• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یادش بخیر۔اسّی کی دہائی میں ایک گانا بے حد مقبول ہوا تھا‘گانے کے بول تھے ’’شاید میری شادی کا خیال دل میں آیا ہے ،اسی لئے ممی نے میری تمہیں چائے پہ بلایا ہے!‘‘ بائیس سالہ بھارتی اداکارہ ٹینا منیم نے یہ گانا نوّے کلو کے راجیش کھنہ کے ساتھ لہک لہک کر گایا‘راجیش کھنہ نے اس گانے میں نارنجی ٹی شرٹ ،سفید جیکٹ، سفید پینٹ، سفید جوتے جبکہ کلائی میں میچنگ نارنجی رومال باندھ رکھا ہے۔اس گانے کی یاد اس لئے آئی کہ گذشتہ اتوار کے میرے کالم کے رد عمل میں کچھ لوگوں نے اس بات کا برا منایا کہ میں نے خواہ مخواہ پاکستانی فلموں کا تمسخر اڑایا ہے جبکہ اس زمانے کی بھارتی فلمیں بھی اتنی ہی مضحکہ خیز ہوا کرتیں تھی لہٰذا حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ بھارتی فلموں کا ’’توا‘‘ لگایا جائے۔چلئے ٹھیک ہے اگر اس طرح ہماری انا کی تسکین ہو تی ہے تو کچھ برا نہیں ۔
اس زمانے کی بھارتی فلموں کی چند مخصوص سیچوایشنز ہوا کرتی تھیں،پہلی سیچوایشن دو بھائیوں والی ہے جو بچپن میں ’’کُم‘‘ کے میلے میں بچھڑجاتے ہیں ،ان میں سے ایک پڑھ لکھ کر پولیس انسپکٹر بن جاتا ہے جبکہ دوسرا جو نسبتاً کھلنڈری طبیعت کا مالک ہوتا ہے جرائم کی راہ پر چل نکلتا ہے۔پولیس والے بھائی کی تعیناتی ہمیشہ اسی علاقے میں ہوتی ہے جہاں اس کا بھائی گینگسٹر کے طور پر مشہور ہوتا ہے ۔آخر ی سین میں جب پولیس اور غنڈوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے تو اس دوران دونوں بھائی آمنے سامنے آ جاتے ہیں،پولیس والے بھائی کی گولی اپنے بدمعاش بھائی کو لگ جاتی ہے (واضح رہے کہ کسی دوسرے پولیس والے کی گولی اسے نہیں لگنی چاہئے) اور اسی بھاگم دوڑ میں کسی طرح اس کے گلے میں لٹکتے ہوئے لاکٹ سے جڑواں بھائیوں کی تصویر کھل جاتی ہے جو ’’کُم‘‘ کے میلے سے پہلے دونوں بھائیوں نے اتروائی تھی، انسپکٹر بھائی تصویر دیکھتے ہی حواس باختہ ہو جاتا ہے اور ’’بھیا‘‘ کا نعرہ لگا کر بھائی کو گلے لگا لیتا ہے جوبالآخر اس کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتا ہے ۔
دوسری سیچوایشن ’’ڈاک بنگلہ‘‘ کی ہے، ہیرو کسی ضروری کام سے اپنی گاڑی میں شہر سے دور ایک قصبے کی طرف رواں دواں ہے کہ اچانک طوفانی بارش شروع ہو جاتی ہے او رہیرو کی گاڑی چند عجیب و غریب آوازیں نکال کر بند ہو جاتی ہے ،رات کا وقت ہے،اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرے ،اس دوران یکدم کہیں سے ایک شخص نمودار ہوتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ ’’یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک ڈاک بنگلہ ہے ،وہاں آپ کو رات گذارنے کے لئے کمرہ مل جائے گا۔‘‘ہیرو کی جان میں جان آتی ہے، طوفان بادوباراں میں ہیرو بمشکل اس ڈاک بنگلے تک پہنچتا ہے تو اس کا چوکیدار ہاتھ میں لالٹین پکڑ کر ہیرو کے چہرے کے قریب کرکے بغور دیکھتا ہے اور پھر خواہ مخواہ مطمئن ہو کر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کمرہ الاٹ کردیتا ہے۔کمرے میں داخل ہوتے ہی ہیرو سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے فوراً آتشدان کے پاس بیٹھ کر ہاتھ سینکتا ہے، اسی دوران چوکیدار کی جوان بیٹی چائے کی پیالی لئے کمرے میں داخل ہوتی ہے،اس کے لباس سے صاف ظاہر ہے کہ شدید ٹھنڈ کے موسم میں اسے سخت گرمی لگ رہی ہے ،پوچھنے پر وہ ہیرو کو بتاتی ہے کہ ’’بابا کی طبیعت خراب تھی ،وہ سو گئے ہیں، اسی لئے میں چائے لے کر آئی ہوں ،آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت تو نہیں بابو جی؟‘‘ جواب دینے کی بجائے بابو جی مبہوت ہو کر اسے دیکھتے ہیں ،وہ شرما کر آنکھیں نیچی کر لیتی ہے،پس منظر میں بجلی کڑکنے کی آواز آتی ہے،کیمرہ آتشدان پر فوکس ہوتا اور پھردھیرے دھیرے آتشدان کے شعلے مدہم پڑجاتے ہیں۔صبح ہوتے ہی پہلا ڈائیلاگ جو ہیروئین بولتی ہے وہ کچھ یوں ہوتا ہے ’’ہائے بھگوان ،ہم سے بہوت بڑی بھول ہو گئی!‘‘
تیسری مشہور زمانہ سیچوایشن ’’یہ شادی نہیں ہو سکتی ‘‘ والی ہے ۔
ہیروئین بادل نخواستہ ایک مکروہ صورت شخص کے ساتھ شادی کے پھیرے لے رہی ہے،تین پھیرے ہو چکے ہیں، اچانک ہیرو نمودار ہوتا ہے اور پنڈت کو مخاطب کرکے کہتا ہے ’’ٹھہرو‘یہ شادی نہیں ہو سکتی ۔‘‘سب حیرت سے اسے دیکھتے ہیں ،ہیرو اطمینان سے جیب سے شادی کا سرٹیفکیٹ نکال کر لڑکی کے باپ کو دکھاتا ہے اور اسے تنبیہ کرتا ہے کہ ایک شادی شدہ عورت کی شادی کروانا جرم ہے لہٰذا فوراً شادی روک کر لڑکی اس کے حوالے کی جائے۔ لڑکی کا باپ ایسا ہی کرتا ہے ! ان سیچوایشنز کی وجہ سے میں اس زمانے کی فلموں کو ’’یہ شادی نہیں ہو سکتی‘‘ والی فلمیں کہتاہوں چاہے کہانی کچھ بھی ہو۔تاہم قطع نظر ان سیچو ایشنز سے،ذاتی طور پر مجھے ان فلموں کے ڈائیلاگ بہت پسند تھے جو تقریباً ہر فلم میں کسی نہ کسی موقع پر استعمال ہوتے ‘مثلا:
’’میں غریب ضرور ہوں مگر بے غیرت نہیں۔
میں …میں دیکھ سکتی ہوں …ماں …میں دیکھ سکتی ہوں …(اندھی لڑکی کا آپریشن کے بعد آنکھوں سے پٹی اترتے ہی ماں کو پہچاننا)۔
ڈیڈی ‘مجھے آپ کی کروڑوں کی دولت نہیں چاہئے (فلموں میں ہیرو یا ہیروئین روپے پیسے کی بالکل پرواہ نہیں کرتے،دولت کی لالچ صرف ولن کو ہوتی ہے)۔
میری ساری دولت لے لو ڈاکٹر مگر میری بیٹی کو ٹھیک کر دو۔
چُن چُن کے ماروں گا ایک ایک کو!
تم چاروں طرف سے گھر چکے ہو، اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دو۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اگر یہی سوال میں تم سے کروں ‘تو؟
گواہوں کے بیانات اور ثبوتوں کی روشنی میں یہ عدالت ملزم کو تعزیرات ہند زیر دفعہ تین سو دو سزائے موت کا حکم سناتی ہے ۔
سزا مجھے نہیں اس معاشرے کو دیجئے جج صاحب۔
میں نے آ پ کا نمک کھایا ہے سرکار۔
آخر ہم کب تک یوں چھپ چھپ کر ملتے رہیں گے !
اس کا ر کا پیچھا کرو۔
یہ لڑکی ٹھاکر خاندان کی بہو کبھی نہیں بن سکتی۔
مالک، میں نے آج تک آپ سے کچھ نہیں مانگا۔
تم یا تو بہت بہادر ہو …یا پھر بہت ہی بیوقوف۔
بٹیا رانی اب جوان ہو گئی ہے سرکار۔
نکل جائو میرے گھر سے اور آئندہ اپنی منحوس صورت مجھے کبھی مت دکھانا۔‘‘
یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر نہ جانے کیا بات ہے کہ آج بھی اگر اس زمانے کی کوئی فلم لگی ہو تو اسے دیکھنے کو دل کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلم دراصل آپ کو اس دور میں واپس لے جاتی ہے جو آپ کی جوانی کا دور تھا اور یہ وہی دور تھا جب یونیورسٹی میں آپ کو پہلی محبت ہوئی تھی …اور پہلی محبت سے محبت بھلا کیسے ختم ہو سکتی ہے!
تازہ ترین