ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام موثر نہ ہونے کے سبب پرائیویٹ گاڑیوں کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافہ روزانہ کی بنیاد پر تیزی سے بڑھ رہا ہے، ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے یہاں ٹریکٹروں، مال برداری کے ساتھ ساتھ تعمیراتی صنعت کے فروغ اور نقل و حمل کے لیے ٹرکوں، منی ٹرکوں، بسوں اور لائٹ کمرشل وہیکلز کی طلب بڑھ رہی ہے، اس طلب کو پورا کرنے کیلئے پاکستان میں کار سازی کی مقامی صنعت کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر اب گاڑیوں کی مقامی پیداوار سے وابستہ قریباً 13 بڑی کمپنیاں پریشان ہیں کہ موجودہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے انتہائی نرم پالیسیاں لا رہی ہے، اگر یہ پالیسیاں آ گئیں تو مقامی صنعت زوال کا شکار ہو جائے گی۔
گاڑیوں کی مقامی صنعت سے لگ بھگ 50 لاکھ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے یہ افراد پرزوں کی تیاری، ڈسٹری بیوشن اور خرید و فروخت کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں۔ یوں مقامی صنعت ملکی معیشت میں اربوں روپے کا حصہ ڈال رہی ہے۔ مقامی صنعت سالانہ 5 لاکھ گاڑیاں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم رواں مالی سال میں یہ صلاحیت کم ہو کر ایک لاکھ گاڑیوں تک رہ گئی، شاید اس کی بڑی وجہ ملکی حالات ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کےبرابر ہے، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے زراعت اور صنعت سے وابستہ افراد پریشان ہیں۔ پاکستان میں مقامی سطح پر 13 بڑی کمپنیاں گاڑیاں تیار کرتی ہیں، اس تیاری کے باوجود نہ جانے کیوں حکومت گاڑیوں کی درآمد کے اجازت نامے دیتی ہے، اسی لئے مقامی صنعت کو نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان مقامی گاڑیوں کی کار سازی کرنیوالے 49ممالک میں سے 34 ویں نمبر پر ہے، پاکستان ان 16 ممالک میں شامل ہے جو کاروں، لائٹ کمرشل وہیکلز، ٹرکوں، بسوں اور ٹریکٹروں کے مکمل یونٹ تیار کرتا ہے۔ کار سازی کی مقامی صنعت چیلنجز کے باوجود بین الاقوامی معیار کے مطابق مصنوعات اور پرزے تیار کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں صنعت پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کا بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے جس کے باعث گاڑیوں کی قیمتیں زیادہ ہو گئی ہیں۔ صارفین کی بڑی تعداد یہ نہیں جانتی کہ گاڑی کی قیمت میں آدھے سے زائد پیسے تو ٹیکسوں کے ہوتے ہیں یعنی گاڑی پر اس کی اصل قیمت کے برابر ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔
ہماری مقامی صنعت کو استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے زیادہ نقصان ہوا ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں زیادہ تر رقوم غیر قانونی ذرائع سے منتقل کی جاتی ہیں جس سے ملکی معیشت کو یقینی طور پر نقصان پہنچتا ہے۔ رواں مالی سال 24-2023 کے پہلے 8 ماہ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے مقامی صنعت کو 45 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ابتدائی طور پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی سہولت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے میسر تھی تاہم بعد ازاں کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کا دروازہ کھول دیا گیا جونہی یہ دروازہ کھلا تو گاڑیاں درآمد کرنے والوں کی چاندی ہو گئی اور مقامی صنعت بھنور میں پھنس گئی،اگر ہم اپنے ملک میں گاڑیوں کی مقامی صنعت کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے متعلق سخت پالیسیاں اپنانا ہوں گی۔ اس سلسلے میں اوورسیز پاکستانیوں کو اجازت دے دیں کہ وہ ایک دو گاڑیاں لے آئیں مگر اسے کاروبار نہ بنائیں ماہرین کا خیال ہے کہ مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں ایسی پالیسیاں متعارف کروائی جائیں جن سے گاڑیوں کی مقامی صنعت کو فروغ ملے، درآمدی گاڑیوں بالخصوص پرانی گاڑیوں کو درآمد کرنے کی حوصلہ شکنی ہو تا کہ صارفین کو پائیدار اور ماحول دوست گاڑیاں کم قیمت پر میسر آ سکیں۔
خزانہ، تجارت اور منصوبہ بندی کی وزارتوں کے علاوہ ایس آئی ایف سی کو اعداد و شمار کا جائزہ لے کر بجٹ میں مقامی گاڑیوں کی صنعت کے لئے دی گئی تجاویز کا جائزہ لینا چاہئے۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکسوں کی چھوٹ اور آسان ڈیوٹی پالیسی ختم ہونی چاہیے ، رقوم کی منتقلی بھی حوالہ ہنڈی کی بجائےبینکوں کے ذریعے ہونی چاہیے تاکہ ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہو سکے۔ جو ملک خود گاڑیاں تیار کر رہا ہو اسے تو ویسے ہی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ آٹو انڈسٹری کے ماہرین کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر کسی بھی گاڑی کے منصوبے کے یونٹ کی تیاری کے لئے چار برس لگ جاتے ہیں جس پر بڑی لاگت آتی ہے تاہم حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے کر مقامی صنعت کی تمام تر محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ مقامی صنعت کو فروغ دینے اور صارفین کو کم قیمت پر گاڑیوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو گاڑیوں کی مقامی صنعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ صنعت مکمل طور پر بند ہو جائے، حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست اقدامات کرنا ہوں گے۔ بقول سرور ارمان
زندگی خشک ہے ویران ہے افسردہ ہے
ایک مزدور کے بکھرے ہوئے بالوں کی طرح