• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

خلوصِ نیّت و محنت کےاسباق…

’’حالات و واقعات‘‘ کا عنوان… خارجہ پالیسی میں کیسا ہو پاکستان۔ منور مرزا کا ہے یہ کہنا… دنیا سے معاشی روابط مضبوط رکھنا۔ ہیں جیسے موتی، لعل و گہر… قصّۂ معجزۂ شق القمر۔ عظیم معجزہ، قربِ قیامت کی نشانی… مگر بندۂ خدا کی زندگی، اِک الجھی کہانی۔ حفصہ طارق کا آرٹیکل،غزہ میں جنگ بندی… کرے اسرائیل کا مکمل بائیکاٹ، ہربندہ اور بندی۔ اب کٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں… جو دریا جُھوم کےاُٹھے ہیں، کناروں سے اُن کا بیر نہیں۔ 

فاروق اقدس زیرِقلم لائے، پہلی خاتون وزیرِاعلیٰ پاکستان… مریم نواز،اَن تھک محنت، سیاسی شعور و جدوجہد کی پہچان۔ قائدِاعظم اکادمی، کراچی کا حال احوال… منور راجپوت الف سے یے تک کھوج لائے باکمال۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں نرجس ملک کے قلم کے سنگ… کِھلتے ہیں وجودِ زن سے کائنات میں رنگ۔ ذیابطیس کے مریضوں کے رہنما اصول… رکھیں روزے اور کریں نیکیاں وصول۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کا قلم چلا، بحوالۂ رمضان… جو ہم سمجھیں، تو یہ ہے، زندگی کی شان۔ ماں کے ہاتھ کا سمنک کا حلوہ…اب کیوں چاہیے، کسی اور کھاجے کا جلوہ۔ 

وحید زہیرنے کیے وا ڈاکٹر شرجیل کی زندگی کے اوراق… کہ جس میں پنہاں، خلوصِ نیّت ومحنت کےاسباق۔ ہوں کتابیں اورتبصرہ ہو، اخترسعیدی کا… تو پھر کُھلتا ہے دروازہ، اردوئے جدیدی کا۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ کے چاروں کردار… جان دار، شان دار، یادگار۔ ’’سنڈے میگزین‘‘، اِک گوہرِ نگینہ… سیکھے کوئی شاہدہ تبسم سے لکھنے کا قرینہ۔ ایڈیٹر، ٹیم سنڈےمیگزین، سلامت رہو… سلامت رہو، تاقیامت رہو۔ ہےضیاء کی یہ دلی دُعا… ہر بندہ رہے، خُوشیوں میں گِھرا سدا۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: واہ واہ، واہ واہ، واہ واہ…اب اتنی شدید تُک بندی پر ہم کہیں تو کیا کہیں۔

اوپر کی تصویر نیچے، نیچے کی اوپر

’’قصّہ قومِ بنی اسرائیل کا‘‘ موجودہ حالات کے تناظر میں بصد شوق پڑھا جا رہا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منوّر مزرا ہمیشہ کی طرح چھائے نظر آئے۔ جس خُوبی وعُمدگی سے وہ قوم کی اصلاح و رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ہمیں اُن کی دل سے قدر کرنی چاہیے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے فلسطین کی صورتِ حال پر توجّہ مبذول کروائی اور سوال کیا کہ امن کی عَلَم بردار عالمی طاقتوں کا ضمیر آخر کب تک سوتا رہے گا؟ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے غزوۂ بدرپربیش بہا معلومات سے مزیّن مضمون تحریر کیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں رؤف ظفر پروفیسر عائشہ صدیقہ سے مفید بات چیت کر رہے تھے۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر افتخار برنی اور ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اچھی تحریریں ہماری نذرکیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ سے دہی کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شہلا خضر بھی بہترافسانہ لائیں، جب کہ منیر احمد منیر نے قائد کی تقریر سے خُوب صُورت اقتباس نقل کیا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط بھی جگمگا رہا تھا، بے حد شکریہ۔ اگلے ایڈیشن کے سرِورق پر نظر پڑی۔ سُرخی دیکھ کرہی دل خُوش ہوگیا کہ ؎ رحمت کے دَرکھلے ہیں، شام وسحر کُھلے ہیں… مگر میرے خیال میں ٹائٹل کی اوپر والی تصویر نیچے اور نیچے والی اوپر آنی چاہیے تھی۔

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قومِ بنی اسرائیل کا قصّہ نہایت دل چسپی سے پڑھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عبرت پکڑنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کا فتحِ مکّہ سے متعلّق مضمون لاثانی تھا۔ رؤف ظفر کاسوال تھا کہ اربوں روپوں کی زکوٰۃ بھی مسلم دنیا کو غربت سے کیوں نہیں نکال پاتی؟‘‘ یقیناً اس سوال پر بہت غورکرنے کی ضرورت ہے۔

منوّر مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ میں اپنے ناصحانہ انداز کے ساتھ موجود تھے، مگر اس نقّار خانے میں کوئی سُننے والا بھی توہو۔ اقبال خورشید کے مضمون کا لبِ لباب تھا کہ اردو ادب، حکومتوں کی سرپرستی کا منتظر ہے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم ہمیشہ کی طرح اُجلی تحریر کے ساتھ آئیں، البتہ ’’ناقابلِ فراموش، ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ہمارے خط کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ ( سید زاہدعلی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)

ج : کمی محسوس ہو، تو قدر برقرار رہتی ہے، اسی لیے ہم زیادتی کی نسبت کمی کو ترجیح دیتے ہیں۔ رہا آپ کا اوپر، نیچے کی تصویر والا اعتراض۔ تو بھائی! اوپر کی تصویر سحری کی میز کی، اور نیچے کی افطار دسترخوان کی تھی۔ اور ہمارے خیال میں تو دنیا بھر میں سحری پہلے اور افطار بعد میں ہی ہوتی ہے۔ سو، ہم نے سرورق پراِسی ترتیب کوپیشِ نگاہ رکھا۔

ٹیم کے لیے شاباش

جیسے ہی سنڈے میگزین ہاتھ آیا، فوراً سے پیش تر مطالعے کا آغاز کیا۔ کیا کمال کا قصّہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحے پرملا۔ ایک ایسی قوم کا قصّہ، جو پہلے اللہ کی محبوب قوم تھی، پھر نافرمانی کی وجہ سے بدترین کہلائی کہ چارسوسال تک قومِ فرعون کے ساتھ رہنے کے سبب اُن کی بہت سی بُرائیاں بنی اسرائیل کے مزاج کا حصّہ بن کر جبلّت میں شامل ہوچُکی تھیں۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ واپسی کا ذکر تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس کارنر‘‘ میں ٹی بی سے متعلق خُوب آگاہی دی گئی۔ عالمی دن کے حوالے سے خصوصی مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ صد فی صد قابلِ علاج مرض کی بڑھتی شرح افسوس ناک ہے۔ 

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے غزوۂ بدرکاواقعہ بہت اعلیٰ انداز سے بیان کیا۔ بلاشبہ یہ رسول اکرمؐ کی دفاعی و جنگی حکمتِ عملی کا عظیم مظہر تھا، جس میں مسلمانوں کوفتح نصیب ہوئی اورحق کے رستے کھُل گئے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں پروفیسرعائشہ صدیقہ سے بات چیت کی گئی، جس سے پتاچلا کہ آنے والا دور ڈیجیٹل گرافک ڈیزائننگ کا ہے اور اگر حکومت سرپرستی کرے تو پاکستان میں اس شعبے سے کروڑوں ڈالرز کمائےجاسکتے ہیں۔ ایک اور زبردست مضمون 23 مارچ کے حوالے سے بھی تھا۔ آخر میں سنڈے میگزین کے تمام لکھاریوں کو اتنا اچھا جریدہ تیار تحریر پر دلی شاباش۔ (حسن علی چوہدری، سرگودھا)

ج : تعریف وتوصیف، ہمّت وحوصلہ افزائی کا بےحد شکریہ۔

غریب کا کیا رمضان، کیا عید؟

میگزین پڑھا، سرِورق پہ سحر و افطار دستر خوان کا منظر خُوش کُن تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ ’’قصص القرآن‘‘ بے حدمعلوماتی سلسلہ ہے۔ دنیا کی بدترین قوم، بنی اسرائیل کااحوال پڑھ رہے ہیں اور حوالوں کے ساتھ مطالعہ، معلومات میں بہت اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ رؤف ظفر، لاہور سے زکوٰۃ کی تقسیم کا درست طریقہ سمجھا رہے تھے۔ اے کاش! کہ ہم عمل کر سکیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ غریبوں کا کیا رمضان، کیا عید، وہ تو سارا سال ہی غم پھانکتے، غصّہ پیتے ہیں۔ اورہاں، آپ کے اسپیشل ایڈیشنز کا بہت انتظار رہتا ہے۔ (انجم مشیر، سیکٹر فائیوایم ، نارتھ کراچی، کراچی)

