• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

خطوط، برقی خطوط کامقابلہ

تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے روسی صدر پیوٹن کی جیت پر بہت ہی اچھا مضمون لکھا، جوواقعتاً پڑھنے سے تعلّق رکھتا تھا۔ سرورق کی سحروافطار دعوت کابھی جواب نہیں تھا، بہترین، شان دار فوٹوگرافی کی گئی۔ ’’متفرق‘‘ میں محّمد اقبال شاکر کا شیرشاہ سوری پرمضمون معلوماتی تھا۔

ہم اسکول کے زمانے سے شیرشاہ سوری سے متعلق پڑھتے چلے آرہے ہیں، البتہ اس مضمون سے یہ ضرور پتا چلا کہ ظہیرالدین بابر کا تابوت دہلی سے نکال کر کابل میں دفن کیاگیا تھا۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں عشرت فاطمہ شربتوں کی بہار ہی لےآئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عشرت زاہد کی ’’راشن‘‘ زبردست تھی اوراس مرتبہ تو آپ نے گویا ’’آپ کا صفحہ‘‘ اورگوشۂ برقی خطوط کا مقابلہ ہی کروا دیا۔ صرف پانچ عدد خطوط پڑھنے کو ملے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:حالاں کہ لگ بھگ ہر خط نصف سے زائد ایڈٹ کیا جاتا ہے۔ ہم ہربار دست بستہ التجا بھی کی کرتے ہیں کہ خط مختصر اورجامع لکھیں، مگراللہ نظرِبد سے بچائے، ایسی فارغ قوم ہے کہ 20، 20 صفحات کی رام کہانیاں لکھنے سے باز ہی نہیں آتی، تو ہمارا بھی کبھی تو بھرپور ایڈیٹنگ کا مُوڈ ہوتا ہےاورکبھی بالکل نہیں۔ سو، ایسے مقابلے آئندہ بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

لطائف کی کمی

جب تک یہ خط ملے گا، عید گزرچُکی ہوگی، بہرحال ہماری طرف سےآپ کواورآپ کی پوری ورک ٹیم کو تہہ دل سےعید کی مبارک باد۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں بنی اسرائیل کے قصّے کی آخری قسط پیش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کی روشنی پانے کی توفیق دے۔ ’’عید اسپیشل‘‘ میں محمّد عبدالمتعالی نے ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ سے متعلق خُوب صُورت تحریر ہماری نذرکی، جب کہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق نے بتایا کہ ’’عیدین‘‘ درحقیقت مسلمانوں کے جشن اورعبادت کے ایّام ہیں۔ 

منور راجپوت نے ’’عیدِغزہ‘‘ کےعنوان سے بڑی دردمندی کے ساتھ فلسطین میں ہونے والے مظالم کی طرف توجّہ مبذول کروائی اور درخواست کی کہ مظلومینِ غزہ کو بھی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھا جائے، نیز اُن کی ہرممکن طریقے سے مدد بھی کی جائے۔ ہماری تو دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو غارت کرے۔ نادیہ نازغوری نے سنّتِ رسول ؐ کے مطابق اہتمامِ عید کی تلقین کی۔ بہت ہی شان دارمضمون تھا۔ 

رؤف ظفر ’’موبائل فِری‘‘ عیدمنانےکی ہدایات کے ساتھ آئے۔ بلاشبہ آپ لوگوں نے بالکل نئے موضوعات پر بہت عمدہ نگارشات تیارکیں۔ جریدے کے لیے کی جانے والی سخت محنت واضح نظر آرہی تھی۔ جب کہ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پرآپ کی تحریر کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں وحید زہیر نے کفایت رودینی سے اچھی ملاقات کروائی اور ’’حالات و واقعات‘‘ تومنور مرزا کے ساتھ گویا لازم وملزوم ہیں اور وہ ہر با رہی بہترین، ٹھوس دلائل، قابلِ غور تجاویزپیش کرتے ہیں، مگر پاکستانی قوم اتنی ہی سوچنے سمجھنے والی ہوتی، توآج اس حال کوکیوں پہنچتی۔ 

کنول بہزاد کاافسانہ اچھاتھا۔ نظیر فاطمہ کا افسانہ بھی بہت پسند آیا۔ آب آیئے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، جس میں  ہمارا خط بھی شامل تھا، بہت شکریہ۔ اس مرتبہ ہیلتھ اینڈ فٹنس، ’’ناقابلِ  فراموش‘‘ کے صفحات شامل نہیں تھے۔ اور رہے، بے کار ملک کے خط، تو وہ پڑھ کر جریدے سے لطیفوں کی کمی دُور ہوجاتی ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)

ج: چوں کہ یہ لطائف والا دیوانہ پَن ابھی حد سے سوا نہیں ہے، اس لیے جھیلا بھی جارہا ہے۔ بصورتِ دیگر تو ایسے کئی لطیفہ گو آئے اور بزم بدربھی ہوئے۔

متنوّع موضوعات، عُمدہ تحاریر

’’عیدالفطرایڈیشن‘‘حسبِ روایت انتہائی شان دار انداز سے تیار کیا گیا۔ متنوّع موضوعات پرعُمدہ تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ سرِورق سے لے کر آپ کا صفحہ اورایک پیغام سلسلے تک سب ہی صفحات کا مطالعہ بہت خوش گوار تجربہ رہا۔ یوں  ہی توہم اس جریدے کے ایک مدّت سے اس قدرمدّاح نہیں۔ میرے خیال میں تو ہرعُمراور ہر طبقۂ فکر کے افراد کو اپنی پسند اور ذوق کے مطابق کچھ نہ کچھ مواد مل ہی جاتا ہوگا۔ (شری مُرلی چندجی گوپی چند گھوکلیہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، شکارپور)

بہت زیادہ پسند آئے

آپ کے زیرِسایہ ’’سنڈے میگزین‘‘ دن چوگنی رات دگنی ترقی کی منازل طے کررہاہے۔ مَیں صرف اتوار ہی کواخبار منگواتی ہوں اور اس میں ہی دنیا بھرکی خبریں، واقعات، تجزیئے تبصرے، خاص طورپرنئی کتابوں پرتبصرہ سب ہی کچھ مل جاتاہے۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں قومِ بنی اسرائیل کاتذکرہ بڑا سبق آموز ہے۔ یہ اللہ کی پسندیدہ اورانعام واکرام سے لدی پھندی قوم، اس قدر آرام و آسائش ہضم نہ کرسکی، اورسچ تویہ ہے کہ اللہ دے کربھی آزماتا ہےاور لے کر بھی۔ لیکن اُس کی آزمائش پرچندایک ہی پورے اُترتے ہیں۔

’’لیلۃ الجائزہ‘‘اور’’عیدالفطر‘‘ پر محمّد عبدالمتعالی اورمفتی غلام مصطفیٰ کے افکار ایمان افروز تھے۔ ’’عیدِغزہ‘‘ سے متعلق منور راجپوت فیضؔ کی زبانی اہلِ غزہ کو تسلّی دے رہے تھے۔ اُف! کیسی بےحسی اورکم زورایمان ہےکہ تمام عالمِ اسلام سورہا ہے۔ اگر یہی حالات رہے، تو کیا ہم میں سے کوئی بھی یہود و ہنود کے شر سے محفوظ رہ سکے گا۔ رؤف ظفر ’’موبائل فِری عید‘‘ پرعُمدگی سےقلم طراز تھے۔ عید شُوٹ اورعید رائٹ اَپ بہت ہی زیادہ پسند آئے اور’’آپ کاصفحہ‘‘ بھی۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج: لیکن ہمیں آپ کی یہ بےنیازی ایک آنکھ نہیں بھاتی، جو آپ ہماری ہدایات و شرائط کو یک سرفراموش کردیتی ہیں۔ بارہا درخواست کی ہےکہ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں۔ مگر، آپ کے خط کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ صفحہ ’’ایڈیٹنگ‘‘ کا بوجھ تک نہیں سہار پاتا، ہاتھ میں آتے ہی لیر و لیر ہوا جاتا ہے، خُودآپ کانام جس آخری سطر پر تحریر ہوتا ہے، وہ تو کمپوزنگ کے دوران ہی داغِ مفارقت دے چُکی ہوتی ہے۔ ہربار اندازے ہی سے نام وپتا شائع کرنا پڑتا ہے۔

امیرخسرو کا گیت

بیٹی! رات ایک افسانے کا انجام پڑھنے کے بعد مجھے حضرت امیر خسرو کا ایک گیت یاد آگیا کہ جس کا کرب ابھی تک محسوس کررہا ہوں اورآپ تو ایک مشرقی بیٹی ہونے کے ناتے یہ کرب زیادہ شدت سے محسوس کریں گی۔ تو کیا آپ اس گیت کو انٹرنیٹ سے مکمل طور پر ڈائون لوڈ کرکےاپنے جریدے میں شائع کر سکتی ہیں۔ وہ کیا ہے ؎ شاید کہ اُتر جائے، تِرے دل میں مِری بات۔ گیت کا عنوان ’’کاہے کو بیاہے بدیس‘‘ ہے۔ (سلیم انور)

ج: آپ کا حُکم، سر،آنکھوں پہ۔ کاہے کو بیاہے بدیس… ارے لکھیا بابل مورے کاہے کو بیاہے بدیس… بھیا کو دیو بابل محلے دو محلے… ہم کو دیو پردیس، ارے لکھیا بابل مورے… کاہے کو بیاہے بدیس… ہم تو بابل تورے کھونٹے کی گیاں… جت ہانکے ہنک جائیں، ارے لکھیا بابل مورے… کاہے کو بیاہے بدیس… ہم توبابل تورے بیلےکی کلیاں… گھرگھرمانگےہیں جائیں، ارے لکھیا بابل مورے…کاہے کوبیاہے بدیس… کوٹھے تلے سے پلکیا جو نکلی… بیرن نے کھائی پچھاڑ، ارےلکھیا بابل مورے… کاہےکوبیاہے بدیس… ہم تو ہیں بابل تورے پنجرے کی چڑیاں… بھوربھیے اُڑ جائیں، ارے لکھیا بابل مورے… کاہے کوبیاہے بدیس…تاروں بَھری میں نے گڑیا جو چھوڑی… چُھوٹا سہیلی کا ساتھ، ارے لکھیا بابل مورے… کاہے کو بیاہے بدیس… ڈولی کا پردہ اُٹھا کے جو دیکھا …آیا پیا کا دیس، ارے لکھیابابل مورے …کاہےکوبیاہے بدیس …ارے لکھیا بابل مورے۔

                      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اسکول کے زمانے میں نظم ’’ڈیفوڈلز‘‘ اور اُس کی سمری کے رٹّے لگاتے پیشِ نظر صرف ایک ہی مقصد، اچھے نمبروں سے پاس ہونا تھا اور ہوئے بھی۔ اُس وقت یہ خیال چُھو کر بھی نہ گزرا کہ ولیم ورڈزورتھ کِن گہرائیوں سے رُوشناس کروارہا ہے۔ خیر، وقت کا پہیا گھومتا رہا اور ہم ’’کیا سے کیا ہوگئے، دیکھتے دیکھتے…‘‘ اب ادراک ہوتا ہے کہ وہ نظم تو درحقیقت مشّقت و مصروفیت کے پُرتھکن معمولات کے دوران ذہن میں چُپکے سے دَر آنے والی یادوں کا استعارہ تھی۔ 

جیسے اب تلخیٔ ایام میں کبھی کبھار سوچ، ورڈزورتھ کے آوارہ بادل کی مانند، ہوا کے دوش پر اُڑتی اُس وقت کے دَر کھٹکھٹاتی ہے، جب مَری ریسٹ ہاؤس کے لان میں رات کے ایک بجے اکیلے بیٹھ کر تاروں بَھرے آسمان کو تکا جاتا تھا، مال روڈ کی طرف سےکان پڑتاموسیقی کا مدھر ردھم محسوس کیاجاتا تھا۔ ہاکس بے کی نمکین ہوا چکھی، فرید گیٹ سے گزرتے کلچر میں گم ہُوا جاتا تھا۔ 

یقیناً ہم میں سے ہر ایک، اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ ’’ڈیفوڈلز لمحات‘‘ ضرورجیتا ہے، لیکن اب تو اُن معصوموں کا سوچ کر، ہمہ وقت اِک اداسی رگ وپے میں سرایت کیے رہتی ہے کہ جنہیں ابھی اپنے ذہنوں میں بہت سے ڈیفوڈلز لمحے محفوظ کرنے تھے، مگر اُف! یہ ستم در ستم کہ وہ اِس عُمر میں میزائلز کی گھن گرج اور اپنے پیاروں کی آہ و بکا ریکارڈ کر رہے ہیں۔ ’’القسام‘‘ کےابوعبیدہ یونہی بیٹھے بٹھائے تو نہیں بن جایا کرتے ناں۔ اُداس، اجاڑ بچپن، بےبس و بےکس نوعُمری کی دین ہیں یہ۔ 

ظلم و بربریت کی نہ جانے کتنی مثالیں دیکھی اور سہی جاتی ہیں، تب جاکے ایسی نسل پروان چڑھتی ہے۔ جب ہٹلر نے یہود پر زمین تنگ اور ساری دنیا نے اپنی سرحدیں اُن پر بند کردی تھیں، تواہلِ فلسطین ہی تھے، جنہوں نے اُن کو خدا ترسی کے نام پرپناہ دی۔ تب یہ بھوکے پیٹ، ننگے پاؤں اور لباس کے نام پر چند چیتھڑوں میں ملبوس اِس ارضِ مقدّس میں داخل ہوئے۔ مگر ذرا سی طاقت پکڑتے ہی اپنی وعدہ خلافی و احسان فراموشی کی ازلی روش پرآگئے۔ یہ وہی ہیں، انبیاءؑ کے قاتل، اوراِن کے مقابل ہیں، انبیاءؑ کے وارثین کہ حق پر ڈٹے رہنا اور قربان ہوجانا،جن کےخون میں شامل ہے۔ 

اصل آزمائش میں شاید ہم ہیں۔ انتہائی افسوس اسکرین میڈیا پر بھی ہے، غیر ضروری واقعات کو تو بسا اوقات انتہائی ہائپ دے دی جاتی ہے، مگر اِس اندوہ ناک انسانی المیے کی طرف مُندی مُندی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم، پرنٹ میڈیا کی زبوں حالی زبانِ زدِعام ہونے کے باوجود آپ لوگ جس مستقل مزاجی سے فلسطین کو فوکس میں رکھے ہوئے ہیں، یہ ہائی بجٹ میڈیا اداروں کے لیے ڈوب مرنے کے مقام ہے۔ 

’’سنڈےمیگزین‘‘ میں اس سلگتے موضوع پر وقتاً فوقتاً چشم کُشا رپورٹس کی اشاعت اِس بات کی غمّاز ہے کہ صحافتی ذمّے داریاں آج بھی دیانت داری سے ادا کی جارہی ہیں، بلکہ اس خصوصیت کا کریڈٹ تو بلاشبہ آپ کو اور آپ کی ٹیم ہی کو جاتا ہے کہ نت نئے ٹرینڈز کی رَو میں اندھا دھند بہہ جانے کے بجائے توجیہی تجزیات اور تحاریر شاملِ اشاعت رکھتی ہیں۔ مثلاً فیمینزم کو مرد کے مقدّس اور محافظ رُوپ کے مدِمقابل لانے کے بجائے ایک جابرانہ طرزِ فکر سے اختلاف کا ذریعہ بتایا گیا۔ 

یہ بہت سمجھ داری سے مرتّب کیاجانے والا آرٹیکل تھا۔ مَردوں کی تو خیر بات چھوڑیئے، یہاں تو ایک خاتون بھی اپنی صنف کوسمجھنے میں غلطی کربیٹھتی ہے۔ مثلاً ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک محترمہ نے آپ کی سخت گیری کومثال سے واضح کرنے کے لیےگورنمنٹ اسکول کی ٹیچر یا پرنسپل کے الفاظ استعمال کیے۔ اپنی طرف سے غالباً انہوں نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہوگی، مگر مَیں ایک بات ضرور کہوں گی کہ ہمارے دیگر قومی المیوں کی طرح، ایک بڑا المیہ استاد کو مروّجہ مقام و عزت نہ دینا بھی ہے۔ 

کسی کو گورنمنٹ اسکول کااستاد یا استانی کہہ کر تضحیک کرنا تو بہت آسان ہے، مگر دعوتِ عام ہے کہ تشریف لاکر کبھی زمینی حقائق پر بھی غور فرمایئے۔ چلیں، اگر صرف پنجاب ہی کی بات کریں، تواِس وقت بہترین یونیورسٹیز کے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اسکول کی سطح پر انتہائی قلیل تن خواہوں پر اپائینٹڈ ہیں۔ 

بعض اوقات ہمیں مناسب انفراسٹرکچر تک میّسر نہیں ہوتا، تو کبھی بجلی، فلٹرڈ پانی، اسٹاف روم جیسی بنیادی ضرورتوں پر بھی کمپرومائز کرتے ہیں۔ اور…آج سے چند ماہ قبل جب اساتذہ اپنے انتہائی بنیادی، سروس حقوق کے تحفّظ کے لیے سڑکوں پر نکلے،تومعذرت کے ساتھ، سوشل میڈیا کے علاوہ کسی پلیٹ فارم سے مناسب کوریج نہیں دی گئی۔ خیر، ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ میں آپ نے بجا فرمایا کہ راجا صاحب کی غیرحاضری کے سبب کافی لوگوں کو موقع مل گیا ہے۔ 

اِس کی ایک مثال تو مَیں خُود ہوں۔ 2014،2022 ء اور اب 2023 ء کی ذرّہ نوازیوں کے لیے ’’شُکریہ‘‘ بےحد چھوٹا لفظ ہے۔ ویسے 2014ء میں، مَیں چھوٹی تھی اور مزے مزے کی باتیں لکھتی تھی اور اب دراصل خُود نہیں جانتی، کیسی کیسی باتیں لکھ جاتی ہوں۔ آپ نے تب بھی سراہا اور اب بھی اُجالا۔ سو، اصل کیٹالسٹ دراصل آپ ہی ہیں، تو محترم جاوید اقبال کا میرے لیے’’مقابلے‘‘ کا لفظ شرمندگی سے دوچار کرگیا کہ مَیں ہمیشہ یہی کہتی ہوں، مقابلہ تو ٹکر کے لوگوں کا ہوا کرتا ہے۔ وہ ٹہرے استاد، جہاں بین و جہاں شناس، جب کہ اِدھر یہ حال ہے (کچھ ترمیم کے ساتھ) ؎ دل کی تنہائی کو آواز بنالیتے ہیں …درد جب حد سے گزرتا ہے، تو قلما لیتے ہیں۔ لہذا دست بستہ گزارش ہے کہ ’’استاد جی! دربارِ علم وقلم میں مجھے اپنے حضور دو زانو ہی تصوّر کیجیے۔‘‘ (شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ)

ج:بہت خُوب، ہمیشہ کی طرح۔ آپ کل بھی سراہے جانے کی لائق تھیں، آج بھی ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہیں گی، اور یہ سو فی صد آپ کی تخلیقی وعلمی صلاحیتوں ہی کے باوصف ہے، اِس میں ہمارا ہرگز کوئی کمال نہیں۔

گوشہ برقی خطوط

ای میل آف دی ویک

* حال ہی میں اتفاقاً سنڈے میگزین نظر سے گزرا۔ غزل کہنے کی جسارت نہیں، سو ’’اُس‘‘ کی صُورت نظر آنے پر مَیں تو نثر کہنے ہی پر اکتفا کرتی ہوں اور وہ آپ کے سامنے ہے۔ جوں جوں میگزین کے اوراق پلٹتی گئی، آنکھوں کے سامنےماضی کی کئی یادوں کی ایک فلم سی چلنے لگی۔ 

وہ ہر اتوار میگزین کے انتظار میں صبح جلدی جاگنا اور اخبار والے انکل سے گلہ کرنا کہ وہ آدھا د ن گزار کراخباردینےآتے ہیں، اخبارآجانے پربہن بھائیوں سے میگزین کے لیے کھینچا تانی، جس میں کئی میگزینز تو پھاڑ ہی ڈالے۔ بالآخراِس بات پر اتفاقِ رائے ہوا کہ اخبار آتے ہی میگزین کی اسٹیپلز الگ کر کے ہر ایک کو اُس کی مرضی کے صفحات دے دئیے جائیں۔ 

میگزین کوشروع سےکھولنے کے بجائے سیدھا آخرمیں موجود اپنے صفحے پر چھلانگ لگانا اوراُس میں بھی برقی خطوط کے چھوٹے سے گوشےمیں اپنا نام تلاشنا۔ نام مل جانے پر پورے محلے کو آپ کا جواب پڑھ پڑھ کر سُنانا (بشرطیکہ ٹکاسا نہ ہو) اور نام نہ ملنے پر پھر ہفتےبھرکا ایک نیا انتظار شروع۔ آپ کے سارے جوابات اتنی بار دہرائے کہ آج بھی اَزبر ہیں۔ اب مُڑ کردیکھتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ زمانہ بیتے ایک مدّت گزر چُکی۔

عہدِ رفتہ کی روایت قائم رکھتے ہوئے مطالعے کا آغاز اس بار بھی ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی سے کیا اور احساس ہوا کہ سنڈے میگزین کی اپنائیت تو آج بھی ویسی ہی ہے۔ وہی اِس ہفتے کی چِٹھی، وہی چُنا مُنا سا گوشۂ برقی خطوط، جس میں سر گُھساؤ تو پیر باہر نکل آئیں، اور کھٹے میٹھے جوابات کے ساتھ ساتھ اظہارِ رائے کی دعوتِ عام دیتی نرجس ملک! پہلے تو جی میں آئی کہ شکایت کروں، دنیا مصنوعی ذہانت ( آرٹی فیشل انٹیلی جینس) کی طرف جارہی ہے، حتٰی کہ خُود مَیں نے بھی اس عرصےمیں اچھا خاصا قد نکال لیا ہے، لیکن برقی خطوط کا چھوٹا سا کالم ابھی تک اُتنے کا اُتنا ہے۔ اور پھر’’اس ہفتے کی ای میل‘‘ بھی ہمیشہ کی طرح ندارد۔ 

پھر سوچا کہ آج کے اِس پُرفتن دَور میں بھی ہاتھ سے لکھے جانے والے خطوں کی خُوب صُورت روایت کو برقرار رکھنا بھی تو آپ ہی کا کمال ہے۔ ہم ای میلز والے تو جھٹ سے اپنے خطوط برقی لہروں پرروانہ کر دیتے ہیں، بذریعہ ڈاک خطوط بھیجنے والوں کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ شمارے کےدیگرسلسلوں پرآئیں، تو ’’حالات و واقعات‘‘ میں پیوٹن کی جیت سے متعلق تفصیلی تحریر پڑھنے کو ملی۔ 

منور مرزا کسی حد تک پیوٹن سے متاثر (انسپائرڈ)نظر آئے۔ انتخابات کی شفّافیت اورعین انتخابات کے قریب اپوزیشن رہنما کی اچانک موت سے جنم لینے والےخدشات کو زیادہ قابلِ توجّہ نہیں سمجھا گیا۔ اِس کےبرعکس تحریرکےمطابق پیوٹن کی جیت اُن کی پالیسیوں کے لیےعوام کی رضامندی کا اظہارٹھہری۔ مَیں نےتو یہ سُن رکھاتھاکہ روس، پیوٹن کی دنیا ہے، جس میں باقی سب محض زندگی بسرکررہے ہیں۔ 

پھر روس، یوکرین جنگ میں بھی دونوں پہلوؤں پر متوازن روشنی ڈالنے کے بجائے پیوٹن کا پلڑا بھاری دکھایا گیا۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی رائے میں ایسا کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ البتہ طاقت وَر اور کم زور ریاستوں سے مغرب کے برتاؤ پر منور مرزا کا تبصرہ درست تھا کہ جتنی بھی لیگز آف نیشنز اور اقوامِ متحدہ بن جائیں، بھینس اُسی کی ہوتی ہے، جس کی لاٹھی ہو۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانیاں کچھ زیادہ متاثر نہیں کرسکیں۔ نئے دَور میں جنریشن گیپ کی بات کی گئی۔ شاید بومرز (boomers) ملینیلز (millennials) اور جین زی (Gen Z) کبھی ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ 

مَیں خُودجین زی سےتعلق رکھتی ہوں اور کبھی کبھی سوچتی ہوں کیا ہم میں اور پروان چڑھتی نئی پودجین الفا(Gen Alpha)میں بھی یہی فاصلے، یہی دُوریاں ہوں گی؟ زیرِمطالعہ شمارے میں ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ کیا یہ سلسلہ ہی فراموش کردیا گیا ہے یا آج بھی صفحات کی کمی کی نذر ہوجاتا ہے؟ یوں تو جریدے کے تمام صفحات ہی قابلِ ستائش ہیں، لیکن ای میل کی طوالت کومدنظررکھتے ہوئے اورگوشۂ برقی خطوط کے مختصر رقبے کے احترام میں اپنےمفصّل تبصرے کو فی الحال چند ہی سلسلوں تک محدود کررہی ہوں۔ 

ویسے مَیں نے اپنی طرف سے کوشش تو کی ہے کہ میرا یہ خط آپ کے اس نکڑ میں لگےسکڑے کونے میں پورا نہ آئےاورمجبوراً آپ کواس میں توسیع کرنی پڑے کہ دل کے خُوش رکھنے کو غالؔب یہ خیال اچھا ہے، لیکن حقیقتاً آپ کی بےرحم تیزدھار قینچی اور تراش خراش کی صلاحیتوں پر بھی مجھے کوئی شبہ نہیں۔ مگر اتنی تواُمید ہے کہ کوئے یار میں دوگز نہ سہی، دوچارانچ جگہ تو مل ہی جائے گی۔ (عروبہ غزل، لاہور)

ج: بہت خُوب۔ ایک زمانے بعد آج ایک ای میل کو یہ اعزاز دیتے ہی بنی۔ ویسے تم نے اِس بزم میں آنا کیوں چھوڑا۔ تمھیں تواِس کامستقل حصّہ ہونا چاہیے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk