے صفحات حاضر ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* آپ سے گزارش ہے کہ سنڈے میگزین میں تحریریں بھیجنے کے لیے واٹس ایپ جیسا کوئی سلسلہ کریں۔ ایک واٹس ایپ نمبر اِسی مقصد کے لیے مختص کردیا جائے تاکہ جریدے کے قارئین اپنی نگارشات، مضامین آپ تک با آسانی پہنجا سکیں- (خضر حیات)

ج : مشورے کا بےحد شکریہ۔ ابھی تو براہِ مہربانی اِسی آئی ڈی سے استفادہ کریں کہ فی الوقت ہم مزید کسی جھنجھٹ کے متحمّل نہیں ہوسکتے۔

* ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے کا میگزین میں موجود نہ ہونا کس قدر تکلیف کا باعث بنتا ہے، آپ اندازہ نہیں لگا سکتیں۔ آپ براہِ مہربانی کوئی بھی سلسلہ ڈراپ کردیا کریں، لیکن اس سلسلے کا توقف قلب و ذہن پر بہت ہی گراں گزرتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کی بھی کئی ادارتی مجبوریاں ہوتی ہیں، لیکن اگراُن مجبوریوں سے نمٹنے میں یہ صفحہ کمپرومائز نہ ہو تو آپ کا احسانِ عظیم ہوگا۔ (سحرش خلیل)

ج: ہماری تو اپنی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی بھی صفحہ ڈراپ کرنا پڑجائے، اِس سلسلے میں توقف نہ آئے۔ لیکن ’’سال نامے‘‘ کے ضمن میں ہمیں بہرحال اپنی مرضی اور پسند کے برخلاف بھی کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

* ہوسکے تو یمنٰی زیدی اور وہاج علی کے انٹرویوز شایع کردیں پلیز۔ (عائشہ ملک)

ج: دونوں کے بہت تفصیلی انٹرویوز سنڈے میگزین میں شایع ہو چُکے ہیں۔

* 3 مارچ 2024 ءکا سنڈے میگزین ہمیشہ کی طرح اپنی مثال آپ تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں روبینہ ادریس کا بیان کردہ واقعہ واقعی بُھلایا جانے والا نہیں تھا۔ اور ’’قصص القرآن‘‘ کا سلسلہ تو جریدے کی جان ہے۔ جب کہ ’’آپ کے صفحہ‘‘ میں آپ کے کھٹے میٹھے جوابات پڑھ کرتو لُطف ہی آجاتا ہے۔ (وقار الحسن)

ج: جی بالکل، بہت لُطف آتا ہے، اگر یہ جوابات کسی اور کو دیئے گئے ہوں تو…

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk