گُل حسن کلمتی ایک سرگرم سماجی کارکن ، قلم کار اور دانش وَر تھے، جن کا17مئی2023ء میں 66برس کی عُمر میں کراچی میں انتقال ہوا۔ تاہم، اُن کی گراں قدر خدمات کے باعث سندھ کے باسی اُنہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ راقم کی گل حسن کلمتی سے شناسائی1980ء کے عشرے کے اوائل سے تھی، تب ہم کراچی کے ایک کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور اُس دَور میں یہ بات تقریباً ناممکن تھی کہ کوئی فرد کراچی کی ترقّی پسند طلبہ سیاست میں سرگرم ہو اور دیگر ترقّی پسند اُسے نہ جانتے ہوں۔
نیز، اُس زمانے میں جنہوں نے بھی جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف آواز اٹھائی یا کسی مزاحمتی سرگرمی میں حصّہ لیا، اُس کی دیگر ترقّی پسندوں سے شناسائی لازمی اَمر تھی۔
گُل حسن کلمتی نے 40سال سے زائد عرصے تک مستقل مزاجی، کڑی محنت اور جاں فِشانی سے کام کیا اور کُل سترہ کُتب اور درجنوں مضامین و مکالمے تحریر کیے، جن کے موضوعات میں تعمیرات اور مقامی ثقافت سے لے کر تاریخ اور سماجی مسائل تک سب ہی کچھ شامل تھا۔ یہ موضوعات سندھ، بالخصوص کراچی کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں۔
یعنی انہیں ’’کراچی کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ کہا جا سکتا تھا اور اسی بنا پر دوستوں اور قارئین میں اُن کی بڑی عزّت و احترام تھا۔ وہ تاریخ کو نسبتاً مختلف زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کے قائل تھے اور یہ زاویۂ نگاہ ایسا نہیں تھا کہ جو ہمارے تعلیمی اداروں میں پایا جاتا ہے۔
وہ 1957ء میں گڈاپ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، جو اُس وقت ٹھٹّہ کا حصّہ تھا۔ انہوں نے بچپن میں خاصی غُربت دیکھی اور اپنے پھل فروش والد کے ساتھ حصولِ روزگار میں حصّہ لیا۔ 1963میں جنرل ایّوب خان کی فوجی آمریت کے دَور میں گڈاپ اور اس کے آس پاس کے درجنوں دیہات کراچی کی انتظامی حدود میں شامل کردیے گئے اور اس طرح گل حسن کلمتی ’’کراچی والے‘‘ بن گئے۔ یاد رہے کہ بُرفت، جاموٹ اور جوکھیو برادریوں کے ساتھ کلمتی کمیونٹی بھی ان دیہات میں صدیوں سے آباد ہے اور کراچی اور اس کے ساحلی علاقوں سے ان کا تعلق نسل در نسل سے چلا آرہا ہے۔
گُل حسن کلمتی نے معاشی دشواریوں کے باوجود 1980ء کے عشرے میں جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کیا۔ ہمارے ایک دوست، جو ان کے ساتھ جامعہ کراچی میں زیرِ تعلم تھے، بتاتے ہیں کہ اُس وقت شعبۂ صحافت میں صرف دو سندھی بولنے والے طالبِ علم تھے۔ ایک گُل حسن کلمتی اور دوسرے اظہر ابڑو، جن کے والد، جمال ابڑو کا شمار سندھی ادب کے بڑے لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ اُس زمانے میں صوبۂ سندھ پُر آشوب دَور سے گزر رہا تھا۔
مُلک کے پہلے منتخب وزیرِاعظم، ذوالفقار علی بُھٹّو کو پھانسی دے دی گئی تھی اور اُن کے دَور میں طلبہ کو حاصل سیاسی آزادیوں کا گلا گھونٹا جا رہا تھا، لیکن اس کے باوجود بحث مباحثے کا ایک سرگرم ماحول موجود تھا۔ اُس دَور میں حاصل بزنجو، حسین حقّانی، مظہر عبّاس، مصطفین کاظمی اور شفیع نقی جامعی سمیت دیگر بہت سے اسٹوڈنٹ لیڈرز کراچی کی طلبہ سیاست میں خاصا سرگرم کردار ادا کررہے تھے، جس کے لیے ابھی طلبہ تنظمیوں کے پلیٹ فارمز موجود تھے۔
جنرل ضیاء الحق اور اُن کی ریاستی مشینری نے جمہوری قوّتوں کو سانس لینے کا بھی موقع نہیں دیا اور خاص طور پر سرگرم طالبِ علم رہ نماؤں اور سیاسی کارکنوں کو بُری طرح نشانہ بنایا۔ اسّی کے عشرے کے وسط میں کلمتی نے عوامی تحریک کی حمایت حاصل کی، جس کے بانی معروف دانش وَر اور لیڈر، رسول بخش پلیجو تھے، جنہوں نے برسوں پسِ زنداں بسر کیے تھے۔ رسول بخش پلیجو کی صحبت اور عبدالواحد کے ساتھ نے کلمتی کی صلاحیتوں کو نکھارا۔ وہ کچھ عرصہ جئے سندھ محاذ (جے ایس ایم) اور سندھ ترقّی پسند پارٹی (ایس ٹی پی پی) سے بھی وابستہ رہے۔
1990 ء کے عشرے کے اوائل میں گُل حسن کلمتی نے ایک سرگرم کارکن سے زیادہ ایک دانش وَر اور قلم کار کے طور پر شُہرت حاصل کرنا شروع کی اور جب سینئر کامریڈ، ڈاکٹر جبّار خٹک اور سہیل سانگی نے قید وبند کی طویل صعوبتیں جھیلنے کے بعد ایک سندھی اخبار کا اجرا کیا، تو گُل حسن کلمتی نے اس میں لکھنا شروع کیا۔ انہوں نے سندھ کے جنوبی علاقوں کے مسائل، جغرافیے، قبائل اور برادریوں وغیرہ پر مسلسل لکھ کر اپنے قارئین کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا۔
اُسی زمانے میں معروف براڈ کاسٹر اور صحافی، رضا علی عابدی کا ایک ریڈیو پروگرام، ’’شیر دریا‘‘ بی بی سی سے نشر ہوتا تھا۔ اس پروگرام میں دریائے سندھ کے سفر کی بابت دل چسپ معلومات ہوتی تھیں۔ کلمتی کو اس پروگرام سے رغبت پیدا ہوئی، تو انہوں نے انور پیرزادو کی ادارت میں بی بی سی کی اجازت سے اس کا سندھی ترجمہ شروع کیا۔یہ سلسلہ ’’ سندھو جی سفر کہانی ‘‘ کے عنوان سےایک سندھی اخبار میں شایع ہوا۔
اس کے ساتھ ہی وہ انگریز دَور کی تعمیرات پر بھی لکھتے رہے۔ پھر اُن کا ایک بڑا کارنامہ ’’کراچی، سندھ جی ماروی‘‘ نامی تصنیف کی شکل میں سامنے آیا۔ اس کتاب کو کئی اعزازات اور ایوارڈز ملے اور اس کے انگریزی اور اردو تراجم بھی ہوئے۔
گُل حَسن کلمتی کی ایک اور شان دار تصنیف، ’’کراچی جا لافانی کردار‘‘ ہے، جس میں کراچی کی تعمیر و ترقّی میں حصّہ لینے والے نام وَر افراد کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے، جن میں بہت سے غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ دو جِلدوں پر مشتمل یہ کتاب کراچی کی دو سو سالہ تاریخ پر مشتمل ہے اور اس کی ایک جِلد کا انگریزی میں ترجمہ بھی شایع ہو چُکا ہے۔
گُل حسن کلمتی نے سندھ کے جزائر اور ان کے جغرافیے پر بھی خاصا تحقیقی کام کیا اور تاریخی حوالوں سے مزیّن کُتب اور مضامین لکھے۔ گرچہ ان میں سے بعض حوالوں کی ثقاہت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اُن کی اس کاوش کو پذیرائی ملی۔ اُن کی ایک اور کتاب، ’’عشق جوں گلیوں‘‘ ہے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے سندھی زبان میں سفر نامے بھی لکھے اور خاص طور پر کیلاش کی وادیوں کے حوالے سے لکھا گیا اُن کا سفرنامہ اپنی مثال آپ ہے۔
گُل حسن کلمتی نے بھنبھور سے کیچ مکران تک کا سفر بھی کیا اور اس دوران اُس راستے سے گزرے، جو سسّی نے پُنّوں کی تلاش میں طے کیا تھا۔ یاد رہے کہ’’ سسّی پنّوں‘‘ ایک معروف لوک داستان ہے، جس میں سندھ کی سسّی بلوچستان کے پُنّوں کے عشق میں گرفتار ہو جاتی ہے، مگر اس سے پہلے کہ دونوں کا ملن ہوتا، پنّوں کو اس کے رشتے دار سندھ سے اغوا کرکے واپس مکران لے جاتے ہیں اور پھر سسّی اپنے محبوب کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہے۔
گو کہ یہ داستان حقیقت سے زیادہ فسانہ معلوم ہوتی ہے، لیکن گُل حسن کلمتی نے اس راستے کو کھوجنے کی کوشش میں بہت سی نئی چیزیں دریافت کیں اور انہیں قارئین کے سامنے پیش کیا۔ نیز،انہوں نے کراچی کے مقامی باشندوں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے ’’کراچی انڈی جینس رائٹس الائنس‘‘ بھی تشکیل دیا۔
آج سے تقریباً20برس قبل جب راقم نے کراچی چھوڑا، تو اس کے بعد ہمیں کلمتی سے ملاقات کے مواقع کم ہی ملے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ؎ سرسری ان سے ملاقات ہے گاہےگاہے… بزمِ اغیار میں گاہے، سرِ راہے گاہے۔ کبھی کسی ادبی میلے میں یا کراچی پریس کلب میں اتفاقاً ملاقات ہو جاتی یا پھر ریگل چوک کے قریب پُرانی کُتب کے اتوار بازار میں، جہاں اختر بلوچ بھی اکثر آتے تھے۔ گُل حسن کلمتی کراچی کی میونسپل انتظامیہ میں سرکاری ملازم تھے، جہاں سے وہ ایک سینئر عُہدے دار کے طور پر سُبک دوش ہوئے۔ وہ ایک ملن سار اور سادہ انسان تھے اور انہوں نے کبھی بھی دوسروں کواپنی علمیت سے مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کراچی ضلعی انتظامیہ میں خدمات انجام دیتے ہوئے اُنہیں قدیم دستاویزات تک رسائی حاصل تھی، جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، جب کہ ان سے قبل سیکڑوں افراد وہاں کام کر چُکے تھے، لیکن شاید ہی کسی نے ان دستاویزات کو کھنگالنے کی کوشش کی ہو ۔ کلمتی نے نہ صرف ان دستاویزت سے کام لیا بلکہ اس حوالے سے کراچی کے بے شمار قدیم لوگوں کے انٹرویوز بھی کیے، جن سے انہیں اپنی تحریروں میں خاصی مدد ملی۔ مثال کے طور پر انہوں نے کراچی کے پُرانے آبی ذخائر اور پانی کے وسائل پر تحقیق کی۔
وہ کراچی میں بننے والے نئے رہائشی منصوبوں کے شدید مخالف تھے اور لینڈ مافیا کی جانب سے شہر کی قدیم آبادیوں پر قبضے اور تجاوزات کی مخالفت پر اُن کا نشانہ بھی بنے۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی مرتبہ احتجاجی مظاہرے بھی کیے، جن میں اُن کے ساتھ یوسف مستی خان، خالق جونیجو اور عثمان بلوچ وغیرہ شامل تھے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے خواتین کے مسائل پر بھی آواز بلند کی۔ سو، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گُل حسن کلمتی کے انتقال کی صُورت ہم ایک انسان دوست شخصیت، عوامی دانش وَر اورفعال سماجی کارکن سے محروم ہو گئے۔