آئیے! ایک منظر نامے کا کچھ دیر حصّہ بنتے ہیں۔ایسا منظر نامہ، جو حقیقی بھی ہے اور تصوّراتی بھی۔ ہندوستان کی تقسیم عمل میں آ چُکی ہے۔دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت، پاکستان کا اضافہ ہو چُکا ہے۔ 1947 ء کا سال دنیا میں اُس وقت کی سب سے بڑی ہجرت کا عمل دیکھ رہا ہے۔عورتوں، مَردوں، بوڑھوں، بچّوں، بیماروں اور ناداروں پر مشتمل قافلوں پر قافلے نئی سر زمین پر قدم رکھ رہے ہیں۔
ہندوستان کی مختلف ریاستوں، بالخصوص اقلیتی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت پاکستان کے دارالحکومت، کراچی کا رُخ کر رہی ہے۔حکومت، مہاجرین کی غیر معمولی تعداد کے لیے قیام و طعام کا بندوبست کرنے میں رات، دن ایک کیے ہوئے ہے۔تاہم، پھر بھی حالت یہ ہے کہ مُلک کے دارالحکومت میں ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی کی آباد کاری ایک غیر معمولی مسئلہ بن گئی اور اگلے چند سال تک مُلک کو لاحق چند سنگین مسائل میں یہ معاملہ بھی سرِفہرست رہا۔
ممتاز شاعر، رئیسؔ امروہوی نے کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر کو مہاجرین کی حالتِ زار کی طرف متوجّہ کرتے ہوئے لکھا؎’’سیّدِ ہاشم رضا اے سیّدِ ہاشم رضا… اِک نظر ہم پر کہ مقبوضہ نہ مملوکہ ہیں ہم… جب نہیں کوئی ہمارا والی و وارث رئیسؔ … ملک میں مِن جملہء اِملاک متروکہ ہیں ہم۔‘‘
چند برسوں کے اندر حکومت نے ایک اصولی فیصلہ کرتے ہوئے مہاجرین سے کہا کہ اگر اُن کے پاس ہندوستان میں جائیداد رکھنے کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہو، تو اُسے پیش کر کے یہاں جائیداد حاصل کی جا سکتی ہے۔یہ سُن کر لوگوں میں ایک جوش و جذبہ پیدا ہو گیا۔سچّوں کے ساتھ جھوٹوں اور ابن الوقتوں نے بھی موقعے سے فائدہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
سو، اِس عنوان سے پیش رفت کرنے والوں کی درجہ بندی کے حساب سے درج ذیل شکلیں سامنے آئیں۔
(1)ہندوستان میں جائیداد موجود تھی، دستاویزی ثبوت جمع کروائے گئے اور اُس کے مطابق پاکستان میں جائیداد حاصل کی گئی۔
(2)ہندوستان میں جائیداد نہیں تھی، جعلی دعوے کی بنیاد پر پاکستان میں جائیداد حاصل کی گئی، یوں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ضائع نہیں کیا گیا۔
(3)ہندوستان میں جائیداد موجود نہیں تھی، کوئی دعویٰ دائر نہیں کیا گیا اور پاکستان میں کچھ نہیں ملا، مگر اِخلاص اور صبر و شُکر کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا عزم کیا گیا۔
(4)ہندوستان میں جائیداد موجود تھی، کوئی دعویٰ دائر نہیں کیا گیا، پاکستان میں کچھ نہیں ملا، تاہم نئی مملکت میں عزم و ہمّت اور بے غرضی سے کام کرنے کا ارادہ کیا گیا۔
(5)ہندوستان میں جائیداد موجود تھی، تاہم آزادی کی تحریک میں جب کچھ دینے کا وقت آیا، تو دامے، درمے، قدمے سب کچھ دے دیا گیا اور اس کے عوض کبھی کوئی دعویٰ دائر کیا گیا اور نہ کوئی منصب قبول کیا گیا۔
سچّوں اور جھوٹوں، اچھوں اور بُروں سے قطع نظر، ہجرت کرنے والوں کی اکثریت پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی تک چڑھ پائی۔ معدودے چند وہ تھے، جو چوتھی سیڑھی تک جا پہنچے۔ پاکستان کے اوّلین وزیرِ اعظم ،نواب زادہ لیاقت علی خاں اُن ہی معدودے چند افراد میں سے ایک رہے۔ اِس ذیل میں یقیناً اور بھی مثالیں موجود ہوں گی۔
پانچویں اور آخری سیڑھی پر نظر آنے والے افراد تو شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ قرار دیے جا سکتے ہوں۔اُن ہی آٹے میں نمک افراد میں سب سے شیریں نام اور جگمگاتی وبے داغ شخصیت، راجا صاحب محمود آباد کی ہے کہ جنہوں نے پاکستان کی تحریک میں اپنی ریاست کے خزانے کا منہ کھول دیا۔
راجا ہونے کے باوجود طبیعت کی درویشی کا یہ عالم کہ سادگی اور سچّائی پر ایک دنیا رشک کرے۔کردار کی پاکیزگی اور بلندی اِتنی ارفع کہ اپنا ہو یا پرایا، ادنیٰ ہو یا اعلیٰ، کُھلے دل سے اعتراف کرے۔ راجا صاحب محمود آباد کے نام سے مشہور، محمّد امیر احمد خاں 5نومبر 1914ء کو ریاست یوپی، اودھ کے تعلقے دار، محمود آباد میں پیدا ہوئے۔
دادا، امیر حسن خاں بہادر کو امیر الدّولہ کا خطاب ملاتھا۔1858ء میں اودھ پر انگریزوں کے قبضے کے وقت اُن کے والد، راجا مقیم الدّولہ نواب علی خاں کی انگریزوں کے خلاف بغاوت کے ضمن میں اعلیٰ حکّام کی جانب سے ریاست محمود آباد کی ضبطی کی سفارش بھی کی گئی تھی۔نواب علی خاں کی وفات کے وقت امیر حسن خاں کا زمانۂ کم سِنی تھا، لہٰذا اُنہیں کورٹ آف وارڈ کے زیرِ انتظام لے لیا گیا۔نو سال تک ریاست کی نگہہ داری میں رہنے کے بعد1867ء میں امیر حسن خاں نے ریاست کے جملہ اُمور اپنی نگرانی میں لے لیے۔
اُنہیں ادب اور اصنافِ ادب سے بے حد لگاؤ تھا۔مختلف اصنافِ سُخن میں سحرؔ اور حبیبؔ کے تخلّص سے طبع آزمائی بھی کرتے۔ میر مونسؔ اور میر نفیسؔ جیسے قادر الکلام شعراء سے شرفِ تلمّذ حاصل کیا۔ایک سو سے زیادہ مرثیے کہے۔راجا صاحب کے والد، مہاراجا محمّد علی محمّد خاں نے کم عُمری ہی سے ریاستی اُمور میں دل چسپی لینا شروع کی اور جلد ہی تمام انتظامی معاملات میں طاق ہو گئے۔
تعلیمی اُمور سے خاص لگاؤ رہا۔فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی گہری دل چسپی لیتے رہے۔1905ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، لکھنؤ کی مجلسِ استقبالیہ کے صدر ہوئے۔علی گڑھ کالج کو مسلم یونی ورسٹی کا درجہ دِلانے میں اُن کی کوششوں کا سب سے بڑا حصّہ تھا۔اُن کی ایک امتیازی حیثیت یہ رہی کہ وہ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے پہلے وائس چانسلر مقرّر ہوئے۔
تعلیم اور فروغِ تعلیم سے دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ اُنہوں نے پچاس ہزار روپے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور اِتنی ہی رقم لکھنؤ میڈیکل کالج کو یک مُشت فراہم کی۔1917ء میں’’ انجمن تعلق دارانِ اودھ‘‘ کے صدر منتخب ہوئے۔1921ء میں اودھ حکومت کے پہلے ہوم ممبر مقرّر ہوئے۔ اس سے پیش تر یہ عُہدہ کسی کو تفویض نہیں کیا گیا تھا۔1922ء میں (Commander of the Star of India C-S-I) اور 1923ء میں(Knight Commander of the Star of India) (K-C-S-I)کا منصب دیا گیا۔1925ء میں’’ مہاراجا‘‘ کا خطاب ملا۔
اُن کے علاوہ محمود آباد میں کسی اور والیٔ ریاست کو یہ خطاب نہیں ملا۔’’ امیر الدولہ کالج، لکھنؤ‘‘، ’’ امیر الدولہ لائبریری لکھنؤ‘‘، لکھنؤ کی مشہور دینی درس گاہ ’’ مدرستہ الواعظین‘‘اور لکھنؤ سے نکلنے والا پرچہ ’’الواعظ‘‘ اُن کی یادگار ہیں۔مہاراجا کی شخصیت میں کچھ ایسی سیمابیت تھی کہ خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ جانا گویا اُنہیں آتا ہی نہ تھا۔
اُن کے ارد گرد ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی سیاسی طوفان برپا رہتا۔ یوپی کے گورنر سر ہارٹ بٹلر سے اِس حد تک گہری دوستی تھی کہ ’’ Butler Palace‘‘ کے نام سے ایک شان دار محل بھی تعمیر کروایا۔نوّابانہ کرّوفر اور اخلاقی معائب سے کوسوں دُور رہنے والے مہاراجا کے اخلاق و کردار کی گواہی ممتاز مزاح نگار، شوکتؔ تھانوی نے شخصی خاکوں پر تحریر کی گئی مشہور کتاب’’شیش محل‘‘ میں اپنے مخصوص انداز میں دی ہے۔’’مہاراج کمار کے قصرِ فلک بوس، بٹلر پیلس پہنچا۔
اطلاع کروائی،فوراً طلب کر لیا۔مجسّم اخلاق بن کر ملے۔رمضان شریف کا زمانہ تھا، لہٰذا ذرا ہچکچا کر سگریٹ کے لیے پوچھا۔عرض کیا کہ’’ جی ہاں، کیا مضائقہ ہے۔‘‘سگریٹ کیس لے کر مہاراج کمار کی طرف جو بڑھا، تو تبسّم کے ساتھ ارشاد فرمایا،’’جی،روزہ‘‘۔اب بتائیے، مَیں کیا کروں۔روزہ تھا، تو آپ نے ایک روزہ خور سے سگریٹ کے لیے پوچھ کر اس کو کیوں بے موت مارا…خیال یہ تھا کہ رئیس ابنِ رئیس ابنِ رئیس ہیں۔
بٹلر پیلس میں رہتے ہیں۔شطرنج یا گنجفے یا کم سے کم برج سے شغل ہو رہا ہو گا، ممکن ہے، گانا ہو رہا ہو،مگر وہاں ہو رہا تھا روزہ۔بٹلر پیلس میں رمضان شریف نظر آیا۔حیرت ہی تو ہو گئی۔اب بتائیے کہ جب یہ بلند مرتبہ لوگ بھی اِس طرح صوم و صلوٰۃ شروع کر دیں گے، تو ہم غریب غرباء آخر کیا کریں گے۔
ہائے، ہماری عبادتیں بھی چھینی جا رہی ہیں۔یعنی ہم سگریٹ پیتے ہیں اور مہاراج کمار صاحب روزہ رکھتے ہیں‘‘۔’’بٹلر پیلس‘‘ کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں قائدِ اعظم محمد علی جناح، گاندھی جی، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو، سروجنی نائیڈو، حسرت موہانی، چوہدری خلیق الزماں اور خود یوپی کے گورنر ہارٹ بٹلر بھی ہندوستان کی بدلتی سیاسی صُورتِ حال پر تبادلۂ خیال کرتے۔
یہی وہ زمانہ تھا کہ قائدِ اعظم محمّد علی جناح سے میل جول، قریبی روابط میں ڈھل گیا اور خود قائدِ اعظم کی خواہش پر مہاراجا نے اپنے کم سِن صاحب زادے، محمّد امیر احمد خاں کو قائدِ اعظم کے حوالے کر دیا۔قومی تحریکوں میں حصّہ لینے کے باعث مہاراجا کو انگریزوں کی مخالفت بھی مول لینا پڑی۔مہاراجا کے والد اور وہ خود طبیعتاً حُریت پسند تھے۔مہاراجا محمّد علی محمّد خاں کو بھی ادب سے دلی لگاؤ تھا۔مختلف اصنافِ سُخن میں شعر کہتے۔غزل میں’’ ساحرؔ‘‘ اور’’محب‘‘ تخلّص اختیار کیا تھا۔’’ مراثیٔ محب‘‘ کے عنوان سے مرثیوں کا مجموعہ شائع ہوا۔
میر نفیسؔ کے نواسے، سیّد علی محمّد عارفؔ سے مشورۂ سخن کرتے۔بیان کیا جاتا ہے کہ مہاراجا ایک مشاعرے میں مدعو تھے، جہاں ریاضؔ خیر آبادی جیسے مسلّم الثبوت استاد بھی موجود تھے۔ مہاراجا نے اپنی غزل پیش کی اور جب یہ شعر پڑھا؎جو آج پی ہو، تو زاہد حرام شے پی ہو… یہ کل کی پی ہوئی مے کا خُمار باقی ہے۔‘‘تو ریاضؔ خیر آبادی نے برجستہ شعر پڑھا؎ مِرے حضور کے اِس شعر کا جواب نہیں…بہت ہی خُوب کہا ہے’’ خمار باقی ہے۔‘‘کہنے والے ریاضؔ خیر آبادی کو اُردو شاعری میں’’ خمریات‘‘ کا امام بھی کہتے ہیں، اگرچہ اُنہیں ’’لُطفِ مے‘‘ سے قطعاً واقفیت نہیں تھی۔ تاہم، اُن کا یہ شعر خمریات میں آج بھی بے مثال سمجھا جاتا ہے۔ ؎ اِک ہمی ہیں کہ بہک جاتے ہیں توبہ کی طرف…ورنہ رِندوں میں بُرا چال چلن کس کا ہے۔
مہاراجا کی دو شادیاں تھیں۔ پہلی شادی سادات کنتور، ضلع بارہ بنکی میں ہوئی۔اہلیہ کا نام، ذاکیہ بیگم تھا۔بڑی مہارانی کہلائی جاتی تھیں اور یہ لکھنؤ کے مشہور عالمِ دین، سیّد ناصر حسین کی، جو’’ ناصر الملّت‘‘ کہے جاتے تھے، سگی بھانجی کی صاحب زادی تھیں۔ مہاراجا کا انتقال مئی 1931ء میں، جب کہ راجا صاحب کی والدہ کا انتقال 1940ء میں ہوا۔ماں کی وصیّت کے مطابق تدفین کربلائے مُعلّیٰ میں عمل میں آئی۔
انتقال کے وقت بیٹا، یعنی راجا صاحب قومی جذبے اور خدمت کے احساس کے ساتھ ہزاروں میل دُور بمبئی(اب ممبئی) میں مسلم لیگ کی مالی و انتظامی نگرانی کے اُمور میں شب و روز مصروف تھے۔اولاد میں دو صاحب زادیاں، باقر النساء، صادق النساء اور دو صاحب زادے، راجا امیر احمد خاں(راجا صاحب محمود آباد) اور راج کمار محمّد امیر حیدر شامل تھے۔دوسری اہلیہ کا نام بھی ذاکیہ بیگم تھا،تاہم بیگم باسو کے نام سے مشہور تھیں اور چھوٹی مہارانی کہلاتی تھیں۔چھوٹی مہارانی سے دو صاحب زادے، محمود حسن خاں اور امیر علی خاں تھے۔راجا صاحب محمود آباد نے غیر مُلکی سام راج سے بغاوت اپنے بزرگان سے گویا وراثت میں پائی تھی۔
والد کی زبانی بچپن میں 1857ء کی انگریزوں کے خلاف ہونے والی بغاوت کے واقعات نے اُن میں پروان چڑھنے والی آتشِ حُریّت کو بے انتہا بڑھاوا دے دیا تھا۔والد سے ملاقات کو آنے والی شخصیات سے گفتگو میں دربارِ اودھ کے قصّے اور 1857ء میں رونما ہونے والی بغاوت کی داستانیں لازمی موضوعات کی شکل ہوتیں۔ یوں دھیرے دھیرے کم سِن راجا میں غیر مُلکی اقتدار و تسلّط کے خلاف ایک نئی بغاوت جنم لینے لگی۔بچپن اِس طرح بسر ہوا کہ مولوی غلام حیدر سے درسِ قرآن دِلوایا گیا۔
انگریزی پڑھانے کے لیے اُس وقت کے بہترین اتالیق، ماسٹر رضی احمد کی خدمات حاصل کی گئیں۔ابتدائی تعلیم کا یہ دَور ایسا مذہبی اور اخلاقی رنگ لیے ہوئے تھا کہ بڑوں کا ادب و احترام، چھوٹوں کا لحاظ، پیار، محبّت اور یگانگت، نماز روزے کی پابندی، صبح بیدار ہونے کے بعد نماز کی ادائی کرتے ہی بزرگوں کی خدمت میں پئے سلام حاضری دینا، وہ معمولات تھے، جو ذہن میں ایسے راسخ ہوئے کہ تاعُمر اُن پر گام زن رہے۔اسکول کی تعلیم شروع ہوئی، تو برّصغیر سیاسی بھنور کی زَد میں آ چُکا تھا۔
پے درپے ہونے والے واقعات نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بِٹھا دی تھی کہ انگریزوں کو اپنی سر زمین سے نکالنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چُکا ہے۔لوگ انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار مقامی اور قومی رہنماؤں کی بہت قدر کرتے۔کالج کے زمانے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ راجا صاحب کے کسی استاد نے ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے خلاف چند نازیبا کلمات ادا کر دیے۔عنفوانِ شباب میں جاتے راجا کے ذہن میں انگریزوں کے خلاف بچپن سے سُنائی جانے والی کہانیوں نے پہلے ہی بہت اثر مرتب کیا ہواتھا، لہٰذا طالبِ علم نے نتیجے سے بے نیاز، انگریز استاد کی طرف کتاب کھینچ ماری۔
کلاس ہی میں کیا، پورے کالج میں ہنگامہ مچ گیا۔تعلیمی ادارے کے بنائے گئے انتظامی قواعد یا ’’ کوڈ آف کنڈکٹ‘‘ میں واضح طور پر درج تھا کہ استاد کے خلاف کسی طالبِ علم کے ناروا یا جارحانہ سلوک کی سزا کے طور پر اُسے کالج سے فوری طور پر خارج کر دیا جائے گا۔تاہم، مہاراجا اپنے بیٹے کی تعلیم کے سلسلے میں پرنسپل کو دو سو روپے ماہانہ ادا کرتے تھے، جو اُس وقت کے لحاظ سے اچھی خاصی رقم تھی، لہٰذا پرنسپل نے اِس معاملے کو رفع دفع کرنے ہی میں مصلحت جانی۔
اگرچہ دولت کی فراونی تھی،تاہم ’’ بدیسی مال سے نفرت‘‘ کی قومی تحریک سے متاثر عنفوانِ شباب میں قدم رکھنے والے راجا نے’’ کھدّر پوش‘‘ ہو جانے میں کوئی تاخیر نہ کی۔ اس عنوان سے ایک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ مہاراجا کی دعوت پر پنڈت موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو اُن کے یہاں چند دِنوں کے لیے مہمان بن کر رہے۔راجا صاحب مہمانوں کے سامنے کھدّر سے بنا لباس پہنے کھانے کی میز پر پہنچ گئے۔
مہاراجا نے لباس دیکھ کر کچھ اظہارِ ناپسندیدگی کیا۔جواہر لال نے راجا صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ’’ کھدّر تو مَیں بھی پہنتا ہوں،مگر یہ کسی حد تک نفیس ہے اور تم نے کھدّر کی بجائے گاڑھے کا انتخاب کیا ہے۔مَیں تمہارے لیے نفیس کھدّر کے چند تھان منگوا دیتا ہوں۔ اب اُن ہی کا استعمال کرو۔‘‘یوں راجا صاحب، پنڈت نہرو کے سامنے ہمیشہ اُن ہی کے منگائے گئے کھدّر کا استعمال کرتے۔اسکول کے بعد لامائیز کالج، لکھنؤ میں داخلہ لیا۔یہیں سے سینئیر کیمبرج کی تعلیم مکمّل کی۔
غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی لگاؤ تھا۔ ہاکی، فُٹ بال اور کرکٹ جیسے کھیلوں میں حصّہ لینا ذہنی و جسمانی سکون فراہم کرتا۔وہ محض نام کے راجا نہ تھے، بلکہ پشتینی رئیس تھے،تاہم طبیعت کی طہارت کا یہ عالم تھا کہ والد کے انتقال کے بعد جب والیٔ ریاست ہوئے، تو حکم جاری کیا کہ میری موجودگی میں کسی نامحرم یا جوان خاتون کو محل میں نہ آنے دیا جائے، سوائے اُن خواتین کے جنہوں نے مجھے بچپن میں گودوں میں کِھلایا تھا اور جو میرے لیے مثل میری والدہ ہیں۔کثافت اور آلودگی سے راجا صاحب کے مزاج کو کوئی علاقہ ہی نہ تھا۔
قائدِ اعظم، محمّد علی جناح سے مہاراجا کے مراسم بڑھتے بڑھتے بے تکلّفی کی سرحدوں تک آ پہنچے۔ پھر تو یوں ہوتا کہ قائدِ اعظم جب بھی سیاسی سرگرمیوں کے پیشِ نظر لکھنؤ آتے، تو مہاراجا کے مہمان ہوتے۔راجا صاحب، قائدِ اعظم کو اپنے والد کے قریبی دوست ہونے کے باعث چچا کہا کرتے۔یہی وجہ تھی کہ راجا صاحب کے نکاح کی تقریب، جو بہت کم عُمری میں راج کماری کنیز عابد سے انجام پائی تھی، نہایت شان و شوکت سے منعقد کی گئی۔دُور و نزدیک کی بہت سی ریاستوں سے والیانِ ریاست یا تو خود شریک ہوئے یا اپنی نمائندگی یا نیابت کے لیے کسی نہ کسی کو روانہ کیا۔
نمایاں ترین نوابین میں نواب رام پور، سَر سیّد حامد علی خاں بہادر بھی شامل تھے، جنہوں نے رام پور میں فنِ تعمیر کی ایک تاریخ رقم کی۔اپنے اس شوق میں کمال دِکھانے کے لحاظ سے کچھ لوگ اُنہیں’’شاہجہانِ ثانی‘‘ بھی کہتے ہیں۔سیاسی عمائدین میں سب سے ممتاز شخصیت، قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کی تھی، جنہوں نے بمبئی سے لکھنؤ آ کر نکاح کی تقریب میں شرکت کی۔ اُنہوں نے زیورات کی صُورت جو تحائف دیئے، اُن کی مالیت لگ بھگ پانچ ہزار روپے تھی۔
1920ء کا عشرہ ہندوستانی سیاست میں اگر’’ عشرۂ احتجاج‘‘ تھا، تو1930ء کا عشرہ ہندوستان کے لیے’’ سیاسی تبدیلی کی جانب بڑھتا عشرہ ‘‘قرار دیا جا سکتا ہے۔1930ء میں راجا صاحب نے اپنی ذات کے حوالے سے فیصلہ کیا کہ مادّی آسائشات کا استعمال محض سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی حد تک کیا جائے گا اور یوں جاہ و حشمت کو ٹھکرا کر ایک راجا نے قلندرانہ طرزِ حیات اپنانے کا جو حیران کُن فیصلہ کیا، اُس پر وہ پوری زندگی کاربند رہا۔1931ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد جب اُنہوں نے ریاست کا انتظام سنبھالا، تو محمود آباد، اودھ کی متموّل ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔1933ء میں’’ مسلم یونٹی بورڈ‘‘ قائم کیا گیا، جس میں دیگر ممتاز شخصیتوں کے علاوہ راجا صاحب محمود آباد بھی تھے۔اِسی سال راجا صاحب لندن گئے۔
قائدِ اعظم بھی اُن دنوں وہیں تھے۔جب راجا صاحب کی اُن سے ملاقات ہوئی، تو قائدِ اعظم نے اُن سے عملی سیاست میں حصّہ لینے اور ہندوستان کو غیر مُلکی تسلّط سے آزاد کروانے میں کی جانے والی کوششوں میں شامل باقاعدہ طور پر شامل ہونے کا مشورہ دیا اور دراصل، وہیں سے راجا صاحب نے قائدِ اعظم کے مشورے اور اپنے دل کی آواز پر لبّیک کہا۔1936ء میں قائدِ اعظم نے ’’ سینٹرل پارلیمینٹری بورڈ‘‘ بنایا۔نام زَد اراکین میں محمّد اقبال، لیاقت علی خاں، حسین شہید سہروردی، اسماعیل چندریگر، مرزا ابوالحسن اصفہانی اور نوجوان راجا صاحب محمود آباد شامل تھے۔
اب نوجوان راجا صاحب محمود آباد نے مسلم لیگ کی مالی اعانت کے لیے رات دن کام کرنا شروع کر دیا۔ ہر چند کہ اُن کے مراسم کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ بہت گہرے تھے اور پنڈت نہرو سمیت کئی ہندو رہنماؤں نے اُنہیں قائدِ اعظم سے دُور رکھنے کی سر توڑ کوششیں کیں۔تاہم، راجا صاحب نے قائدِ اعظم کا مان نہیں توڑا اور مسلم لیگ کے لیے درکار مالی امداد کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔1937ء میں اُن کی زیرِ نگرانی’’ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے برّصغیر میں طلبہ کی سطح پر جڑیں پکڑ لیں۔A Nation In Turmoil- Nationalism And Ethnicity In Pakistan, 1937-1958کے مصنّف، یونس صمد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ آکسفورڈ یونی ورسٹی میں Tapan Raychaudhuri کی زیرِ نگرانی تکمیل پایا۔ اپنی ڈاکٹریٹ کی تحقیق میں وہ بیان کرتے ہیں:’’متحدہ یوپی کی ریاستوں میں مسلم لیگ کے امور پر جناح کی مکمل گرفت اور لیگ میں بیرونی مداخلت کے خاتمے کے بعد اُنہوں(قائدِ اعظم)نے کانگریس کی قیادت پر سخت جوابی وار کیے،جس کی علماء کی جانب سے حمایت اور امیر احمد خاں، راجا محمود آباد کی جانب سے بھرپور مالی معاونت کی گئی۔‘‘
گفتگو 1937ء کے انتخابات کے بعد اُبھرنے والے سیاسی منظر نامے کی ہے۔راجا صاحب کی قائدِ اعظم کے لیے مسلسل کی جانے والی حمایت پر اُس وقت کے یوپی کے گورنر،سر ہیری ہیگ نے اُنہیں باز رکھنے کی تلقین کرنے کے ساتھ، قائدِ اعظم کا ساتھ نہ دینے کا اوّلاً مشورہ اور ثانیاً ساتھ دینے کی صُورت میں ریاست ضبط کرنے کی دھمکی کا روّیہ اپنایا۔تاہم، فقیر مَنش راجا نے پاکستان اور قائدِ اعظم کی حمایت کو حق اور سچ کی حمایت کے مصداق قرار دیا۔پھر اگلے دس برس، یعنی پاکستان کے قیام تک ریاست محمود آباد کا یہ درویش راجا، اپنی ریاست کے خزانے کو پاکستان کی تحریک پر خرچ کرتا رہا۔
جیسے کردار کی پاکیزگی و بلندی اور انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی تڑپ راجا صاحب کو آبا و اجداد سے وَرثے میں ملی تھی، ویسے ہی اُن میں ادب سے والہانہ لگاؤ بھی اپنے بزرگوں سے آیا۔ بہت سے نام وَر شاعر اور ادیب، راجا صاحب سے مستقل طور پر وابستہ تھے۔ عزیزؔ لکھنوی، ثاقبؔ لکھنوی، ظریف لکھنوی، سجّاد حیدر یلدرمؔ ایسے ہی ادبی ستارے تھے۔راجا صاحب کی حویلی میں منعقد ہونے والی ادبی صحبتوں میں صفیؔ لکھنوی، جوشؔ ملیح آبادی، سیّد آلِ رضاؔ، حکیم منّے آغا وغیرہ برابر شرکت کیا کرتے۔
راجا صاحب سب ہی سے بہت خلوص و احترام سے پیش آتے۔شاعروں اور ادیبوں کی مالی امداد میں پیش پیش رہتے اور وہ اِس طرح کہ جب بھی اُنہیں محسوس ہوتا یا کسی ذریعے سے اُنہیں اطلاع ملتی کہ کوئی شاعر یا ادیب مالی پریشانی کا شکار ہے، تو اپنے کسی خاص ملازم کے ہاتھ ایک بند لفافہ بھجوا دیتے اور ساتھ یہ ہدایت بھی کرتے کہ لفافہ اُن کے ہاتھ پر رکھنے کے بعد میرا سلام کہنا اور اُلٹے پیروں واپس چلے آنا۔
راجا صاحب کو راگ راگنیوں سے بھی لگاؤ ہوا اور اِتنا بڑھا کہ وائس پرنسپل، میرس میوزک کالج لکھنؤ، سیّد بڑے آغا سے باقاعدہ معلومات حاصل کیں اور سُر، لے اور تال ایسی گہرائی سے سمجھے کہ جب کبھی مخصوص مجالس میں سوز پڑھتے، تو لوگ وجد کرتے۔فوٹو گرافی، شکار، گھڑ سواری کا بھی شوق رہا۔ اُن کے اصطبل میں اعلیٰ نسل کے بہت سے گھوڑے تھے۔ریاست کے بچّوں میں پڑھنے لکھنے کے ساتھ کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے’’ حیدر اولمپک کلب‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ان سرگرمیوں کو اِس حد تک فروغ دیا گیا کہ 1942 ء میں’’ سہ روزہ غیر نصابی سرگرمیاں‘‘ اِتنے وسیع پیمانے پر منعقد کی گئیں کہ یوپی کے گورنر اور اہم شخصیات کھیلوں کی یہ سرگرمیاں دیکھنے کے لیے تین دن تک راجا صاحب کی مہمان رہیں۔راجا صاحب نے شمشیر زنی، بنوٹ اور کُشتی کا فن بھی باقاعدہ طور پر سیکھا اور مذکورہ فنون میں طاق، لکھنؤ کے استاد، مبارک حسین کی شاگردی اختیار کی۔اُن کا کتب خانہ واقع محمود آباد ہاؤس، قیصر باغ لکھنؤ ایک رئیس ابنِ رئیس کی کتاب سے والہانہ محبت کا شاہ کار تھا۔ہزار ہا کتابیں، نادر و نایاب مخطوطات، قلمی نسخے، غرض الفاظ و حروف کا ایسا خزانہ تھا کہ لفظ شناسی کے شائق اور تشنگانِ علم یہاں سے سیراب ہو کر نکلتے۔