ج: بحیثیت قوم، ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم لاتعداد ’’اے کاش…!اے کاش…!‘‘ کا مجموعہ بن کے رہ گئے ہیں۔

پسندیدگی کا اظہار

’’صدقۂ فطرکی ’’اہمیت وفضیلت‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے۔ علاوہ ازیں، عید کی مناسبت سے اشعار اورآزاد نظم بھی بھیج رہا ہوں۔ اُمید ہے، پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے شائع کر کے شکریہ کا موقع دیں گی۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: ویری سوری، آپ کی دونوں ہی خواہشات تشنہ رہ گئیں۔ نہ ہم پسندیدگی کا اظہار فرما سکے اور نہ ہی آپ کو شکریے کا موقع ملا۔

لٹھ لے کر پیچھے…

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا، دونوں  میں  متبرّک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھے۔ ’’اہم ممالک میں  تبدیلیٔ قیادت‘‘ پر منور مرزا کا تجزیہ بہت ہی جان دار وشان دار تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں مریضوں کے لیے ماہِ صیام کے روزے رکھنے سے متعلق بہترین معلومات فراہم کی گئیں۔ مریم نواز، پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ کاسیاسی سفر، واقعی بہت ہی دل چسپ ہے۔ قائدِ اعظم اکادمی، کراچی پر ’’رپورٹ‘‘ بھی اچھی تھی۔ 

اس بار ’’کہی ان کہی‘‘ میں معروف اداکار، شرجیل بلوچ موجود تھے۔ ویسے زندگی میں کم ہی ڈاکٹر اتنی بہت سی خوبیوں کے حامل دیکھے ہیں۔ ’’تاجروں کی تیز چُھریاں، اربوں روپوں کے حکومتی ریلیف پیکجز‘‘ بھی سیرحاصل رپورٹ تھی۔ ’’کانٹوں کی سیج پربیٹھے حُکم ران‘‘ منورمرزا کا تجزیہ، تحریر، ہمیشہ کی طرح بہت ہی خُوب رہی۔ خطوط کے جواب میں آپ نے بےکار ملک کو ’’انکل جذباتی‘‘ کہہ دیا ہے۔ ڈرہے، اب وہ آپ کے پیچھے لٹھ لے کر ہی نہ پڑجائیں۔ تیاری کرلیں، اپنے بچاؤکی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج :آپ تسلّی رکھیں، ایسی کھوکھلی لٹھوں سے نمٹنا ہمیں خُوب آتاہے۔

آواز اُٹھانے کا شکریہ

’’قصصُ القرآن‘‘ میں محمود میاں نجمی قومِ بنی اسرائیل کی بد اعمالیوں کا تذکرہ فرما رہے تھے، پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا رہا کہ گزشتہ قوموں کے کیسے حالات تھے۔(خیر، حالات تو آج بھی کچھ خاص اچھے نہیں) فتحِ مکّہ، بلاشبہ تاریخ کا بےمثال واقعہ ہے۔ پورا واقعہ پڑھا، تو آنکھیں بَھرآئیں۔ نبی آخرالزماں ﷺ کی دریا دلی اورعام معافی پرآج تک تاریخِ انسانی یوں ہی تو حیران نہیں۔ دَورِ حاضر میں تو معمولی معمولی باتوں پر قتل وغارت گری عام ہوگئی ہے۔ 

فلسطین کے معاملے پر اگر اسلامی ممالک کی خاموشی لمحۂ فکریہ ہے، تو عقل حیرت زدہ کہ امتِ مسلمہ کو کیا سانپ سونگھ گیا ہے۔ اِنھیں خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے خدائے برتر نے کورونا جیسے عذاب سے بھی دوچار کیا، لیکن بےسود۔ رؤف ظفر زکوٰۃ کے نظام سے متعلق کہہ رہے تھے کہ اِس کی شفّاف تقسیم کتنی ضروری ہے۔ سیّد ثقلین علی نقوی رمضان اور عید منہگائی پر سخت افسردہ دکھائے دیئے۔ 

بھائی! ہم جیسے عوام النّاس کے لیے آواز اُٹھانے کا بےحد شکریہ۔ عشرت زاہد کا لکھا ’’راشن‘‘ بھی بہت کچھ بتا گیا کہ نوسربازوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ڈاکٹر حمزہ خان، صمد روفی، شہزادہ بشیر نقش بندی اور عروج عباس کے خطوط بہت پسند آئے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے لیے ایک واقعہ ’’اٹھارہ منٹ بھی انتظار نہ کیا‘‘ کے عنوان سے بھیجا تھا، جو ایک اطلاع کے مطابق جنگ، لاہور/ ملتان کے 25 فروری کے ایڈیشن میں تو شائع ہوگیا، لیکن اُس روز آپ کے راول پنڈی ایڈیشن میں اُس صفحے پر ایک اشتہار لگا ہوا تھا، جوواقعہ نگارکا مُنہ چِڑانے ہی کے مترادف تھا۔ بہرحال، جیسے تیسے صبر ہی کرلیا۔ قرآنی تاریخ اوراس کے جزئیات سے مُحقّقانہ واقفیت ہمیں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا گرویدہ کیے ہوئے ہے کہ قرآنی موضوعات پر ایسی تحریریں دینی و دنیاوی علم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو جزائے خیر دے، عُمر میں برکت عطا فرمائے۔ 17؍مارچ کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں، پَل پَل سے باخبر دانش وَر نے فارم۔47 کی حکومتی واردات سے، جس کی بازگشت پوری دنیا میں سُنائی دے رہی ہے، دیدہ و دانستہ اعراض کیا، جو میرے خیال میں تو اُن کے پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق کے قطعی منافی ہے، حالاں کہ اس واردات کے سنگین نتائج جلد یا بدیرکسی نہ کسی انتشار و خلفشار کی صُورت ضرورظاہرہوں گے۔یہی دُعا کہ ؎ محرومِ تماشا کوپھر دیدۂ بینا دے۔ 

ویسےدیدۂ بینا دیکھ تو رہی ہے کہ ’’دِل رُبا سوکن‘‘ تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اپنے جھروکے میں جلوہ گرہونے کو ہے اور جلد ہی ’’حالات و واقعات‘‘ کی سورج مُکّھی اُس کے حُسن وجمال کی بلائیں لیتی نظرآئے گی۔ اِسی شمارےکے’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں طبیبِ طبِ بالمِثل حسبِ سابق ہاتھ میں ’’ڈانگ‘‘ (لٹھ) لیے معاشرے کو سدھارتے نظرآئے، مگر ظالم سَماج سُدھرنے کے بجائے اِن کی ننّھی سی جان کو مسلسل روگ لگائے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن کی مشکلیں آسان فرمائے۔ خُدا خُدا کر کے خالد ارشاد کا سفرنامہ اختتام کو پہنچا۔ 

سفر کے آغاز ہی میں موصوف کےدل کا، اپنے سجّے کھبّےہم نشینوں کےبجائے، وقت گزاری کے لیے فِلپائنی ائیرہوسٹس سے بات کرنے پرمچلنا ہی بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔ اس سے پہلے قازقستان کے مُسافر نے بھی کوہ قاف کی پریوں کا ذکرِخیر قلم کو شہد کی روشنائی میں خُوب ڈبوڈبو کرکیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صائمہ کے ’’جلوۂ دانشِ فرنگ‘‘ کی خُوب صُورت تحریر کے بعد اب ایسے سفر نامے دِل کو نہیں بھا رہے۔ ’’شرانگیزفتنہ ساز‘‘ سے میری موانَسَت ومؤدَّت پرآپ کی حیرت اَور افسوس بجا ہے۔

مگر بیٹا! جھوٹ اَورمنافقت کی دُھند چھٹنےکا آغاز ہوچُکا ہے۔ اب چشم کُشا حقائق سے پردے اُٹھ رہے ہیں۔ عن قریب خُودساختہ ’’پارساؤں‘‘کےاعمال کی سیاہی دیکھ کر’’سوکن‘‘ کے اُجلے لباس پر لکھنے کی وجہ بھی طشت ازبام ہوجائےگی اَور مجھے کامل یقین ہے کہ آپ کی فطرتِ سلیم آپ کو ہماری صَفوں میں لاکھڑا کرے گی۔ (محمّد جاوید، اقبال ٹاؤن، راول پنڈی)

ج: آپ کی’’سوختہ بخت سوکن‘‘ سے ہمارا کون سا کوئی خاندانی جھگڑاہے۔ مُلک وقوم کے لیے نحس ثابت نہ ہوتی، اپنی شرپسندی سے پورے نظامِ مملکت بلکہ معاشرتی وحدت کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادی ہوتی، تو ہم نے بھی سر، آنکھوں پر بٹھانا تھا۔ اب بھی جو عوام النّاس کے ساتھ مخلص ہے، عام آدمی کے لیے کچھ سوچتا، اُس کا کچھ بھلا کرتا ہے، ہمارے لیے لائقِ تعظیم واحترام ہے، نہ ہمیں پچھلوں سے کچھ لینا دینا، نہ اگلوں سے، جومُلک کے لیے نیک فَال ثابت ہو، ہمیں توبس اُس ’’سالار‘‘ کی صف میں شامل ہونا اور کھڑےرہنا ہے۔ 

پچھلے دنوں ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے کچھ صفحات، پنڈی اسٹیشن سے بہ امر مجبوری ڈارپ کرنے پڑے اور ہمیں افسوس ہے کہ اُن ہی صفحات میں، آپ کا بھیجا گیا واقعہ بھی شایع ہوا تھا۔ سوائے معذرت کے، کیا کہہ سکتے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ ایڈیشن سے وہ صفحہ ڈاؤن لوڈ کرکے محفوط کرلیں۔ ویسے اگر کبھی موقع ملا تو شاید ہم اُسے پنڈی اسٹیشن میں ری شیڈول بھی کردیں۔

گوشہ برقی خطوط

* سالِ نو ایڈیشن کے پارٹ تھری میں ’’ٹی وی اسکرین‘‘ پر آپ کا ری ویو پڑھ کے تو مَیں ششدر ہی رہ گئی۔ دیگر موضوعات پر تو آپ کی کمانڈ کی دِل سے معترف تھی ہی، لیکن بخدا میرے سان وگمان میں بھی نہ تھا کہ آپ شوبز پربھی ایسی کمال گرفت رکھتی ہیں۔ 

جب کہ آج کل تو ہر دوسرا صحافی بس سَر سے بلا ٹالنے کے انداز ہی میں کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یا پھر جسےدیکھو، ہاتھ میں مائیک پکڑ کے خوامخواہ کا صحافی بنا ہوا ہے۔ جو منہ میں آرہا، بولے بلکہ بکےجارہا ہے۔ ایسے میں اس قدر بامقصد و مربوط تجزیہ ہرگز کوئی آسان امر نہیں۔ سچ میں، مَیں تو اب عُمر بھر کے لیے آپ کی فین ہوگئی۔ (شافعہ احسان، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: ارے بھئی شافعہ! آپ نے تو بلاوجہ ہی ہمیں مغرورکردیا۔ ایک اچھےصحافی کی توپہچان ہی یہ ہے کہ اُس کی ہر شعبۂ زندگی پر کمانڈ ہو۔ شوبز پر لکھنا کوئی ایسا بڑا کارنامہ بھی نہیں۔ بلکہ یہ نسبتاً آسان کام ہے کہ اِس حوالے سے تو بے شمار چٹ پٹا مسالا ہمہ وقت دست یاب ہوتا ہے۔

* جنگ، سنڈے میگزین سے تب کا تعلق ہے، جب آج سے15سال پہلے 4th کلاس میں پڑھتا تھا، پَری زاد ناول کی اشاعت کے وقت سے۔ مگر حالیہ کچھ عرصے سے میگزین میں ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلے کے توسّط سے شرکت شروع کی ہے۔ اور آج یہ ای میل اپنی پہلی تحریر ’’فرید خان، شیر شاہ سوری‘‘ کی اشاعت کے بعد اظہارِ تشکّر کے لیے بھیج رہا ہوں کہ آپ نے ہم جیسے طفلِ مکتب کی تحریر اپنے جریدے کی زینت بنا کے بہت حوصلہ بڑھایا ہے۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی سلسلہ جاری رکھوں گا۔ (محمّد اقبال شاکر، میانوالی)

ج:ہم تو ہمیشہ ہی کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی تحریر میں ہلکی سی بھی جان، ساہ (سانس) ہو، تو ہم اُسے زندگی دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بیش ترنگارشات ایسی مَری مُکّی (مُردہ) وصول پاتی ہیں کہ اگراُن میں رُوح پُھونکنے کی کوشش بھی کریں تو خُود اپنا دَم گُھٹتا سا محسوس ہوتا ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk