• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچتا ہوں، سوچنے میں جاتا بھی کیا ہے کہ اگر پاکستان اصول پرست ہوتا تو کیا ہوتا۔فرض کیجئے بڑے ضابطے ہوتے، قاعدے قانون پر کڑا عمل ہو رہا ہوتا، اصول سختی سے برتے جا رہے ہوتے، بے حد نظم و ضبط ہوتا، ترجیحات درست ہوتیں، بات کا پاس ہوتا، لحاظ ہوتا، رواداری ہوتی، مروّت ہوتی اور زیادہ نہیں، تھوڑی ہی سی حیا ہوتی تو آج کا ہمارا یہ جان سے پیارا وطن کیسا ہوتا؟میں سوچتا ہوں، آپ بھی اس سوچ میں میرے حصّے دار بن جائیے۔ سوچئے کہ آنکھ ایک عجب منظر دیکھ رہی ہے۔ہماری سپاہ کو ذبح کرکے ان کی لاشیں اِدھر اُدھر پھینک دی گئیں پھر کیا ہوا قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور فوج سے کہا جارہا ہے وہ ہمارے ہی لوگ ہیں ان سے مذاکرات کرو۔اسی طرح مملکت کے صدر مقام اسلام آباد کے کسی گلی کوچے میں نہیں، دارالانصاف میں دہشت گرد آئے اور من مانی کرکے ، لاشیں گرا کر جہاں سمجھا وہاں سدھارے، کسی ایک کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ ہاتھ جوڑ کر قوم سے معانی مانگتا، استعفیٰ دیتا اور خودبھی سدھارنے کے لئے کوئی مناسب مقام ڈھونڈ لیتا۔بہت زیادہ نہیں، صرف چُلّو بھر پانی درکار تھا، اتنا تو تھرپارکر میں بھی مل جاتا۔
ہمارے چہیتے صوبے سندھ میں قحط پڑا، پڑتا رہا، زور پکڑتا رہے، یہاں تک کہ بے بس ماؤں کے رونے کی صدائیں بلند ہونے لگیں پھر گھروں سے چھوٹے چھوٹے جنازے نکلنے لگے۔ دو سو بچّے مر گئے۔ اعلان ہوا کہ نہیں، صرف ایک سو مرے ہیں۔ جیسے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ ایک شاندار بنگلے کے سجے دھجے ڈرائنگ روم میں اعلان ہوا کہ ہاں ہم سے بھول ہوئی۔ کیا یہ اعلان کافی ہے؟ ہمارے سروں پر واقع ملک چین میں کسی نے بچّوں کے دودھ میں کوئی مہلک مادّہ ملا دیا تھا۔ مجرم کے وجود میں بندوق کی گولی ملا دی گئی۔ ہمارے شہر لاہور میں ایک گھرانے میں دو بچّوں کو کئی روز سے روٹی نصیب نہیں تھی، وہ گلے پھاڑ کر روئے تو ماں سے سنا نہ گیا اور اس نے ان کے گلے دبا دئیے۔ ایک عظیم خلیفہ کی مثال دی جاتی ہے جس نے کہا تھا کہ میری حکمرانی میں فرات کے ساحل پر کوئی کتّا بھی بھوکا مرجائے تو ذمہ دار میں ہوں گا۔ اب پورا زور صرف کیا جارہا ہے کہ سارا کا سارا الزام دکھیا ماں کے سر منڈھ دیا جائے۔ اسلام آباد میں دن دہاڑے ایک جج پر کوئی گولیاں برسا گیا۔ اب کہیں سے جج کے ایک محافظ کی بیٹھے بٹھائے شامت آگئی ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غلطی سے اُس کی گولی چل گئی تھی۔ مطلب یہ کہ کوئی عذاب آئے یا قیامت ٹوٹے، اونچے میناروں پر بیٹھے ہوئے لوگ کچھ اس طرح ادھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں جیسے انہیں خبر ہی نہ ہو۔
تھرپارکر کے دور دراز ریگستانوں میں زندگی کے کٹھن دن گزارنے والوں پر جو بپتا پڑی، اس کے بارے میں کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ یہ کوئی بم کا گولا تو تھا نہیں جو گرا، پھٹا اور لوگ دفعتاً مر گئے۔ قحط سے مرنے میں پھول جیسے بچّوں نے کچھ روز تو لگائے ہوں گے، کیا اس دوران کسی کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی نہیں بجی، کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔ میڈیا والے مجھے معاف کریں، وہاں موروں کے مرنے کی خبریں دیتے رہے، ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے دم توڑتے بچّے ان کو نظر نہیں آئے۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سرکاری گوداموں میں اناج کی بوریوں کے انبار لگے تھے۔ حکام نے کہا کہ غلّہ گوداموں میں ڈھیر کرنا ان کا کام تھا، تقیسم کرنا ان کا کام نہیں۔ ایسی باتیں سن کر یہ خیال ہوتا ہے کہ ایسے حکام کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کے معاشرے میں سخت اصول پرستی رائج نہیں ورنہ خدا جانے کون کون جان سے جاتا اورکتنے ہی کمسن بچّے آج بھی ماؤں کی گودوں میں مسکرا رہے ہوتے۔ میڈیا نے جھنجھوڑا تو پبلسٹی کے بھوکے لوگ اچانک جاگ گئے اور امدادی سامان کے ٹرک بھر بھر کے تھرپارکر کے ایک بڑے قصبے کو بھیجنے شروع کردیئے جہاں یہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ وہاں قحط ہی نہیں ہے۔ ہاں ، وہاں کیمرے والے، اخبار اور ٹیلی وژن والے بہت ہیں۔ فرقۂ تصویریہ سے تعلق رکھنے والے یہ سارے کے سارے اپنی تصویریں اتروا کر دنیا کو دکھاتے رہے ۔ دور دراز تو دور کی بات ہے، قریب کے گاؤں اور جھونپڑیوں میں اناج کا ایک دانہ اور پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پہنچا ۔ میں نے فوج کے دفاعی نقشے دیکھے ہیں جن میں چپے چپے کا اندراج ہوتا ہے۔کیا یہ کم سمجھ لوگ دور دراز کے دیہات کی نشاندہی کرکے وہاں نہیں جا سکتے تھے۔ نہیں تو پھر یہ وہاں جائیں جہاں کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ انسان کچھ بھی ہو، فریبی یا کم عقل نہ ہو۔ یہ سب سوچتے ہوئے دل بُری طرح دکھتا ہے۔ ہمارا اپنا نہ ہوتا تو وطن کے خیال سے کوئی کرب بھی نہ ہوتا۔ ہم نے نہ صرف اپنا ملک بلکہ اس کے ساتھ کتنے ہی ملکوں کو بنتے اور آزاد ہوتے دیکھا ہے اور اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ سارے کے سارے آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور بقولِ شاعر ’ اور ایک ہم ہیں کہ تکتے ہیں منہ زمانے کا‘۔کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ اخبار وخبار نہ ہوتے۔ کہیں خبریں نہ چھپا کرتیں۔ ہم اپنے گھر میں اپنی خیر منا رہے ہوتے اور باہر کی دنیا سے کوئی غرض نہ رکھتے۔ ہر ایک بس اپنی فکر میں کھویا رہتا، اسی میں مسرتیں تلاش کر لیا کرتا، اسی میں اپنے دکھوں کا عادی بن کر جی لیا کرتا۔ ایسے ہی حالات رہے ہوں گے جب مرزا اسداﷲ خاں غالب نے وہ غزل کہی ہو گی جس میں کسی ایسی جگہ جا کر رہنے کی بات تھی کہ جہاں کوئی نہ ہو۔
دل کو دکھانے والی باتیں کرکے کسے خوشی ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ اس راہ پر چل رہا ہوتا جس پر چلنے والوں پر فضل ہوا، تو رونا کس بات کا تھا مگر معاشرے نے ان بھٹکے ہوؤں کی راہ اختیار کرلی جنہوں نے اصول پرستی سے منہ موڑ لیا،قاعدے اور قانون سے کنارہ کر لیا، ضابطوں سے واسطہ ہی نہ رکھا، لحاظ، مروّت، شرم و حیا، ندامت ، معذرت اور اقرار و اعتراف سے دامن چھڑا لیا۔ بس ایک ہی کام ہے جس میں کمال حاصل کرلیا اور وہ کہ دن میں جرم سرزد ہو جائے تو رات ہونے سے پہلے پہلے کہیں نہ کہیں سے، کسی کونے کھدرے ہی سے سہی، کسی کو پکڑ کر لے آتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ یہ رہا مجرم۔ اگلے ہی لمحے کالے کوٹ والے اس کی ضمانت کرانے یا سماعت کی تاریخ آگے بڑھوانے کے لئے میدانِ عمل میں آجاتے ہیں اور ہم اسے بھول بھال کرکسی اور جرم اور مجرم کے قصّے میں محو ہو جاتے ہیں اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک یہ بحث چل نکلتی ہے کہ اس پر کون سی دفعہ لاگو ہونی چاہئے، کیسی عدالت بننی چاہئے، کیسا مقدمہ چلنا چاہئے۔ہم حیرت کا مجسمہ بنے یہ سب دیکھتے ہیں اور دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ چاہتے ہیں کہ صبر کرلیں مگر کیا کریں کہ وہ ہوتا نہیں۔
تازہ ترین