پاکستان میں غریب خواتین کی اکثریت کو اپنی زندگی بہتر ہونے کی امید کم ہی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر وہ کسی ایسی بیماری کا شکار ہو جائیں کہ جو معاشرے میں ایک لعنت سمجھی جاتی ہے، تو ان کی زندگیاں مزید بوجھل ہو جاتی ہیں۔ ان امراض میں فسٹولا بھی شامل ہے۔
یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو عموماً قلیل آمدنی کے حامل گھرانوں کی خواتین کو لاحق ہوتی ہے اور اگر اس کا علاج نہ کروایا جائے، تو مریض کی جان کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ تاہم، ’’کوہی گوٹھ خواتین اسپتال‘‘ علاج معالجے کی مفت سہولت فراہم کرکے ان خواتین کو نئی زندگیاں فراہم کر رہا ہے۔
کراچی کے علاقے، ملیر میں واقع کوہی گوٹھ میں خواتین کے اسپتال کا قیام ابوظفر اور عطیہ ظفر کے خاندان کا دیرینہ خواب تھا، جو اب تعبیرحاصل کرنے کے قریب ہے۔ مذکورہ خاندان سے تعلق رکھنے والے کم و بیش درجن بھر افراد نہ صرف معالج ہیں بلکہ مختلف طبّی شعبوں میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔
اس خاندان کی کہانی نہایت دِل چسپ ہے۔ ابوظفر ایک معلّم تھے اور انہوں نے اپنی اہلیہ، عطیہ ظفر اور بچّوں کو ڈاکٹر بنانے کے لیے اُن کی ہر ممکن مدد کی۔ عطیہ ظفر اور ان کے صاحب زادے، ٹیپو سلطان تقریباً ایک ہی وقت میں میڈیکل کالج کے طالب علم رہے اور ڈاکٹر بنے۔ عطیہ ظفر نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ بچّوں کی پرورش میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
خواتین کے لیے اسپتال قائم کرنے کے منصوبے میں اس خاندان کا خالصتاً عوامی خدمت کا جذبہ کارفرما تھا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر شیر شاہ سیّد، ڈاکٹر شاہین ظفر اور ڈاکٹر سراج الدّولہ جیسے نام وَر معالجین بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جو اس خانوادے کے گہرے جذبۂ انسانیت کی غمازی کرتے ہیں۔
ڈاکٹرز کے اس خاندان نے 2006ء میں ’’کوہی گوٹھ خواتین اسپتال‘‘ کا آغاز کیا، جو اب دو سو بستروں پر مشتمل جدید ترین طبّی سہولتوں سے آراستہ اسپتال اور نرسنگ کالج سمیت دیگر شعبہ جات پر مشتمل ہے۔ راقم نے گزشتہ دنوں کراچی میں اپنے قیام کے دوران مذکورہ اسپتال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر شعیب سبحانی اور عبدالسّلام سلامی نے ہماری رہ نمائی کی، کیوں کہ ڈاکٹر شیر شاہ بیرونِ مُلک تھے۔
’’کوہی گوٹھ خواتین اسپتال‘‘ کی جانب سفر کرتے ہوئے سب سے پہلے جو چیز متوجّہ کرتی ہے، وہ اس گوٹھ کا تنوّع ہے۔ یہاں قلیل آمدنی والے گھرانے مقیم ہیں، جو بلوچی، کشمیری، پختون، پنجابی، سندھی اور سرائیکی سمیت دیگر لسانی و نسلی اکائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بڑی رواداری سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
دوسری اہم خاصیت یہ ہے کہ یہاں خواتین کی بڑی تعداد نظر آتی ہے، جو اسپتال کی طبّی سہولتوں سے مستفید ہونے کے لیے یہاں جمع ہوتی ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے شہر کا ایک منفرد اسپتال ہے، جہاں خواتین اور بچّوں کو مذہب، رنگ اور نسل کے امتیاز کے بغیر علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں اور اسپتال میں کوئی کیش کائونٹر بھی موجود نہیں ہے۔
اپنے قیام سے لے کر اب تک مذکورہ اسپتال میں 30ہزار سے زاید مریضوں کا علاج اور 10ہزار سے زیادہ آپریشنز کیےجا چُکے ہیں۔ نیز، 15ہزار سے زاید حاملہ خواتین بچّوں کی پیدائش سے قبل اور بعد میں علاج معالجے کی سہولتوں سے مستفید ہو چُکی ہیں۔
دوسری جانب اگر اس اسپتال کو فسٹولا اور اس سے متعلق دیگر طبّی مسائل سے نجات کے لیے سرجری کی سہولت فراہم کرنے والا پاکستان میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اسپتال قرار دیا جائے، تو بے جا نہ ہو گا، جہاں تمام ادویہ بھی بالکل مُفت فراہم کی جاتی ہیں۔
اسپتال کے نرسنگ کالج کے روحِ رواں ڈاکٹر شیر شاہ ہیں، جنہوں نے ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو قبالت کی تربیت فراہم کی ہے۔ دوسری جانب ابو ظفر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کم آمدنی والے گھرانوں کی بچّیوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم و تربیت مفت فراہم کر رہا ہے۔ اس ادارے کے متعدد کورسز پاکستان نرسنگ کاؤنسل سے منظور شدہ ہیں، جہاں طالبات کو وظیفے بھی فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ ہاسٹل میں قیام کے دوران کسی مالی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔
خواتین مریضوں، اُن کے بچّوں اور طلبہ کے لیے یہاں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں شتر مرغ، ہرن، نیل گائے، بطخیں اور مور رکھے گئے ہیں، جب کہ تیراکی کے لیے تالاب اور ایک عدد ٹینس کورٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔ اسپتال میں ایک ایک کُتب خانہ بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں طِب کے علاوہ ادب پر خاصی کُتب موجود ہیں۔
غالباً اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شیر شاہ خود ایک اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار ہیں، جن کے کئی افسانوی مجموعے شایع ہو چُکے ہیں۔دوسری جانب پاکستان جیسے قدامت پسند مُلک میں ڈاکٹر شیر شاہ جیسے مَرد گائناکولوجسٹ کا خواتین کا مکمل اعتماد حاصل کرنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں، جہاں ایک عورت بھی دوسری خواتین کو خود کو لاحق طبّی مسائل کے بارے میں بتاتے ہوئے گھبراتی ہے، ڈاکٹر شیر شاہ نے اپنی مہارت سے خود کو منوایا اور فسٹولا کی شکار خواتین کا علاج کیا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر فسٹولا کیا ہے؟ طبّی لحاظ سے اگر جسم کے دو حصّے باہم پیوست ہو جائیں یا آپس میں جُڑ جائیں اور اس کے نتیجے میں بیماری کی کیفیت پیدا ہو جائے، تو اسے ’’فسٹولا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا سبب کوئی چوٹ، سرجری یا زخم بھی ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات انفیکشن ہونے سے فسٹولا مزید بگڑ جاتا ہے۔ خواتین میں مقعد کے مقام پر غدود کے انفیکشن سے بھی فسٹولا ہوتا ہے، جس سے پِیپ رِستی رہتی ہے اور اس کا علاج سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال ہزاروں خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں مگر شرم کے باعث کُھل کر اس کا اظہار نہیں کر پاتیں۔ حتیٰ کہ ان کے شوہر بھی انہیں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں اور انہیں ناپاک سمجھتے ہوئے ان سے دُور رہتے ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ نے ایسی ہی خواتین کے علاج معالجے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ وہ اس بات پر بھی مُصر ہیں کہ مُلک میں میڈیکل کالجز سے زیادہ نرسنگ انسٹی ٹیوٹس کی ضرورت ہے۔
ہمارے مُلک میں ہر نئی حکومت میڈیکل یونی ورسٹیز کے چارٹرز جاری کرنے میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہے اور ہر سال فارغ التّحصیل ہونے والے ڈاکٹرز کی بڑی تعداد بیرونِ مُلک چلی جاتی ہے، جب کہ دوسری جانب مُلک میں پیرا میڈیکل اسٹاف کی شدید کمی ہے۔ ہمارے سرکاری و نجی اسپتالوں میں تربیت یافتہ نرسز کی اشد ضرورت رہتی ہے اور نہ ہی بیرونِ مُلک پاکستانی نرسز اتنی بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں جتنی کہ بھارت، سری لنکا اور فلپائن وغیرہ سے تعلق رکھنے والی۔
حکومتِ پاکستان کو اس معاملے پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس وقت ہماری نئی نسل کو اسناد سے زیادہ مہارتوں کی ضرورت ہے۔ ہر ضلع میں کم از کم ایک نرسنگ کالج ضرور ہونا چاہیے، جہاں نوجوان خواتین تربیت حاصل کر کے باعزّت روزگار حاصل کر سکیں۔ کوہی گوٹھ اسپتال اور نرسنگ کالج خدمتِ انسانیت کی ایک شان دار مثال ہے۔ تاہم، یہ ہمیشہ وسائل کی تلاش میں رہتا ہے۔ لہٰذا حکومت اور مخیّر افراد کو اس کی مالی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