• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس پاکستان میں امن و امان قائم کرنے کا ایک اہم ریاستی ادارہ ہے۔ ہر قسم کے حالات میں خصوصاً دہشت گردی کیخلاف جنگ کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں کی پولیس نے فرنٹ لائن ادارے کا کردار ادا کیا اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ مرور وقت کیساتھ جس طرح پاکستان کے دیگر ادارے تنزلی کا شکار ہوئے اسی طرح محکمہ پولیس بھی زوال کا شکار ہوا۔ رہی سہی کسر سیاسی مداخلت نے پوری کردی اور پولیس کا بطور ادارہ امیج بری طرح مجروح ہوا۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ پولیس کے مجموعی حالات کار کسی طور بھی تسلی بخش نہیں، اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ تھانے کی سطح پر کام کرنے والے اہلکاروں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، انکی رہائش کیلئے نہ تو مناسب کمرے ہیں نہ کام کرنے کیلئے ضروری دفاتر، یہاں تک کہ بنیادی انسانی ضروریات سے بھی عام سپاہی اور تھانیدار محروم ہیں۔ انکے علاج کیلئے نہ تو فوج اور دیگر اداروں کی طرح ہسپتال دستیاب ہیں نہ ہی انکے بچوں کی تعلیم کیلئے مناسب اور معیاری سکول،تھانے میں کام کرنیوالے اہلکاروں کے اوقات کار متعین نہیں۔ دن میں عدالتوں کے چکر لگانے کیساتھ ساتھ مقدمات کی تفتیش بھی ان کے ذمے ہے۔تفتیش کیلئے مطلوبہ وسائل کی عدم دستیابی اور جدید ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت نے پولیس کے کام کو مزید مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ دن رات کی ڈیوٹی کے باوجود پاکستان کی پولیس،عوام کے دلوں میں وہ جگہ نہیں بنا سکی جس کی وہ مستحق تھی۔ بہاول نگر کے واقعہ میں پولیس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تحریر کے لائق نہیں لیکن اس پر عوام کی بڑی اکثریت نے افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار کیا۔ کھاریاں میں پیش آنے والے واقعہ کو کم سے کم الفاظ میں شرمناک قرار دیا جا سکتا ہے۔پولیس کے ادارے پر اربوں روپے کا بجٹ خرچ کرنے کے باوجود نہ تو مطلوبہ نتائج حاصل ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔یوں تو پولیس ہمیشہ سے سیاسی حکومتوں کی آلہ کار رہی ہے اور پولیس کی تباہی میں سب سے زیادہ کردار سیاسی شخصیات نے ادا کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پولیس کو بطور ادارہ تباہ کرنے، اس کی بے توقیری کرنے اور اس کیلئے مطلوبہ وسائل مہیا نہ کرنے کے ذمہ دار، پولیس کے اپنے اعلیٰ افسران ہیں۔اعلیٰ سطح پر موجود چند ایک افسران کے علاوہ نہ تو کوئی افسر اپنے ماتحتوں کی فلاح و بہبود کے متعلق سوچتا ہے اور نہ ہی ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دیتا ہے پولیس کے سربراہان ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت خوشامد اور چاپلوسی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور موجودہ دور کا رجحان تو یہ ہے کہ پولیس کے کانسٹیبل سے لے کر اعلیٰ افسران تک پولیس افسر سے زیادہ ٹک ٹاکر معلوم ہوتے ہیں۔مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اگر پولیس کے نوجوانوں کی ویڈیوز ملاحظہ کی جائیں تو یہ سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ آج کارکردگی دکھانے سے زیادہ ویڈیوز اور ٹک ٹاک بنانے پر توجہ ہے۔ حکومت کے ہاتھوں پولیس کا سب سے برا استعمال 9 مئی کے واقعہ کے بعد دیکھنے میں آیا، پولیس نے پاکستان کی ایک مقبول ترین جماعت کو کچلنے کیلئے جس طرح نگران حکومت کے احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا اس نے پولیس کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا۔ 9مئی کے واقعہ کی آڑ میں کئی بے گناہ لوگوں پر مقدمات بنائے گئے اور پھر بھاری رشوت لے کر انہیں چھوڑا گیا۔ لوگوں کے گھروں میں ریڈ کیے گئے،خواتین کی بے حرمتی کی گئی، گھریلو سامان کو توڑا پھوڑا گیا، کئی معززین اور شرفاء کے گھروں کی چادر اور چار دیواری کی حرمت پامال کی گئی لیکن کسی پولیس افسر میں یہ اخلاقی جرات نہ تھی کہ وہ حکومت وقت کو یہ باور کرا سکتا کہ پولیس کی ذمہ داری چادر اور چار دیواری کا تحفظ ہے نہ کہ چادر اور چار دیواری کی پامالی۔ پولیس کے اس عمل کی وجہ سے عوام میں شدید نفرت اور ناپسندیدگی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ ہر سطح پر پولیس کی بے توقیری کا رجحان عام ہوا۔بعض حکمرانوں کا یہ پسندیدہ مشغلہ رہا ہے کہ وہ جونیئر افسروں کو بڑی پوسٹوں پر تعینات کر کے ان سے اپنی مرضی کا کام لیتے ہیں اور آج اس کا نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ پولیس بطور ادارہ ٹک ٹاک پر تو ’’ٹاپ ٹرینڈ‘‘ہے لیکن عوام کے دلوں سے اتر چکا ہے۔ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ نے پولیس کی وردی پہن کر پولیس کا مورال بلند کرنے کی اپنے طور پر کوشش کی لیکن یہ کافی نہیں۔ جس طرح فوج میں تھنک ٹینک اور سوچ بچار کرنے کے ادارے ہیں پولیس کو بھی اسی طرح کے ادارے قائم کرنے چاہئیں اور ہمہ گیر اصلاحات پر توجہ دینی چاہئے۔ 2002ء کے پولیس آرڈر میں جو قواعد و ضوابط دیے گئے ہیں، ان پر عمل کرنا اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق صرف اہل اور سینئر افسران کا سینئر پوسٹوں پر تقرر کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی اب یہ سوچنا ہوگا کہ ان کے منفی رویے کی وجہ سے آج پولیس کا ادارہ زمین بوس ہو چکا ہے۔دھڑا دھڑ ترقیوں، تھانوں کی ظاہری زیبائش و آرائش پر توجہ، وردیوں کی تبدیلی، مراعات میں اضافے سے پولیس کا مورال اور وقار بلند نہیں ہو سکتا بلکہ اس کیلئے اسے عوام دوست رویہ اپنانے کے ساتھ ساتھ قانون اور اخلاق کے ضابطے کا پابند بنانا ہوگا تاکہ وہ کبھی کسی غیر قانونی حکم کی بجا آوری نہ کرے۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ یقینی بنائے خواتین کے ساتھ جو بدسلوکی روا رکھی گئی پولیس بطور ادارہ عوام سے معافی مانگے اور پھر اپنی کارکردگی پر بھی توجہ دے تب جا کر پولیس کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے ورنہ بے توقیری کا یہ رجحان نہ تو ادارے کیلئے فائدہ مند ہوگا اور نہ ہی ریاست کیلئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین