• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نریندر مودی جواہر لال نہرو کے برابر آ کر کھڑے ہو گئے ہیں، کیونکہ اس سے قبل تیسری بار لگا تار وزیر اعظم بننے کا اعزاز صرف بھارتی عوام نے نہرو کو ہی عطاکیا تھا مگر جواہر لال نہرو ایک ایسے وزیر اعظم تھے کہ جن کے بار بار صاحب اقتدار ہونے سے یونین آف انڈیا کو خطرہ لاحق نہیں ہو رہا تھا مگر نریندر مودی جس تقسیم در تقسیم کے راستے کے مسافر ہیں انکے دوبارہ صاحب مسند ہونے سے بھارت میں اضطراب بتدريج بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس اضطراب کی ہی بنیاد پر حزب اختلاف کانگریس اپنے اتحادیوں کے ہمراہ بھارتی عوام تک گئی اور اس نے دو ہزار انیس کے مقابلہ میں بہت بہتر کارکردگی دکھائی ۔ دو ہزار انیس میں تو یہ اتحاد لوک سبھا کی پانچ سو تینتالیس نشستوں میں سے صرف اکیانوے پر کامیاب ہو سکا تھا مگر اس بار تو تنہا کانگریس ہی ننانوے نشستیں حاصل کر گئی اور اس کا اتحادمجموعی طور پر دو سو تیس سے بھی زیادہ نشستیں جیت گیا جبکہ بی جے پی سادہ اکثریت حاصل کرنے میںبھی ناکام ہو گئی ۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی تین سو تین نشستیں جیت گئی تھی اور اب کوئی ساٹھ نشستیں کم حاصل کر سکی یعنی کہ بیس فیصد اس کی نمائندگی کم ہو گئی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو گیا تو ہمیں اس کا مطالعہ کرنا پڑے گا کہ ماضی کے دونوں انتخابات میں اور اب کیا فرق پیداہو ا ہے ۔ جب نریندر مودی 2014میں وزیر اعظم کے منصب تک رسائی پا گئے تو اس وقت ان کی انتخابی مہم ،کارکردگی اورترقی کی بنیاد پر تھی جو انہوں نے گجرات میں دکھائی تھی ۔ ہندو مسلم اختلافات ، گجرات میں تشدد بھی ان کے شانہ بشانہ تھا مگر اصل انتخابی نعرہ یہی تھا ۔پھر جب2019 آیا تو انہوں نے سوشل ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طاقت سے بھارت کی قومی سلامتی کو درپیش مسائل کو بنیادی نعرہ بنایا ۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک حملے میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کو انہوں نے خوب استعمال کیا ، پاکستان سے بھی کشیدگی بڑھائی حالانکہ اس حملہ کے آگے آج بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے کہ وہ کس نے کروایا تھا ؟ بہر حال وہ عوام کو قومی سلامتی کی محبت میں بہا کر لے گئے تھے ۔ مگر اب ان کو مہنگائی ، بیروز گاری جیسے مسائل کا زبر دست طور پر سامنا تھا ۔ پھر فوجی بھرتی کی متنازع اطلاعات نے بھی نو جوانوں کی بہت بڑی تعداد کو ان سے متنفر کر دیا تھا ۔ نریندر مودی نے ان تمام مسائل سے نبٹنے کیلئے مذہب کارڈ کا مکمل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس بار انکی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ مذہب ہی تھا اور جب انہوں نے اپنے حامیوں کو جوڑے رکھنے کی خاطر’’ اب کی بار چار سو پار‘‘ کا نعرہ دیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب اور دلتوں میں یہ خوف سرایت کر گیا کہ اگر مودی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی تو یہ آئین کو موم کی ناک بناکر جو چاہے گا کر گزرے گا۔ اس لئے یوگی ادیتیہ ناتھ کے یو پی میں، جو بھارتی انتخابات میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے ، سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے پی ڈی اے یعنی پچھڑا ، دلت اور الپ سکھیک مل کر انتخاب لڑے ۔ وہ اس میں کامیاب بھی ہو گئے سماج وادی پارٹی کے چھیاسی فیصد کامیاب اراکین کا تعلق ان ہی سے ہے ۔ بی جے پی کو اپنی یو پی سے کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ وہ امید وار تک باہر سے لے کر آئے ۔ پھر ماضی میں یو پی میں مسلمان بکھر کر ووٹ دیتے تھے اور اسی میں سے بتیس ایسی نشستوں کے باوجود جن میں مسلمان ووٹر بیس سے باون فیصد موجود ہیں بی جے پی یہ نشستیں جیت جاتی تھی مگر اس بار ان میں سے اٹھائیس نشستیںہار گئی ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار مسلمانوں نے دیگر پسے ہوئے عوام کے ساتھ ملکر بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا خود تو آبادی میں پندرہ فیصد ہونے کے باوجود صرف چار فیصد لوک سبھا کی نشستیں مسلمان جیت سکے مگر اپنی اہمیت جتلادی حالانکہ اس سے قبل یہ صورت حال تھی کہ یو پی اے حکومت کے سابق وزیر اے کے انتونی نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا تھا کہ کانگریس2014 کے انتخابات مسلمانوں کے مسائل اٹھانے کی وجہ سے ہار گئی تھی اور پھر اسکے بعد مسلمانوں کا ذکر شجر ممنوعہ بن گیا تھا ۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ ان انتخابی نتائج کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے تو یہ واضح رہنا چاہئے کہ مودی سرکار کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آئیگا کیونکہ پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کیلئے اسے اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگانا ہوگا جو وہ نہیں کرسکے گی بلکہ اپنے ووٹر کو جوڑے رکھنے کیلئے وہ مزید انتہا پسندی کا راستہ اختیار کر سکتی ہے اور پاکستان کیلئے بھی یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ بھارت کی جانب سے کشمیر میںکیے گئے اقدامات کی واپسی سے قبل خود مذاکرات کیلئے قدم بڑھادے ۔ پاکستان کو ویسے بھی ان نتائج کے بعد مزید چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ گارڈین نے اپریل 2024 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ2020 سے اب تک بھارت پاکستان میں بیس افراد کو قتل کرا چکا ہے اور یہ صرف رپورٹ ہی نہیں ہے بلکہ راج ناتھ سنگھ ، یوگی ادیتیہ اور مودی کے بیانات اس پر مہر تصدیق ثبت کر تے ہیں ۔ پاکستان کو اس قسم کے واقعات کو پوری طاقت سے روکنا چاہیے کیوں کہ بھارت تو کینیڈا ، امریکہ تک میں یہ کر رہا ہے اور آسٹریلیا میں اس کے پورے نیٹ ورک پکڑے جا رہے ہیں اگر اس کو نہ روکا گیا تو وہ مزید شہ پا کر اس سے بڑے اقدام سے بھی نہیں چوکے گا ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین