• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں پچھلے ہفتے کچہری کے افسوسناک واقعہ نے ملکی وغیر ملکی سرمایہ کاروں کو ایک اور تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ اگر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بار بار کے دعوئوں کے باوجود اسلام آباد محفوظ نہیں ہے تو پھر باقی ملک کا کیا ہوگا، جس میں سب سے زیادہ کراچی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ایسے حالات کا معاشی سرگرمیوں پر یقیناً منفی اثر پڑتا ہے اور ملکی سلامتی کے لئے خطرات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں بھی قدرت کا اتفاق دیکھئے کہ وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کے دعوئوں اور اعلانات کے مطابق پاکستانی روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی قیمت کم ہونا حکومتی کارکردگی کا ایک مثبت پہلو ہے۔ گوکہ وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش کے مطابق ابھی اس کی قیمت1998ء کی سطح پر نہیں آسکی اور نہ ہی سو روپے کی سطح پر ڈالر آیا ہے۔ بہرحال اب وہ104۔105 روپے کی سطح پر آچکا ہے جبکہ حکومتی حلقوں کے مطابق ڈالر کی قیمت102 روپے تک آچکی ہے ۔اس حوالے سے چند روز قبل بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی لاہور آمد پر مقامی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں دئیے جانے والے ظہرانہ میں ملک کے معتبر بزنس حلقوں کی طرف سے اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس ظہرانے کا اہتمام ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر عرفان قیصر شیخ کی طرف سے کیا گیا۔ اس موقع پر بزنس مینوں کی طرف سے دس لاکھ روپے سے زائد کے بنک کھاتوں تک FBRکی رسائی پر بھی تشویش کا ا ظہار کیا گیا جس پر ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے یقین دلایا کہ وہ وزیر اعظم کے نوٹس میں یہ معاملہ لائیں گے تاکہ اس حوالے سے نہ تو بینکوں کا کاروبار متاثر ہو اور نہ ہی بزنس کمیونٹی یا بنک کھاتے داروں کو کوئی مسئلہ پیش آئے ۔ہمارے نزدیک اس مسئلے کے حل کیلئے چاہےتو 10 لاکھ روپے کی حد کو پہلے مرحلہ میں بڑھاکر کم از کم 50 لاکھ روپے کردیا جائے اور پھر آہستہ آہستہ اس پر عملدرآمد کی حکمت عملی اپنائی جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کو بھی ٹیکس وصولی کے طریق کار کو آسان اور ٹیکس دہندگان کے لئے قابل اعتماد بنانا ہوگا۔یہ اقدامات ایسے حالات میں زیادہ ضروری ہیں جب ملک میں عملاً امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہ ہو اور عوام روٹی اور سیکورٹی دونوں کے لئے پریشان ہوں حالانکہ اگر حکومت سیکورٹی کے مسئلہ کو اولین ترجیح کے طور پر حل کردے تو اس سے معیشت کے تمام شعبوں میں تیزی آسکتی ہے اور روٹی سمیت انرجی کے بحران کو بھی حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ امن و امان کی صورتحال کا عالمی میڈیا اور اداروں میں پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے حالانکہ اس میں کچھ حقیقت بھی ہوتی ہے مگر پچھلے دنوں بھارت کے نیشنل ڈیٹا سنٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ بھارت بم دھماکوں کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں افغانستان ،عراق اور شام سے بھی آگے نکل گیا ہے۔2013ء میں بھارت میں212 سے زائد بم دھماکے ہوئے جو افغانستان کے مقابلہ میں دو گنا ہیں جہاں بارہ سال سے امریکی خواہشات اور ضروریات کے پس منظر میں طویل جنگ جاری ہے۔ افغانستان میں اس عرصہ میں ہونے والے بم دھماکوں کی تعداد108 ، بنگلہ دیش میں75اور شام میں36 دھماکے ہوئے۔ پاکستان میں بھی اس عرصہ میں کوئی کم دھماکے نہیں ہوئے مگر فی الحال پڑوسی ملک بھارت ہی کا ذکر کافی ہے اس لئے کہ ہمارے ہاں دھماکوں کے اعداد و شمار تو شائع ہوتے رہتے ہیں ۔
حالیہ ہفتے کے دوران سابق وفاقی وزیر تجارت ہمایوں اختر خان کی سربراہی میں معیشت، فوج، تعلیم، انرجی، ٹیکس اور سوشل سیکٹر کے مختلف ماہرین پر مشتمل ایک نیا ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارم(IPR)قائم کیا گیا ہے جس میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا اہم ترین شخصیت ہیں۔ اس سے پہلے ڈاکٹر پاشا اور عالمی بنک کے سابق نائب صدر شاہد جاوید برکی نے ایک اور ادارہ بنا رکھا تھا جس میں گزشتہ سال کے اوائل میں اختلافات پیدا ہوئے اور پھر دونوں شخصیات کے راستے جدا جدا ہوگئے۔ اب سابق وزیر تجارت ہمایوں اختر خان کو’’فرنٹ سیٹ‘‘ پر بٹھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے صدر پرویز مشرف کے دور میں وہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے تھے۔ انہیں اس پوزیشن کے حصول کے میچ کے آخری اوور کے چوتھے بال پر اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے ’’گگلی‘‘ کے ذریعے آئوٹ کردیا تھا۔ اب شاید ان کے مقابلہ میں کوئی ایسا کھلاڑی نہیں ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ آئندہ جب بھی کبھی نگران وزیر اعظم کے لئے سوچا گیا تو ہمایوں خان کو یہ پوزیشن لینے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔ اس نئے تھنک ٹینک کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کو آزاد اور غیر جانبدار رکھا جائیگا اور اس کے لئے کوئی سرکاری یا غیر ملکی امداد حاصل نہیں کی جائے گی۔(حالانکہ اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا) اس تقریب کے مہمان خاص سید بابر علی تھے جنہوں نے اداروں کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے موجودہ حکومت کی پہلے چھ ماہ کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں مسلسل اقتصادی ترقی تو ممکن ہے جو کہ3 فیصد سے4 فیصد گروتھ تک متوقع ہے مگر اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر پریشان کن حد تک کم ہیں۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور اے ڈی پی کا بجٹ کم کیا جارہا ہے۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 4ہفتوں کی ضروریات کے لئے ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس صورتحال کے پس منظر میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والی اگلی قسط (55 ملین ڈالر) کا اجراء فنڈ کاایگزیکٹو بورڈ روک سکتا ہے۔ ہماری معیشت ایک کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔ ان کے یہ ریمارکس وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہیں۔ وہ اس سلسلہ میں پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لے کر حقائق سامنے لائیں، ورنہ وہ ڈالر کی قیمت کم کرنے میں جتنی محنت کررہے ہیں وہ رائیگاں جاسکتی ہے اور تجارتی حلقوں کے مطابق ڈالر دو تین ماہ کے بعد دوبارہ ا وپر جاسکتا ہے۔ جب وہ نئے مالی سال کے بجٹ کا اعلان کررہے ہوں گے ایسے حالات کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے ابھی سے سوچنا ہوگا اور انہیں مختلف حلقوں سے مشاورت کرنا ہوگی۔
تازہ ترین