حافظ نعیم الرحمٰن جماعت اسلامی پاکستان کے چھٹےامیر منتخب ہو گئے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے 46ہزارمیں سے82فیصد ارکان نے خفیہ رائے شماری کے ذریعےانہیں5 سال کیلئے اپنا امیر منتخب کیا ہے کوئی انتخابی مہم چلائی گئی اور نہ ہی کوئی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔جماعت اسلامی کےارکان کی بھاری تعدادنے خاموشی سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔راشد نسیم کی سربراہی میں قائم الیکشن کمیٹی کے ارکان نے ووٹوں کی گنتی کو اس قدر خفیہ رکھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے ارکان کو امیر جماعت اسلامی کے انتخاب کی رہنمائی کیلئے3رکنی پینل تجویز کرتی ہے ارکان تین رکنی پینل میں سے کسی ایک یا کسی بھی دوسرے امیدوار کے حق میں ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔جماعت اسلامی کا کوئی رکن از خود امیدوار بننے کا اعلان کر سکتا ہے اور نہ ہی ووٹ مانگ سکتا ہے۔جماعت اسلامی میں انتخابی مہم کی اجازت نہیں، نئے امیر کے انتخاب سے 90روز قبل انتخابی عمل کا آغاز ہو جاتا ہے اگرچہ جماعت اسلامی دائیں بازوکی قدامت پسند جماعت ہے لیکن اس کا تنظیمی ڈھانچہ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی سے ملتا جلتا ہےجس کا شاید اب پاکستان میں وجود نہیں۔جماعت اسلامی کا رکن بننے کیلئے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہےکمیونسٹ پارٹی کا رکن بننے کےلئےبھی خاصی چھان پھٹک کی جاتی تھی جب کوئی شخص جماعت اسلامی کا رکن بن جاتا ہے تو پھر اس کا جماعت اسلامی سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا ، جماعت اسلامی شاید ملک کی واحد دینی و سیاسی جماعت ہے جس میں ننگے پائوں اسکول جانے والا جفاکش سراج الحق بھی امیر جماعت اسلامی منتخب ہو سکتاہے ۔ اسی طرح تین مرلے کے مکان کا مکین سید منور حسن 5سال تک منصورہ میں مہمان کی حیثیت سے قیام کرتا ہے،اب قرعہ فال حافظ نعیم الرحمٰن کے نام نکلا جنہوں نے پچھلے12سال کے دوران امیر جماعت اسلامی کراچی کی حیثیت سے بڑا نام کمایا جماعت اسلامی کے امیرکےلئے سراج الحق کے علاوہ لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمٰن کا نام تجویز کیا گیا تھا ۔کسے معلوم تھا کہ حیدر آباد پوسٹ آفس کے باہر بیٹھنے والے عرضی نویس کا ہونہا ر صاحبزادہ نعیم الرحمٰن ملک کی سب سے زیادہ منظم جماعت کا سربراہ منتخب ہو جائیگا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغازاسلامی جمعیت طلبہ سے کیا ۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے پچھلے 10سال کے دوران جماعت اسلامی کو کراچی میں ایک بار پھر زندہ کر دیا نعمت اللہ خان کے بعد حافظ نعیم الرحمٰن نے کراچی کے شہری مسائل کو اپنا ٹارگٹ بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کراچی کی سیاست پر چھا گئے ۔ ان کی قیادت میں کراچی میں دئیے جانے والے تاریخ ساز دھرنے نے پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت کو بلدیاتی اداروں کے اختیارات واپس کرنے پر مجبور کر دیا 15جنوری 2023کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو تمام سیاسی جماعتوں سے زائد ووٹ ملے ،جماعت اسلامی نے یہ انتخاب نعیم الرحمٰن کے’’ نام اور تصویر‘‘ پر لڑا ۔پیپلز پارٹی نے انہیں کراچی کا میئر بننے نہ دیا البتہ ان کے سیاسی مخالف طنزیہ گفتگو کرتے کہ وہ کراچی کے میئر تو نہیں بن سکتےالبتہ امیر جماعت اسلامی بن جائیں گے ، سیاسی مخالفین کی طنزیہ گفتگو کے پیچھے حافظ نعیم الرحمٰن کی جماعت اسلامی میں پائی جانے والی مقبولیت کی حقیقت بھی شامل تھی اگرچہ جماعت اسلامی کے ارکان نئے امیر کے انتخاب بارے محتاط گفتگو کرتے ہیںلیکن جس روز نئے امیر جماعت اسلامی کا انتخابی عمل شروع ہو تو جماعت اسلامی اسلام آباد کے ایک رکن نے حافظ نعیم الرحمٰن کی ممکنہ کامیابی بارے پیشگوئی کر دی تھی ۔ 5اپریل 2024کی شام جماعت اسلامی کے نئے امیر کے انتخابی نتائج کا اعلان ہوا تو حافظ نعیم الرحمٰن حسب معمول کراچی میں سرگرم عملتھے جبکہ پینل میں دوسرے امیدوار لیاقت بلوچ میر پور میں جلسہ سے خطاب کر رہے تھے، جماعت اسلامی کے سبکدوش ہونے والے امیر سراج الحق مسجد نبویﷺ میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے،جماعت اسلامی میں کچھ لوگ سراج الحق کے10سالہ دور امارت کوناکامیوں کا دورقرار دیتے ہیں یہ بات درست ہےسراج الحق کے 10سالہ دور میں جماعت اسلامی کو پارلیمنٹ میں کوئی خاطر خواہ کا میابی حاصل نہیں ہوئی اس کی بنیادی وجہ جماعت اسلامی کی ’’سولو فلائٹ ‘‘ تھی اور سراج الحق پی ٹی آئی اور اس کے مخالف کیمپ کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے رہے 2018کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں ایک نشست حاصل ہونے کے بعد جماعت اسلامی اتحادوں کی سیاست سے تائب ہو گئی ،اس کا ووٹ بینک کم ہو کر 8لاکھ رہ گیا تھا جو اب سراج الحق کی امارت میں تین گنا زیادہ ہو گیا جماعت اسلامی جو اتحادوں میں گم ہو گئی تھی جسے سراج الحق نے تلاش کر لیا اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ سراج الحق نے جماعت اسلامی کی شناخت بحال کرائی۔سراج الحق کی قیادت میں کشمیر اور فلسطین کے عوام کے حق میں ملین مارچ انعقاد پذیر ہوئے بہر حال سراج الحق کو تیسری بار امیر نہ بنائے جانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی شکست کا ذمہ دار سراج الحق کو قرار نہیں دیا جا سکتا دراصل جماعت اسلامی کے ارکان نے حافظ نعیم الرحمٰن کی شکل میں ایک نئے قاضی حسین احمد کو تلاش کر لیا ہے قاضی حسین احمد نے جارحانہ سیاست کر کے جہاں جماعت اسلامی کو بڑی پارلیمانی جماعت بنا دیا تھا،وہاں اس کے ووٹ بینک میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو اتھا لیکن ’’سولو فلائٹ ‘‘ نے جماعت اسلامی کا بھرم ختم کر دیا ۔سید ابو الاعلیٰ مودودی نے26اگست 1941ء کوجس پودے کو لگایا تھا اس نے آج تناور درخت کی شکل اختیار کر لی ہے حافظ نعیم الرحمٰن کواس مسند پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے جس پر سید ابوا لاعلیٰ مودودی ، میاں طفیل محمد ، قاضی حسین احمد ، سید منور حسن اور سراج الحق بیٹھے ہیں۔حافظ نعیم الرحمٰن کو بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا سب سے بڑا چیلنج جماعت اسلامی کو انتخابی میدان میں کامیابیوں سے ہمکنار کرنا ہے۔