ناز جعفری
ماں کی قدر و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں اس کا کوئی نعم البدل ہی پیدا نہیں کیا بلکہ اس ضمن میں اپنی مثال دے دی کہ ’’مَیں تمہیں ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔‘‘ علاوہ ازیں، شاید ہی کوئی ایسا عالم، فلسفی، دانش وَر، افسانہ نگار اور شاعر ہو کہ جس نے ماں کے پیار و محبّت، خدمات اور قربانیوں کے بارے میں کچھ نہ لکھا ہو۔ جیسا کہ ہر سال ماہِ مئی میں ’’ماؤں کا عالمی دن ‘‘منایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر ماؤں کے حوالے سے اخبارات خصوصی ایڈیشنز شایع کرتے ہیں، ٹی وی چینلز خصوصی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں، بڑے بڑے ہوٹلز میں خصوصی پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی ماؤں کی عظمت کے گُن گائے جاتے ہیں۔
نیز، اس روز وہ لوگ بھی دن بھر ماؤں کی تحسین میں مصروف رہتے ہیں کہ جنہیں سارا سال کبھی ماں کی خدمات کے اعتراف کی توفیق نہیں ہوتی، توزیرِ نظر مضمون بالخصوص اُن افراد کے لیے ہے کہ جو اپنی ماؤں کو صرف ’’مدرز ڈے‘‘ ہی پر یاد رکھتے ہیں اور اپنے بچّوں کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ ’’آج مدرز ڈے ہے۔ گُل دستہ لے کر دادی کے گھر چلتے ہیں اور کچھ وقت اُن کے ساتھ گزارتے ہیں۔‘‘ گویا یہ عاقبت نا اندیش افراد ’’مدرز ڈے‘‘ کو ایک رسم سمجھ کر نبھاتے ہیں اور پھر سارا سال انہیں ماں کی کوئی خیر خبر نہیں ہوتی۔
تاہم، اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب پاکستان کے ہر صوبے میں ’’اولڈ ہومز‘‘ قائم ہو چُکے ہیں اور ’’مدرزڈے‘‘ کے موقعے پر مختلف فلاحی تنظیموں کے نمائندے اپنی آرگنائزیشن کی شہرت کے لیے گُل دستے اور اشیائے خورونوش لے کر ان اولڈ ہومز میں پہنچ جاتے ہیں۔ (ہم تمام رفاہی تنظیموں کی بات نہیں کر رہے، کیوں کہ بہر حال کچھ فلاحی ادارے نہایت اِخلاص سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں) اسی طرح اس روز مختلف ٹی وی چینلز کے اینکر ز بھی اپنی دُکان چمکانے کے لیے اولڈ ہومز پہنچ جاتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے بعض ایسے اینکرز کی اپنی شکلیں اُن کی مائیں صرف ٹی وی ہی پر دیکھتی ہیں۔ مگر وہ اپنے خصوصی ٹاک شوز میں ماؤں سے ایسے دُعائیں لے رہے ہوتے ہیں، جیسے ان سے زیادہ کوئی تابع فرماں نہ ہو۔
بہر کیف، ہم بات کر رہے تھے، مُلک بَھر میں بڑھتے اولڈ ہومز کی۔ دراصل، ہم نے مغرب کی اندھی تقلید میں برائی کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے اور اس دلدل میں دن بہ دن دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ آج ہمیں اپنی مائیں بوجھ لگنے لگی ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے اولڈ ہاؤس میں مقیم پانچ بیٹوں کی ماں کو دوپٹے سے آنسو پونچھتے اور اپنے بیٹوں کو دُعائیں دیتے دیکھا ہے۔
وہ ماں روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ’’ کاش! میرا کوئی ایک بیٹا بھی مُجھے لینے کے لیے آ جائے، تو مَیں فوراً اس کے ساتھ چلی جاؤں۔‘‘ اسی طرح ایک اکلوتے بیٹے نے اپنی ماں کو یہ کہہ کر اولڈ ہوم میں داخل کروا رکھا ہے کہ’’ میری ماں اور بیوی کی آپس میں نہیں بنتی اور مَیں روزروز کے لڑائی جھگڑوں سے عاجز آچُکا ہوں۔‘‘ جب کہ کوئی بیٹا اپنے بہتر مستقبل کی خاطر بیرونِ مُلک روانہ ہوتے وقت اپنی ماں کو اولڈ ہوم میں چھوڑ گیا، لیکن اس کے باوجود یہ مائیں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اپنے بچّوں کو دعائیں دیتی ہیں اور ہر ایک کی یہی خواہش ہے کہ کاش! اُن کا کوئی بیٹا انہیں لینے آ جائے۔
یاد رہے کہ دینِ اسلام میں ماؤں کے لیے کوئی دن مقرّر نہیں بلکہ ہر دن ہی ’’مدرزڈے‘‘ ہے۔ تاہم، اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ماؤں کا عالمی دن نہ منایا جائے بلکہ اگر جانے، اَن جانے میں ہم سے ماں کی کوئی نافرمانی ہو گئی ہے، تو اس روز ہم یہ عہد کریں کہ آئندہ اپنی ماؤں کے تابع فرماں رہیں گے اور اُن کا ہر حُکم بجا لائیں گے۔ اسی طرح جن بیٹوں، بیٹیوں نے اپنی ماؤں کو اولڈ ہاؤسز منتقل کر دیا ہے، وہ اس روز وہاں جا کر اپنی ماؤں سے خلوصِ دل سے معافی مانگیں اور انہیں اپنے گھروں میں واپس لے آئیں۔ آپ چاہے ماؤں کا دن نہ منائیں، مگر ماؤں کو ضرور منائیں۔
اگر آپ کے کسی عمل سے آپ کے والدین کو تکلیف پہنچی ہے اور وہ آپ سے ناراض ہیں، تو اُن سے معافی مانگیں۔ یقین مانیں ، والدین خصوصاًماؤں کے دل بہت نرم ہوتے ہیں۔ اگر وہ اولاد کا ندامت زدہ چہرہ بھی دیکھ لیں، تو فوراً مان جاتی ہیں۔
ماؤں کی قدر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کل آپ کو پچھتانا پڑے اور آپ کی زندگی میں ماں کی بجائے لفظ ’’کاش!‘‘ رہ جائے، تو اس ’’کاش‘‘ کو آج ہی اپنی زندگی سے نکال پھینکیں اور جن کی مائیں اُن سے ناراض ہیں یا اولڈ ہومز میں مقیم ہیں، ہماری اُن سے التجا ہے کہ وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اُنہیں منانے پہنچ جائیں۔