• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست....

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

معیشت کی زبوں حالی پر دہائیاں

آج کا سنڈے میگزین پڑھا اور حسبِ عادت سب سے پہلے ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی کی طرف دوڑ لگائی۔ ویسے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ یہ نواب زادہ بے کارملک اور سیّد زاہد علی آپ سے کیسے اُلٹے سیدھے سوالات کرتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ آپ ہر ہفتے طبیعت صاف بھی کرتی ہیں، مگر مجال ہے کہ کسی کے کان پر کوئی جُوں بھی رینگتی ہو۔ میرے خیال میں تو اگر میگزین سے متعلق ہی تجاویز دی جائیں، تو کہیں زیادہ اچھا ہو۔ 

منور مزرا پاکستانی معیشت کی زبوں حالی پر مسلسل دہائیاں دے رہے ہیں۔ اپنے طور پر بےمثال تجاویز بھی پیش کرتے ہیں، مگر بات پھر وہی ہے کہ کوئی اِس مُلک سے مخلص قیادت بھی تو ہو۔ حُکم ران طبقے کی عیاشیوں میں کمی آئے، تو انہیں غریب کی مشکلات کا کچھ اندازہ ہو۔ کوئٹہ سےوحید زہیر کافی محنت سے مختلف مضامین اور انٹرویوز وغیرہ تیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ صحیح معنوں میں صحافت کررہے ہیں۔ باقی آپ کےلگ بھگ تمام ہی سلسلے اچھے ہیں۔ پورا جریدہ ہی لائقِ مطالعہ ٹھہرتا ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ملتان شریف، مظفّر گڑھ)

ج: جی بالکل، منور مرزا صاحب کی علمیت و قابلیت، اِخلاص و نیت نیتی اور مشاہدات و تجربات تو کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہیں۔ وہ زمانوں سے کسی صلے، ستائش کی تمنا کے بغیر ایک کارِخیر انجام دیئے جارہے ہیں، لیکن بات تو تب ہی بنے گی، جب نقّار خانے میں طوطی کی آواز سُننے کا چلن عام ہوگا۔

دوسرے شمارے پر تبصرہ؟

تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا ’’انتخابات کے بعد کا منظرنامہ‘‘ کمال مضمون ہے، خصوصاً آخری پیراگراف تو بہت ہی پسند آیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی کا پیرس کا سفر اچھا لگا، مگر تحریر کا فونٹ کچھ چھوٹا معلوم ہوا، پڑھنے میں دشواری ہورہی ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں خواجہ شبیہ الحسن کا ’’نیکی سے پہلے نیکی کا اجر‘‘ انتہائی سبق آموز واقعہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں  کنول بہزاد ’’دشتِ برفاب میں‘‘لائیں، پڑھ کے بہت اچھا لگا۔ عرصے بعد ’’برقی خطوط‘‘ میں امریکا سے قرات نقوی کا خط آیا۔ اور ہاں، یہ پرنس افضل شاہین کا ’’دو شماروں والا خط‘‘ تو ایک ہی شمارے پر ہوا تبصرہ لگتا ہے کہ دوسرے پر تبصرہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کب ختم، اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جی بالکل، ایسا ہی ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا اور اچانک ہی دوسرے شمارے پر تبصرہ شروع ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تو دونوں شماروں کے مندرجات پر تبصرے کا آغاز ایک ساتھ ہی کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں خُود بھی مختلف مضامین کے عنوانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس ایڈیشن کی کی بات کی جارہی ہے۔ رہا سفرنامے کا فونٹ، تو وہ بعض اوقات مجبوراًکم کرنا پڑجاتا ہے کہ صفحات کی کمی کےسبب ایسے کئی سمجھوتے اب ناگزیر ہیں۔

گل دستہ ادھورا، نامکمل!!

برسوں کی ریاضت سے…برسوں کی عبادت سے…بہتر ہے وہ اک لمحہ… جو تو نے گزارا ہے…انسان کی محبّت میں…انسان کی خدمت میں۔ وہ لوگ، جو اِس گئےگزرے دَور میں بھی، بغیر کسی رنگ، نسل، ذات پات، خطّے، علاقے اورمذہب کی تفریق کے، لوگوں کو آسانیاں پہنچانے میں مصروف ہیں، واقعی قابلِ صد ستائش ہیں۔ ’’گلوبل ٹیچر پرائز‘‘ جیتنے والی باہمّت پاکستانی سسٹر زیف سے رئوف ظفر کی بات چیت بہت زبرست رہی۔ ’’انسانیت‘‘ ہی سے لب ریزمنورمرزا’’انتخابات کے بعد کا منظرنامہ’’ لیے رقم طراز تھے کہ ’’ہمیں مل کر، ایک ہو کر کام کرنا ہوگا۔‘‘ ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ جنات کا‘‘کی پہلی قسط کے ساتھ بزرگ لکھاری محمود میاں نجمی موجود تھے۔

’’ریڈیو کے عالمی یوم‘‘ پررابعہ فاطمہ کی خصوصی تحریر ریڈیو کے شان دار ماضی اور بےمثال خدمات سے متعلق تھی۔ اخترالاسلام صدیقی ہمیشہ کی طرح اہم مواقع کے یادگاری ڈاک ٹکٹس کا احوال لیے آئے۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں ماڈل خوشبو کو دیکھ کر نرجس ملک کا قلم بھی جیسے خوشبوئیں سی بکھیرنے لگا۔ ڈاکٹر ناظر محمود فلمز کی تاریخ کےساتھ حاضرتھے، تومنفرد لکھاری منورراجپوت کا اسلوبِ بیان بھی بہت شگفتہ، پُروقار اور عام فہم ہے۔ کتابوں پرکیا خُوب تبصرہ کرتے ہیں۔ 

خالد ارشاد صوفی روشنیوں، خوشبوئوں کے شہر ’’شہرِ محبت‘‘ پیرس کے سفر کی دوسری قسط کے ساتھ موجود نظر آئے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر کے مرتّب کردہ تینوں واقعات درسِ زندگی سے بھرپور معلوم ہوئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد کے قلم پارے ’’دشتِ برفاب میں‘‘ کا نچوڑ یہ تھا کہ ’’بعض اوقات ہمارے اپنے، دل کے قریب لوگ بھی کتنی آسانی اور بےرحمی سے ہمیں یخ بستہ موسموں رویوں کے سپرد کرجاتے ہیں۔‘‘ 

ناقابلِ اشاعت کی فہرست خاصی طویل تھی۔ جن کے نام شامل ہوئے، اُن سے کہنا ہے کہ مایوس نہ ہوں، کوشش جاری رکھیں۔ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی ایک بار پھر کرسیٔ صدارت پر براجمان ہوئے، مبارکاں جی۔ یہ سلیم راجا، اسماء دمڑ، سمیع عادلوف وغیرہ کیوں عرصۂ دراز سے غائب ہیں۔ پلیز، لوٹ آئیں کہ گل دستہ ادھورا، نامکمل ہے۔ (ضیاالحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)

ج: ہمیں تو اس بزم پر بہادر شاہ ظفر کا وہی شعر سو فی صد صادق نظر آتا ہے کہ ؎ یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں…اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گی۔

تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست…

اتوار کا پورا دن، سنڈے میگزین کے مختلف سلسلے اور رات ’’آپ کا صفحہ‘‘ پڑھنے میں گزرتی ہے۔ یقین کریں، مَیں اِس صفحے کو پڑھ کر جس قدر محظوظ اور لُطف اندوز ہوتی ہوں، بڑی بڑی طنز ومزاح کی تحریریں پڑھ کر بھی نہیں ہوتی۔ خیر، اس بار ماڈل خُوب رُو تھی اور اِسی ماڈل کو دیکھتے دیکھتےآگے بڑھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ’’انتخابات کے بعد کا منظرنامہ‘‘ لائے۔ سچ ہے، کسی بھی سیاست دان کو مُلکی معیشت کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ عوام غربت و بے روزگاری کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ 

وہ کیا ہے کہ ؎ خلقِ خدا کی گھات میں رِند و فقیہ و مِیر و پیر…تیرے جہاں میں ہے، وہی گردشِ صُبح و شام ابھی…تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست…بندہ ہے کُوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی۔ اللہ کرے، یہ نئی قیادت مُلک و قوم کے لیے کچھ بہتر ثابت ہو۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ جنات کا‘‘ کی پہلی قسط لائے، جس میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنّات کو دس اقسام میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے نو جنّات کی اور ایک انسان وں کی ہے۔’’انٹرویو‘‘ میں رئوف ظفرنے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والی رفعت اعجاز کی زندگی پر بھرپور روشنی ڈالی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل خوشبو اپنی خوش لباسی کے جلوے بکھیرتی نظر آئیں۔

’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود نے مائی بوائے جیک، لارنس آف عریبیہ اور مائیکل کولنز جیسی فلمز سے متعلق آگاہ کیا، تو ’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی ’’روشنیوں، خوشبوئوں کے شہر، ’’شہرِ محبّت‘‘ پیرس کی سیر کی رُواداد سُنا رہے ہیں۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کی تینوں آپ بیتیاں شان دار تھیں اور اب آپہنچےہیں اپنےصفحےپر، جس کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوا، شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی کو اور ان کا خط واقعی اسی قابل تھا۔ باقی سب خطوط نگاروں نےبھی اچھےخطوط لکھے۔ (ماہ نور شاہد، میرپور خاص)

ج: جی، جی بالکل۔ شہزادہ نقش بندی کا خط صدارت کے قابل نہیں ہوتا، تو کس کا ہوتا، وہ ماہ نور شاہد کے ’’دادا جی‘‘ جو ہوئے۔ تم نے تو نہیں بتایا، لیکن تمہارے دادا نے یہ راز افشا کر ہی دیا۔ تو ثابت ہوا ’’مرد پیٹ کے زیادہ ہلکے ہوتے ہیں۔‘‘

سارا سال ٹی وی کے سامنے؟

اپنے وجود کی نشان دہی کے بعد سوچا کہ اب دوبارہ قلم کو حرکت میں لے آنا چاہیے تاکہ آپ اور لکھاریوں سے بندھا رشتہ قائم رہے۔ ہر سال کی طرح اِمسال بھی بطور ’’سالانہ ایڈیشن‘‘ جنوری کے تین شمارے تجزیاتی رپورٹس کے ساتھ سامنے آئے۔ ارادہ کیا کہ اِن تینوں شماروں کی عرق ریزی کے بعد اِن کا ’’نچوڑ‘‘ ہی پیش کروں، تو نچوڑنے پر بڑی اچھی، معلوماتی تحریریں سامنے آئیں۔ منور مرزا، رؤف ظفر، فاروق اقدس،ڈاکٹر ناظراورمنور راجپوت جیسے پائے کے قلم کاروں کی تحریروں کی تو کیاہی بات ہے۔

گرچہ ایڈیشن کےپہلےشمارے میں کچھ خشک موضوعات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ جیسے چاروں صوبوں کی کارکردگی وغیرہ۔ لیکن دوسرےشمارے میں پہلی نظر ہی ’’شفتالو‘‘ پر پڑی۔ واہ کیا رنگ منتخب کیا آپ نے۔ واقعی اس رنگ کو دیکھتے ہی آنکھوں کی ٹھنڈک اور زندگی پالینے کی اُمنگ جاگ اُٹھی۔ اور اِس رنگ کو سمجھنے کے لیے آپ نے جو مثال دی، وہ اب کسی کے ذہن سے نہیں نکلے گی یعنی ’آڑو‘ کا رنگ۔ جب کہ حقیقت میں شفتالو ہوتا ہی ’’بڑا آڑو‘‘ہے۔ اس رنگ سے ہٹ کر میگزین کے دوسرے رنگوں میں ڈاکٹرناظر محمود کا ’’اِن اینڈ آؤٹ‘‘ بہت دل چسپ تھا۔ 

عنبریں حسیب عنبر کی ادب و ثقافت، رائو شاہد کی سائنس/ آئی ٹی پر رپورٹس لاجواب تھیں۔ ہمایوں ظفر نے ہر سال کی طرح اِس سال بھی دنیا سے رخصت ہونے والوں پر لکھا۔ تیسرے شمارے میں رؤف ظفر نے ’’وجودِزن‘‘ پر بڑی عُمدگی سےروشنی ڈالی، البتہ تحریر کا عنوان ’’چلی ضرور، مگر پائوں پر کھڑی نہ ہوئی‘‘ کا مطلب کچھ واضح نہ ہوسکا۔ شمارے میں بڑے عرصے بعد طلعت عمران کی دوبارہ آمدنےتوجیسےمیگزین کومہکا ہی دیا۔ اتناعرصہ کہاں روپوش تھے، طلعت بھائی۔ خیر، ویل کم بیک۔ اب آتےجاتے رہیے گا۔

مدثر اعجاز نے’’سلور اسکرین‘‘ کے تحت لالی، بالی اورہالی ووڈ کی سالانہ رپورٹ لکھ کر کافی حد تک مرحوم عاشق چودھری کی خالی جگہ پُر کردی، مگر ایڈیٹر صاحبہ نے جو ’’ٹی وی اسکرین‘‘ کا کچّا چٹھا بیان کیا، کمال ہی کردیا۔ بخدا تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سارا سال ٹی وی کے سامنے ہی بیٹھی رہیں۔ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہ وہی نرجس ملک ہیں، جو پورا ہفتہ میگزین کی نوک پلک درست کرنے اوراِسےخُوب سے خُوب تر بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ تو پھر’’ٹی وی اسکرین‘‘ پر ایسی عرق ریزی کیسے …؟؟ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں، ویل ڈن نرجس، اللہ کرےزورِقلم اور زیادہ۔

اِسی شمارے میں ’’حماس‘‘ کے ترجمان، ڈاکٹر خالد قدومی کا شان دار انٹرویو بھی شامل تھا۔ اہلِ فلسطین اورحماس کی جواں مَردی، جوش و ولولہ اور تحمّل و بُردباری دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے پر فخر سا محسوس ہوتا ہے، وگرنہ تو ہم بس صرف ’’پاکستانی‘‘ ہیں۔ خیال تھا کہ اِن تین شماروں کے بعد چلتے چلتے روٹین کے جریدے کا بھی کچھ تذکرہ ہوجائے گا، لیکن یہی تبصرہ خاصا طویل ہوگیاہے۔ (چاچا چھکن، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج:دلاور فگار کی ایک غزل ہماری آل ٹائم فیوریٹ ہے کہ ؎ جادہ ٴ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں…مَر کے رہ جاتا ہے فن کار امر ہونے تک…کتنے غالبؔ تھے کہ پیدا ہوئے اور مر بھی گئے…قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک…چند ذرّوں کو ہی ملتی ہے ضیائے خورشید…چند تارے ہی چمکتے ہیں سحر ہونے تک…دلِ شاعر پہ کچھ ایسی ہی گزرتی ہے فگارؔ…جو کسی قطرےپہ گزرے ہے گہر ہونے تک۔

تو بھئی، بات صرف اتنی سی ہے ’’اصل صحافت‘‘ کوئی گڈے، گڑیا کا کھیل نہیں ہے۔ اس خارزار میں اپنے مزاج، رجحان اور مُوڈ سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے، یہ کوئی بہت ہی مزے کی جاب ہے، تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ہم پر وہی گزری، جو کسی قطرےپہ گزرے ہے گہر ہونے تک۔ اورہاں، شفتالو رنگ ہمارا منتخب کردہ ’’ کلر آف دی ائیر‘‘ نہیں، یہ ورلڈ کلر اتھارٹی کا انتخاب ہے۔

                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید کرتی ہوں، مزاج بخیر ہوں گے۔ طویل غیر حاضری کے بعد ایک بار پھر حاضرِ خدمت ہوں۔ ماہِ فروری کا شمارہ سامنے ہے۔ سب سے پہلے بات ہوجائے، الیکشن کی۔ الیکشن کا موسم آیا اور گزرگیا۔ اُس کے بعد دھاندلی، کرپشن، ہارس ٹریڈنگ اور دیگر الزامات کا ایک لمبا سیشن… اِن تمام حالات سے گزر کر’’بڑوں‘‘ کی مَن چاہی حکومت کا قیام، چند چاند چہرے تختِ طائوس پر براجمان ہوئے، تو درجہ دوم نے اپوزیشن کا اکھاڑا سنبھال لیا۔ اب تک کی زندگی میں بس یہی کچھ دیکھتے آرہے ہیں۔ 

جب سب کچھ ’’سلیکٹڈ‘‘ ہے تو پھر ’’الیکشن، الیکشن‘‘ کھیلنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دو سال، حد چار سال، عوام الیکشن پریکٹس میں گزارتے ہیں۔ یعنی ؎ لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ۔ اُس کے بعد کا کام اپوزیشن سنبھال لیتی ہے، یعنی حکومت گرانے کا کام کہ پھر نئے سرے سے ’’الیکشن، الیکشن‘‘ کھیلا جا سکے۔ محمود شام نے کیا خُوب فرمایا ’’خواص کی حکومت، خواص کے لیے، لیکن عوام کے ذریعے‘‘۔ پاکستانی عوام بھی عوام ہی رہے، کبھی خواص نہ بن سکے۔ 

بقول نوشی گیلانی ؎ ہماری دھوپ کی شدت نے پرورش کی ہے…ہمارے سر پہ کہاں سائباں ٹھہرتا ہے۔ اِس وطن کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، کرامت ہی ہے کہ اب تک قائم دائم ہے۔ اللہ رہتی دنیا تک عزت کے ساتھ قائم رکھے۔ خوش فہمی کے مارے ہم کہہ سکتے ہیں۔ ؎ مغرور نہ ہو، فصلِ خزاں آکے چمن میں…ایسے بھی ہیں کچھ پھول جو مرجھا نہیں سکتے۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ جنّات‘‘ پڑھا۔ ماشااللہ محمود میاں نجمی قرآنی قصّے اور سیرت کے واقعات بہت آسان ودل چسپ انداز میں پیش کرتےہیں، جنہیں پڑھ کرقرآنِ کریم کو سمجھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ 

اللہ کریم اُن کی یہ کوشش قبول ومنظور فرمائے اور عالم کے انسانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سفرنامۂ یونان و فرانس پڑھ رہے ہیں، مزہ آرہا ہے اور بقول اسعد بدایونی ؎ گائوں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا…ایک ہی رنگ ہے، دنیا کو جدھر سے دیکھا۔ فلسطین اور غزہ کی تباہی پر دل خون کے آنسو رہ رہا ہے۔ ایک طرف کیل کانٹوں سے لیس تربیت یافتہ بے رحم اندھی طاقت ہے اور دوسری جانب نہتّے لاچار مرد، عورتیں، بچّے، یا عرب اور ابن المسلمین کی دہائی دیتے بے کس مرد و زن۔ 

عربوں کی بےحیائی، بےحمیتی اور بےحِسی کا قرض فلسطینی اپنے خون سے چُکا رہے ہیں۔ پانچ ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک اسرائیل کو نکیل نہ ڈال سکے۔ آفرین ہے، اس جدید دنیا کے جدید باسیوں پر۔ شاید فلسطینی پیدا ہی شہادتوں کے لیے ہوئے ہیں۔ لیکن بالآخرہر چیز کوفنا ہے، نہ ظالم رہے گا نہ مظلوم۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: اور جب کچھ نہیں رہے گا، تب ان شااللہ تعالیٰ چار سُو انصاف کا بول بالا ہوگا۔

گوشہ برقی خطوط

* موسمِ سرما کی برسات میں چائے پیتے ہوئے ’’سنڈے میگزین‘‘ کا مطالعہ کسی نعمت سے کم معلوم نہیں ہوتا۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوّا علیہ السلام کے قصّے کی آخری قسط پڑھی اور اِس مضمون میں کئی ایسی باتیں پڑھنےکوملیں، جو اس سے قبل قطعاً معلوم نہ تھیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا انتخابات کے بعد مُلک کو ملنے والی نئی سمت کی تلاش میں نظرآئے۔

ویسے پتا نہیں، انتخابی سیزن میں مجھے حصّہ کیوں نہیں ملا، حالاں کہ مَیں تو گرافک ڈیزائنر ہوں۔ خیر، آگے بڑھا تو انتخابی جوڑ توڑ سے متعلق مضمون پڑھنے کو ملا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کو نظرانداز کرتے ہوئے صفحہ پلٹا تو ایک سفرنامہ موجود پایا، جس کےاگلےحصّے کا اب بہت بے صبری سے انتظارہے۔نئی کتابوں میں ’’سہ ماہی کولاژ‘‘ پر تبصرہ اچھا لگا، لیکن جریدے کی قیمت دیکھ کےدانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ 

صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں موجود افسانے ’’پتھر‘‘ کی بس ابتدا ہی پڑھ پایا،کچھ خاص نہیں تھا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نواب زادہ خادم ملک کی بہت کمی محسوس ہوئی۔ ہاں، ایک بات بھی پوچھنی تھی کہ ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزازکسی برقی خط (ای میل) کو مل سکتا ہے؟ (محمّد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)

ج: ’’برقی خطوط‘‘ کے منحنی سے کالم میں بمشکل 4 ای میلز شایع ہوتی ہیں، تو اُن میں سے ’’اِس ہفتے کی ای میل‘‘ کا کہاں انتخاب کرتے پھریں۔

* آپ نے کبھی اپنے متعلق کچھ نہیں بتایا کہ آپ کی عُمرکتنی ہے، ’’سنڈے میگزین‘‘ سے آپ کی رفاقت کتنی پرانی ہے؟ ہم آپ کے والدین، بہن بھائیوں، شوہر، بچّوں سےمتعلق بھی جاننا چاہتے ہیں۔ مطلب آپ کا ایک تفصیلی انٹرویو پڑھنے کی شدید خواہش ہے، کیا ایسا ممکن ہے۔ ویسے ہم ہمہ وقت آپ کے لیے دُعاگو تو رہتے ہیں۔ سنڈے میگزین کی وساطت سے ایک قلبی تعلق سا قائم ہے آپ سے۔ (صاعقہ سبحان)

ج:دُعاؤں میں یاد رکھنے کا بے حد شکریہ۔ آپ کو انٹرویو پڑھنے کی خواہش ہے، لیکن ہمیں انٹرویو دینے کی قطعاً کوئی خواہش نہیں ہے۔ آپ یوں سمجھیں، یہ پورا سنڈے میگزین، درحقیقت ہمارا انٹرویو ہی ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk