• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

قواعد و ضوابط میں نرمی

’’سنڈے میگزین‘‘ میں آپ کی ’’کومے‘‘ سے متعلق وضاحت پڑھ کر افسوس ہوا۔ ٹھیک ہے، کوما، ’’اور‘‘ سے پہلے نہیں لگتا، لیکن اگر لگا لیا جائے، تو کیا حرج ہے۔ یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہے کوئی اردو گرامر کی کلاس تو نہیں۔‘‘ کوئی سی ایس ایس کا پیپر تو نہیں ہو رہا کہ اُس میں قواعد و ضوابط کی پابندی کی جائے۔ زندگی کو سہل بنانا چاہیے، نہ کہ اصولوں، ضابطوں کے تحت ایک لگی بندھی زندگی گزاری جائے۔ ہاں، قواعد و ضوابط سے یاد آیا ہے کہ اب جریدے کے قواعد میں کچھ نرمی ہونی چاہیے۔ 

قارئین کو اجازت دی جائے کہ وہ مندرجات سے ہٹ کر بھی بات کریں۔ یوں بھی اس مُلک میں کون سا کام قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔ کیا یہ ملک صرف اشرافیہ کی عیاشیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ آخرکون سےقانون کے تحت اشرافیہ لاکھوں روپے تن خواہ اور کروڑوں کی مراعات کے مزے لے رہی ہے۔ رہے عوام، تو وہ ٹیکس پر ٹیکس دے دے کرلاغر، نجیف ہوکے رہ گئے ہیں۔ ایسے میں لوگ قوانین، ضابطوں کی خلاف ورزی کر بھی لیں، تو کون سی قیامت آجائے گی۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: جہاں تک ہمیں یاد ہے، ہم نے یہ ’’کومے، اور‘‘ سے متعلق وضاحت کسی کے پوچھنے پر دی تھی، وگرنہ ہم آپ کے جتنے ’’ویلے‘‘ ہرگز نہیں کہ بلاوجہ اُردو قواعد و ضوابط کی کلاس لگا کے بیٹھ جائیں۔ آپ کسی بھی بہانے اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہیں۔ چاہیں، تو کسی دیوار سے سر مارلیں، لیکن، آپ کا صفحہ میں رام کہانیوں کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی کسی اور موضوع پر غیر ضروری تبصروں کی۔ یہ صفحہ مندرجات پر بات چیت کے لیے مختص ہے اورجب تک چل رہا ہے، اِس کا فارمیٹ کسی صُورت تبدیل نہیں ہوگا۔

انسان بھی کتابوں جیسے…

فضلِ خدا کا سایہ تم پہ رہے ہمیشہ…ہرصُبح بخیرگزرے، ہردن رہے مبارک۔ دلی دُعا ہے میرے پاک وطن کا اِک اِک فرد شاد و آباد رہے۔ معروف و مستند لکھاری منور مرزا جب بھی کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں، ایک خُوش نما گل دستہ ہی تشکیل پاتا ہے، خاص طور پر اُن کی تعمیری و اصلاحی سوچ اورافکارکےتو کیا ہی کہنے۔ پاک، ایران تنائو کے خاتمے کے لیے بھی اگراُن کی تجاویز پر عمل کرلیا جائے، تو یقیناً ہم ہرسُو محبّت کے پھول کِھلانے میں کام یاب ہوجائیں۔ محمود میاں نجمی کے سحرانگیز قلم سے نکلے الفاظ ذہن کو روشنی، رُوح کو آسودگی اور دل کو حرارت بخشتے ہیں۔ ’’قصّہ حضرت آدم اوربی بی حوّا علیمہا السلام کا‘‘ کی پہلی قسط کے ساتھ سنڈے میگزین کو گویا ہزار چاند لگا دیئے۔ 

ملتان سے ظفرآہیر’’سرائیکی فوڈز فیملی فیسٹیول‘‘کےساتھ آئے۔اورمٹی کے برتنوں میں سجے60کے لگ بھگ دیسی کھانوں کا تعارف کروا گئے۔ مبشرہ خالد پاکستان کی چند خُوب صُورت جھیلوں کااحوال لائیں۔ اوریہ باور کروایا کہ فطرت سے محبّت، انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ ’’زندہ دل افراد کا مشغلہ، مچھلی کا شکار‘‘ کے قلم کارشمیم غوری تھے۔ محمّد ہمایوں ظفرکی خوش گفتار سیاست دان، سیّد امین الحق سے بات چیت بہت زبردست رہی۔ ہم انسان بھی مختلف کتابوں ہی کی ہوتے مانند ہیں۔ بعض کوباآسانی پڑھ لیاجاتا ہے اور بعض سمجھ سے بالاتر رہتے ہیں۔ ایڈیٹر صاحبہ کے رائٹ اَپ کے تو کیا ہی کہنے۔ 

جیسے نیلگوں آسماں، شفق کی لالی، چاند کی چاندنی، شبنم کے موتی، پھولوں کا تبسم اور بلبل کے نغمے۔ منور راجپوت کی تحریر کا درس تھا کہ جو خوشی دینے میں ہے، وہ لینے میں نہیں اور خوشیاں بانٹنے سے بڑھ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر جنید احمد سے خصوصی بات چیت کانچوڑ، انٹرویوکی سُرخی تھی کہ ’’بھارت بدمعاش ہاتھی ہے، سب کو سونڈیں مارتا ہے‘‘ طلعت عمران کو خوش آمدید کہ اُردو کے سب سے معتبر میگزین کے گل دستے میں ایک خُوش نما گل کااضافہ ہوا۔ اُن کے مرتب کردہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے سب پیغامات لوگوں کے دل کی آواز معلوم ہوئے۔ چمن ہنس دیئے، پھول مُسکرائے … اختر سعیدی تشریف لائے۔نئی کتابوں پر تبصرہ کرنا تو کوئی اُن سے سیکھے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)

ج: اور آپ کے خط کا نچوڑ یہ ہے کہ اگر کسی کو کسی سے پُرخلوص، بےغرض محبت سیکھنی ہے، تو آپ سے سیکھے۔

لیا اپنی ہی صُورت کو بگاڑ…

18 فروری 2024 ء کا شمارہ موصول ہوا۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس ماڈل کو دیکھتے آگے بڑھ گئے، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی قصّہ جنات کی آخری قسط لائے۔ معلومات میں بہترین اضافہ ہوا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال اسرائیل کے 10 امن معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کی رُوداد سُنا رہے تھے۔ دراصل یہودیوں کی سرشت ہی میں نافرمانی، ہٹ دھرمی، من مانی کوٹ کوٹ کر بَھری ہوئی ہے۔ یہ لوگ تواللہ تعالیٰ اورانبیاءؑ سے کیے ہوئے وعدوں کا پاس نہیں کرتے تھے۔ 

ناحق اُن انبیاءؑ کوقتل کردیتے، جوانہیں راہِ ہدایت دکھاتے تھے۔ گزشتہ صدی میں ہٹلرکےہاتھوں ہولوکاسٹ میں لاکھوں یہودیوں کا قتلِ عام ایسے ہی نہیں ہوا تھا۔ دُعا ہے اللہ پاک فلسطینیوں کو ان کے ظلم وستم سےنجات عطا فرمائے،آمین۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رابعہ فاطمہ تعلیمی میدان میں اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کےحل کی تلقین کر رہی تھیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا نےحالیہ انتخابات میں عوام کے جذباتی فیصلے کو، اپنی مشکلات میں اضافے سے تعبیر کیا اور بلاشبہ سو فی صد درست تعبیر کیا۔ 

پچھلی حکومت نے بھلا کون سی دودھ، شہد کی نہریں بہائی ہوئی تھیں، جو یہ عمران خان کے پیچھے پاگل ہوئے پِھر رہے ہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی روشنیوں کے شہر، پیرس کے سفر کی رُوداد سُنا رہے تھے، مگر ہمارے نصیب میں تو لوڈشیڈنگ کی تاریکیاں ہی لکھی ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ اِک ہم ہیں کہ لیا پنی ہی صُورت کو بگاڑ …ایک وہ ہیں، جنہیں تصویر بنا آتی ہے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر اختر سعیدی نے ماہرانہ تبصرہ کیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ہمایوں ظفر نے، اپنے آبائو اجداد کی شخصیات پروشنی ڈالنے والوں کی کہانیاں مرتب کیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں فقیہ شہزاد ’’ادھورا چاند‘‘ کے عنوان سے حب الوطنی میں ڈوبا افسانہ لائیں۔

ڈاکٹر نثار کی ’’آشوبِ فلسطین‘‘ کےعنوان سےنظم تو گویا ایک نوحہ تھی۔ خنساء سعید کا افسانچہ ’’ننّھے بوٹ‘‘ بھی آنکھیں نم کرگیا۔ اےکاش! مسلمان حُکم ران زبانی جمع خرچ کے علاوہ بھی کچھ کریں۔ دانیال حسن چغتائی نے ٹرک ڈرائیورز کی کٹھن، دشوار زندگی پر روشنی ڈالی، تو محمّد عمر جمیل دنیا کے پانچ بہت چھوٹے ممالک کی منفرد خصوصیات بتا رہے تھے اور اپنے صفحےپراستانی صاحبہ کی طرف سے اعزازی چٹھی کی خلعتِ فاخرہ ہمیں عطا کی گئی۔ بےحد شکریہ۔ دیگر لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: ہمیں استانی کے درجے پرفائز کیا ہوا ہے، تو اچھے طلبہ کی طرح ہم سے کچھ سیکھ بھی لیں۔ خدارا کبھی تو کوئی شعر، مصرع درست لکھ لیا کریں۔ خط میں جہاں کوئی مصرع ، شعر استعمال ہوتا ہے، ہمیں سو فی یقین ہوتا ہے کہ یقیناً غلط لکھا ہوگا اور الحمد للہ، ہمارا یہ یقینِ کامل آپ نے کبھی ٹوٹنے نہیں دیا۔

خط، لطیفے کے بغیر

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ورک فورس خیریت سے ہوگی۔ شمارہ ملا، پڑھ کر حسبِ معمول معلومات میں اضافہ ہوا۔ سب سے پہلے ’’حالات و واقعات‘‘ کا ذکر ہوجائے، جس پر ہمیشہ کی طرح منور مرزا چھائے ہوئے تھے۔ اس بار اُنہوں نے انتخابات کا منظرنامہ پیش کیا اور انتہائی مدلّل انداز سے۔ اللہ کرے کہ عوام اور صاحبانِ اقتدار کو اُن کی باتیں سمجھ آجائیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں محمود میاں نجمی ’’قصّۂ جنّات‘‘ سُنا رہے تھے، پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رابعہ فاطمہ، ریڈیو پاکستان کے ماضی کا ذکر لائیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اخترالاسلام یادگاری ڈاک ٹکٹس بابت آگاہی دے رہے تھے، تو ’’انٹرویو‘‘ میں رؤف ظفر گلوبل ٹیچر پرائز جیتنے والی، باہمّت پاکستانی سسٹر زیف سے سوال و جواب کررہے تھے۔

’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود کا مضمون پڑھا، لیکن فلمز دیکھے بغیریہ تحریر ہرگز سمجھ میں نہیں آسکتی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی، پیرس کے سفر کا احوال لائے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘میں ایم آر شائق کا واقعہ اُداس کرگیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد کا افسانہ اچھا تھا اور آپ کے صفحے میں ہمارا خط موجود نہیں تھا، تو اس ذکر کو یہیں ختم کرتے ہیں۔

ہاں، خادم ملک، عرف بےکار ملک کا خط موجود تھا، لیکن کسی لطیفے کے بغیر۔ اگلے ایڈیشن کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ جنات‘‘ کی دوسری اور آخری قسط کےساتھ آئے۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال نے ماضی کے حوالے سے کچھ تلخ حقیقتیں بیان کیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا نے مخلوط حکومت کو درپیش چیلنجز کا ذکر کیا اور سوفی صد درست طور پر کیا۔ 

’’ڈائجسٹ‘‘ میں فقیہہ شہزاد کا افسانہ ’’ادھورا چاند‘‘ کچھ خاص پسند نہیں آیا۔ خنساء سعید نے فلسطین کے حوالے سے ’’ننّھے بُوٹ‘‘ تحریر کیا اور نہایت خُوب صُورت انداز سے۔ ’’آشوبِ فلسطین‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر نثار احمد کی نظم تو گویا ہر مسلمان کے دل کی آواز تھی اور اب بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جس میں ہمارا خط بھی شامل تھا، بہت بہت شکریہ۔ اس جریدے میں ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اور’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے صفحات نہیں تھے۔ براہِ مہربانی یہ دونوں صفحات ضرور شامل رکھا کریں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: بےکار صاحب کا خط بےشک کسی لطیفے کے بغیر ہو، مگر اُن کا تصوّر ہی گویا کسی بے وقوفی کا استعارہ، ہنسی کا اشارہ ہے کہ اُن کی بہت سنجیدہ بات پر بھی نہ جانےکیوں بے اختیار ہی یا تو دِل لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے، یا پھردماغ بھک سے اُڑجاتا ہے۔

سیاق و سباق کے ساتھ تبصرہ

آپ کی ایڈیٹرشپ میں جنگ، سنڈے میگزین دن دونی، رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ کئی ناسمجھ لوگ بھی راہِ راست پرآگئے ہیں، لیکن ابھی بھی کئی ہیں،جو آپ سے ملاقات کےشائق ہیں۔ محمود میاں نجمی نے اپنے مضمون میں آیت الکرسی اور آخری دو قُل کا ذکر فرمایا۔ اتنی عُمدہ تحریر پیش کرنے کا بہت شکریہ۔ فلسطینی عوام پر بدترین اسرائیلی جارحیت اور تمام دنیا کے مسلمانوں کاخوابِ خرگوش میں ڈوبے رہنا، یقیناً یہ جُرم تاقیامت بُھلایا نہ جائےگا۔ ٹرک ڈرائیورز کی زندگی اور5 چھوٹے ممالک میں سے ایک مُلک کے ٹیکس فِری ہونے کا پڑھا۔ رابعہ فاطمہ تعلیمی میدان کےمسائل اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر پر فاروقِ اعظم قلم طراز تھے۔ ’’اِک آگ کا دریا ہےاور ڈوب کے جانا ہے۔‘‘

واقعی مخلوط حکومت، واضح اکثریت کا نہ ملنا، اِس معاشی دلدل میں دھنسے مُلک کے لیے کسی طور سُودمند نہیں۔ اور محمود شام کی غزل ؎ نہ جانے کتنے ہی صفحوں پر دل بکھیرا مگر… نہ کہہ سکے تو وہ اِک بات ہی، جو کہنی تھی۔ دِل لُوٹ لے گئی۔ ’’شہرِمحبّت‘‘ پیرس سے متعلق خالد ارشاد صوفی کی تحریر بھلی لگی۔ اختر سعیدی کا کتابوں پر سیاق و سباق کے ساتھ تبصرہ بہت پسند آتا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اِس بار شری مُرلی چند، سیّدزاہد علی، شہنازسلطانہ، مصباح طیّب، پرنس افضل شاہین، ڈاکٹرشمسی، ضیاء الحق قائم خانی اورآپ کی ہم نام، نرجس مختارموجود تھے، مگر ونر تو شہزادہ صاحب ہی ٹھہرے۔ (شائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو ضلع مظفرگڑھ)

ج: جی بالکل، اخترسعیدی اور منور راجپوت کے ماہرانہ تبصرے قارئین سے مستقلاًپسندیدگی کی سند حاصل کررہے ہیں اور بےشک، محمود شام کی غزل بھی گویا سادگی و دل کشی کا استعارہ تھی۔

تحریروں کی اشاعت

آپ کی عنایتوں کا بہت بہت شکریہ۔ میری تحریریں وقتاً فوقتاً جریدے میں جگہ بنانے میں کام یاب ہورہی ہیں، تہہ دل سے ممنون و شُکر گزار ہوں۔’’یومِ باب الاسلام‘‘ کے ضمن میں شہر دیبل کی تاریخی و علمی حیثیت کے موضوع پر ایک تحریرحاضرِخدمت ہے۔ شائع کرکے حوصلہ افزائی فرمائیں۔ (بابر سلیم خان، سلامتی پورہ، لاہور)

ج: آپ کی متعدّد تحریروں کی عدم اشاعت کی ایک بڑی وجہ، آپ کا تحریریں تاخیرسے بھیجنا ہے کہ عموماً آپ مختلف مواقع، ایّام کی مناسبت ہی سے تحریریں ارسال فرماتے ہیں، لیکن جب تک وہ ہمیں وصول پاتی ہیں۔ وہ موقع، دن گزرچُکا ہوتا ہے۔ آپ کو غالباً ہمارے پرنٹنگ شیڈول کا اندازہ نہیں۔ آئندہ اگراس طرح کی کوئی تحریر بھیجیں، جس میں وقت، موقعے کی قید ہو، توکم ازکم ایک سے ڈیڑھ ماہ قبل بھیجیں۔

                        فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ماہِ فروری کا وسط ہے۔ ٹھنڈی میٹھی ہوائیں بہار کی آمد کا پیام دے رہی ہیں۔ پرندوں کی چہکاریں گویا نغمۂ بہار سُنا رہی ہیں۔ ایسے میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کی آمد نے تو موسم کے حُسن کو بھی چار چاند لگا دیئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے جنّات سےمتعلق بیش بہا معلومات ملیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال نے اسرائیل سے ہونے والے امن معاہدوں کی تفصیل، اختصار کے ساتھ بیان کی۔ 

اسرائیل کی معاہدوں کی خلاف ورزی، اُن کی انسانیت اور امن دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے، لیکن افسوس دنیا کے نام نہاد ٹھیکےدار اسرائیلی مظالم پر آج تک خاموش ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رابعہ فاطمہ نے تعلیمی میدان میں اسلامی دنیا کودرپیش مسائل کامختصر جائزہ لیا۔ ’’سنڈےاسپیشل‘‘میں منورمرزا نے حالیہ الیکشن پر تفصیلی مضمون رقم کیا۔

خدا جانے یہ الیکشن مُلک کی تقدیر بدلیں گے یا پھر گزشتہ کئی برسوں سے اشرافیہ کی جانب سےعوام کے ساتھ جو کھیل کھیلا جارہا ہے، یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر خُوب تھی اور رہی بات ماڈل کی، توہمیں ماڈل اور ماڈلنگ سے قطعاً کوئی دل چسپی نہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد سفرِ پیرس پر رقم طراز تھے۔ 

حالیہ قسط دل چسپی سے بھرپور رہی۔’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘کی تمام ہی تحریریں لاجواب تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’ادھورا چاند‘‘ میں افسانہ نگار نے ایک اہم موضوع کو اجاگر کیا۔ ’’ننّھےبُوٹ‘‘ دل گرفتہ کردینے والی تحریر تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فی زمانہ امن کے دعوے دارہی امن کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ’’متفرق‘‘ کی دونوں تحریریں بھی منفرد اور معلوماتی لگیں اور’’آپ کا صفحہ‘‘حسبِ روایت رنگا رنگ خطوط ہی سے مزیّن تھا۔ (عائشہ ناصر)

ج: بہت خُوب عائشہ۔ اِسے کہتے ہیں، مختصر اور جامع۔ آتی جاتی رہا کرو۔ ہاں مگر، اپنے نام کے ساتھ، شہر، علاقے کا نام لکھنے کی بھی عادت ڈالو۔

گوشہ برقی خطوط

* اس ہفتے ’’سنڈے میگزین‘‘ کا ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ پڑھا، جس میں ایک بہت ہی دردناک واقعہ بیان کیا گیا۔ واقعہ پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ مگر ایک جملے کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ جملہ اِس طرح تھا کہ ’’میرا تعلق تو سابق مشرقی پاکستان کے صوبہ بہار سے ہے…‘‘ یہاں تاریخی حقیقت واضح کرنے کے لیے یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ صوبہ بہار، انڈیا (بھارت) کا صوبہ ہے، نہ کہ مشرقی پاکستان کا۔ 

انگریزوں نے جس طرح پنجاب کو کاٹ کر مشرقی اور مغربی حصّوں میں بانٹ دیا تھا، اِسی طرح بنگال کو بھی دو حصّوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تو مغربی بنگال، بھارت کا ایک صوبہ بنا اور مشرقی بنگال مشرقی پاکستان کہلایا، جو کہ خُود ایک صوبہ تھا۔ پاکستان کا اور مشرقی پاکستان کا کوئی مزید صوبہ نہیں بنا۔ نیز، بہارکی زبان صرف اُردو ہے۔ جو بہار کے رہنے والے پہلے مشرقی پاکستان گئے اور پھرمغربی پاکستان آگئے،کچھ بنگالی زبان سیکھ گئے ہوں گے، لیکن جو بہار سے براہ راست مغربی پاکستان گئے، وہ بنگلا زبان سے بالکل ہی نابلد ہیں۔ قصّہ مختصر، صوبہ بہار کا تعلق بھارت سےہے، نہ کہ مشرقی پاکستان سے۔ (تبسم خورشید)

ج: ’’ناقابلِ فراموش‘‘سلسلے کے لیے ہماری پوری کوشش ہوتی ہےکہ راوی جس طرح بھی کوئی واقعہ بیان کرے، خصوصاً حالات و واقعات، حقائق، اعداد و شمار وغیرہ، وہ مِن و عن ہی شایع کیےجائیں۔ مذکورہ واقعے کے ضمن میں کچھ کنفیوژن مرتّب کو ہوئی، کچھ واقعہ نگار نے بھی بات ذرا گُھما پھرا کے کی، جس سے ابہام سا پیدا ہوگیا اور نتیجہ حقائق کی غلطی پر منتج ہوا۔ بہرحال، اُمید ہے، اب ہمارے ساتھ واقعہ نگار کی بھی اصلاح ہوگئی ہوگی۔

* مَیں آپ کے سلسلے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اپنے والدِ محترم مجید فاروقی مرحوم (سابق ڈپٹی کنٹرولر، سینٹرل پروڈکشن یونٹ کراچی) پر ایک مضمون شائع کروانا چاہتا ہوں، مضمون آپ تک کس طرح بھیج سکتا ہوں۔ (اقبال فاروقی)

ج: جیسے یہ ای میل بھیجی ہے، بعینہ اِسی طرح۔

ٹِفن رکھتی ہے میری ماں، تو بستہ مُسکراتا ہے …

سنڈے میگزین کا سلسلہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ ایک دل کی آواز، دوسرے دل تک پہنچانے کے ساتھ مختلف مواقع پر کئی خُوب صُورت رشتوں کے دِلی جذبات کی عکّاسی و ترجمانی بھی کرتا ہے۔ اب چوں کہ ’’ماؤں کے عالمی یوم‘‘ کی آمد آمد ہے، لہٰذا اگر آپ بھی اپنی عظیم ماؤں کے لیے کوئی بھی پیغام (نثر یا شعر کی صُورت) بھیجنا چاہیں، تو ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کردیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘، صفحہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ (مدرز ڈے اسپیشل ایڈیشن) روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چند ریگر روڈ، کراچی۔ 

یاد رہے، پیغام بھیجنے کی آخری تاریخ 2 مئی 2024ء ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk