اپنے آنچل سے ننّھے مُنّے گالوں پر گرنے والے آنسو پونچھنے والی…چھوٹے سے وجود کو اپنے دامن میں سمیٹنے والی… ڈگمگاتے قدموں کو چُومنے والی… ہاتھ پکڑ کر اور انگلیوں میں پینسل تھما کر پہلا لفظ لکھنا سکھانے والی… امتحان کے سخت دنوں میں تسلّی، دلاسے دے کر اسکول بھیجنے والی…اولاد کے روشن مستقبل کے لیے نمازیں طویل کرنے والی اور دُعاؤں کی چھتریوں سے اپنے بچّوں کی حفاظت کرنے والی ہستی ’’ماں‘‘ کہلاتی ہے۔
’’زندگی‘‘ کی ابتدا، ماں کے وجود سے ایک نئے وجود کی تخلیق ہی سے ہوتی ہے اور ماں ہی دُنیا میں ایک نئی مخلوق کی آمد کا ذریعہ بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں انسان کواُس کی ماں کا یہ احسان یاد دلایا ہے کہ وہ ایک عرصہ تمہیں اپنے کم زور وجود میں سمو کر وقت گزارتی ہے، طرح طرح کی تکالیف برداشت کرتی ہےاور جب ایک روتی ہوئی ننّھی جان اس کے پہلو میں لٹائی جاتی ہے، تو فخر سے دُنیا کو دیکھتی ہے اورتب مامتا کا احساس اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور پیشانی پر نور بن کر جگمگاتا ہے۔
پھر ،چاہے گرمی ہو یا سردی، دُکھ ہو یا بیماری، ماں کا مطمحِ نظر اولاد ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اُس کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ ماں اپنی اولاد کی خاطر بہت سی سختیاں اور کٹھنائیاں برداشت کرتی ہے۔ بچّوں کی تکلیف کے بارے میں سوچ کر ہی تڑپ اُٹھتی ہے۔ اُسے ہر آن بچّوں کے مستقبل کی فکر ستائے رکھتی ہے۔ اپنے بچّوں کی خوشی کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کرتی ہے۔ ماں اپنے بچّوں کی ضروریات اور فرمائشیں پوری کرنے کے لیے اپنی خواہشات کو بھی پسِ پُشت ڈال دیتی ہے اور باپ کی طرح وہ بھی بچّوں کی معیاری تعلیم اور اچھی خوراک کے لیے فکر مند رہتی ہے۔
بچّوں کے قد، مائوں کے کندھوں سے اونچے ہو جائیں، تو وہ انہیں دیکھ کر دل ہی دل میں فخر محسوس کرتی ہیں اور جب بچّے جوان اور برسرِ روزگار ہو جائیں، تو اُن کا گھر بسانے کے خواب دیکھنے لگتی ہیں اور ایک نئی تگ و دو میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ اب ہر وقت اُن کے دماغ پر بیٹے کے لیے چاند سی دُلہن لانے اور بیٹی کو باعزّت انداز سے رخصت کرنے کی دُھن سوار رہتی ہے۔ زندگی کی گہما گہمی اور بڑھ جاتی ہے۔ ماں اور باپ کے پیروں کے چکر ختم ہی نہیں ہوتے۔
فکریں اور پریشانیاں کم ہی نہیں ہوتیں۔ باپ کی جیب اور ماں کا سلیقہ مل کر ایک نئی زندگی کی بِنا ڈالتے ہیں۔ نئے رشتے بنتے ہیں۔ نئے گھروندے تعمیر ہوتے ہیں۔ پرندے اُڑنا سیکھتے ہیں اور کبھی اونچی اُڑان بَھر لیتے ہیں۔ ایسی اونچی اُڑان کہ پھر کبھی واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ تب بڑھاپے کی تھکن کی ابتدا ہوتی ہے۔ آنگن کا سُونا پن رات کو سونے نہیں دیتا۔ دروازے پر کسی کی دستک، کسی کے پلٹتے قدموں کی چاپ کا گمان ہوتا ہے اور آنکھیں ہر وقت کسی کی منتظر رہتی ہیں۔
کبھی پلٹنے والے آکر ماؤں کے کندھوں پر اپنا سَر رکھ دیتے ہیں اور کبھی پردیس کی جادو نگری انہیں پتّھر کا بنا دیتی ہے کہ کوئی آواز، کوئی پکار اور کوئی آنسو اُن کے دِلوں کو نرم نہیں کرتا اور پھر اسپتال میں آخری سانسیں منتظر نگاہوں کے بند ہونے کا عندیہ دیتی ہیں، لیکن سَرد خانے میں رکھی میتیں دیدار کرنے والوں کو ترستی رہتی ہیں۔ آخری سفر پر جانے کے لیے کندھے تو مل ہی جاتے ہیں، اپنوں کے نہ سہی، غیروں ہی کے سہی۔ لیکن یہ کہانیاں بہت دردناک ہوتی ہیں۔
ان کہانیوں کو بدلنا چاہیے اور ان کا خوش گوار انجام ہونا چاہیے۔ گھروں میں گونجتے قہقہوں میں ماں اور باپ کی بوڑھی ہنسی بھی شامل ہونی چاہیے۔ کم زور بصارت کی حامل آنکھوں کو عینک کے ساتھ ساتھ کسی راستہ بتانے والے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی انہیں بتائے کہ ’’یہ رہی آپ کی چپّل۔ یہ ہے آج کا اخبار۔‘‘ کوئی کھانے پر بلاتے ہوئے کہے کہ ’’آپ کی وجہ سے چاول نرم بنائے ہیں، گوشت بالکل گلا ہوا ہے اور شوربا پتلا ہے۔ آپ آہستہ آہستہ، آرام سے کھائیں۔ پانی کا گلاس پاس ہی رکھا ہے۔
کپڑے میلے ہوگئے، انہیں بدل لیں۔ سنبھل کر چلیں، جلدی نہ کریں۔‘‘ کسی تقریب کا دعوت نامہ آئے، تو ماں اور باپ کا نام بھی لکھا ہو۔ گاڑی میں ماں باپ کی سیٹ ہو۔ والدین کو گرمی و سردی کے کپڑے محبّت و چاہت سے دلائے جائیں۔ اسی طرح بیماری کی صُورت میں ڈاکٹر سے ضرور اُن کا معائنہ کروائیں۔ ضرورت پڑنے پر انہیں کوئی سپلیمنٹ یا اضافی خوراک دیں۔ یعنی جس قدر ممکن ہو، اولاد اپنا کام فرض سمجھ کر انجام دے۔
وہ والدین، جو اپنی جوانی اور اپنا قیمتی و سنہرا دَور آپ کی زندگیاں سنوارنے پر صَرف کر دیتے ہیں اور تپتی دُھوپ میں بلا تکان چلتے ہیں، اُن کا حق بنتا ہے کہ آپ اُن کی ضعیف العمری اور اُن کی ناطاقتی کے زمانے میں اُن کی طاقت اور سہارا بنیں۔ اللہ ربّ العزّت قرآنِ پاک میں متعدّد مقامات پر والدین خاص طور پر ماں کا احسان یاد دلاتا ہے کہ تمہاری مائوں نے تمہیں ضعف پہ ضعف اُٹھا کر پالا۔ تم ان کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ اور ان کے سامنے اُف تک نہ کہو؟
بوڑھی ماں کی سمجھ میں نہ آنے والی بات پر چہرے پہ ناگواری کے آثار اور آنکھوں میں بے رغبتی و بے اعتنائی اور پیشانی پر پڑنے والے بل ’’اُف‘‘ نہیں تو اور کیا ہے، جب کہ ہمارے ربّ نے ہمیں ان تمام باتوں سے منع کیا ہے۔ وہ ماں، جو بچپن میں اپنے شہزادے، شہزادیوں کو نہلا دُھلا کر اُن کا منہ چُومتی ہے اور ماتھے پر نظر نہ لگنے کا ٹیکا لگاتی ہے، جوانی کی گہری و میٹھی نیند قربان کرتی ہے، اس کے سامنے تیوری نہ چڑھاؤ اور اونچی آواز میں بات نہ کرو۔ بیٹی ہو یا بیٹا، ماں سب کے لیے ماں ہی ہے۔
ہمیں اپنے مال، جان، وقت اور اچھے رویّے سے اپنے اُن بوڑھے والدین کا خیال رکھنا چاہیے، جن کے چہروں پر محبّت بھری نظر ڈالنے کو بھی اللہ ربّ العزّت نے’’ حجِ اکبر‘‘ قرار دیا ہے۔اور یہ حج سال میں ایک مرتبہ محض ایک دن مناکر ادا نہیں کرنا، ہر روز کرنا ہے، ہر وقت کرنا ہے کہ ایک دن نہیں، سارے دن مائوں کے دن ہیں اور بلاشُبہ ماں باپ سے حُسنِ سلوک ہی ہماری دنیوی بھلائی کا ضامن اور اُخروی فلاح کی کُنجی ہے۔