14اگست 1947ء کو وہ مملکت وجود میں آئی، جس کے لیے ریاست محمود آباد کے راجا نے ساری دولت لُٹا دی تھی۔ ہندوستان میں حالات ابتر تھے۔ راجا صاحب پاکستان آئے،جہاں جشن کا سا سماں تھا۔حسّاس طبیعت راجا کو جشن کے جلو میں خون ریز واقعات نے اِس قدر بد دل کیا کہ وہ کراچی کا رُخ کیے بغیر کوئٹہ اور وہاں سے مقدّس مقامات کی زیارات کے لیے ایران چلے گئے۔اُن کے دیرینہ دوست، جمال میاں فرنگی محلی نے مشورہ دیا کہ اُنہیں قائدِ اعظم سے ملاقات کر کے مبارک باد دینی چاہیے۔
راجا صاحب کا جواب تھا کہ قائدِ اعظم یہ گمان کریں گے کہ مَیں اپنی خدمات کا صلہ چاہتا ہوں۔تاہم، راجا صاحب نے قائدِ اعظم سے اُن کے انتقال سے چند روز قبل کراچی میں آخری ملاقات کی۔وہ ایران کے بعد عراق چلے گئے،جہاں ایک عشرہ گزار دیا۔ چہ مگوئیاں ہوئیں کہ راجا صاحب کے قائدِ اعظم سے کچھ اختلافات کے باعث وہ پاکستان میں رہنے کو آمادہ نہیں ہوئے۔
فکر و نظر کے اختلافات کا پیدا ہونا اِس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ کوئی شخص ریاست کے وجود کا منکر ہے۔راجا صاحب نے چند اُمور میں قائدِ اعظم سے اختلافات کے باوجود اُن سے متعلق ہمیشہ اچھے خیالات کا اظہار کیا۔وہ بعد میں پاکستان آئے اور کلفٹن، کراچی میں قیام کرتے رہے۔ 1969ء میں راجا صاحب مستقل طور پر لندن چلے گئے۔وہ قبل ازیں بھی لندن میں قیام کر چُکے تھے اور پھر 14اکتوبر 1973ء کو عارضۂ قلب کے باعث لندن میں انتقال کر گئے۔
راجا صاحب بہت عُمدہ شاعر تھے۔ صنفِ مرثیہ اور غزل میں طبع آزمائی کرتے۔عربی، فارسی، اُردو، ہندی، انگریزی کے علاوہ فرانسیسی اور جرمن زبانوں سے بھی واقفیت تھی۔ وہ مشہدِ مقدّس، ایران میں مدفون ہیں۔اولاد میں دو بیٹیاں، راج کماری کاظم النساء عرف اُمت الحسین اور راج کماری رضا النساء عرف رباب مہدی اور بیٹے راج کمار محمّد امیر محمّد خاں عرف سلیمان میاں شامل تھے۔اُن کی چھوٹی صاحب زادی اور صاحب زادے ہندوستان ہی میں قیام پزیر رہے۔سلیمان میاں بھی اپنے والد ہی کی طرح سیاست، ادب اور فنونِ لطیفہ کے معاملات میں بے حد دل چسپی لیتے۔وہ یوپی اسمبلی کے بلامقابلہ ممبر بھی منتخب ہوئے۔
اُن کا انتقال حال ہی میں ہوا۔راجا صاحب محمود آباد کے بڑے داماد، سیّد محمّد امیر امام تھے اور حُرؔ کے قلمی نام سے نثر و نظم میں اپنی طبیعت کے جوہر دِکھایا کرتے تھے۔اُردو کے علاوہ انگریزی، فارسی اور کلاسیکی عربی پر عبور تھا۔لکھنؤ میں پیدا ہونے والے امیر امام حُرؔ کے والد، سیّد رضا امام وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔
اُن کی والدہ کا نام بی بی باقر النساء تھا۔ددھیال اور ننھیال دونوں ہی شمالی ہندوستان کے نام وَر اور صاحبِ توقیر گھرانوں میں شمار ہوتے۔اُن کے پَر دادا، نواب امداد امام اثرؔ کو پورے ہندستان میں شہرت حاصل تھی۔پٹنہ، بہار سے تعلق رکھنے والے امداد امام اثر کی’’ کاشف الحقائق‘‘،جسے’’بہارستانِ سخن ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور جو1897 ء میں شائع ہوئی تھی، شعری تنقید کی اہم ترین ابتدائی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔
اِس تصنیف میں اُردو اور فارسی شعریات کے علاوہ بین الاقوامی شاعری کے چند گوشوں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے۔ امداد امام اثرؔ نے مختلف موضوعات پر کئی اور کتابیں بھی تحریر کیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں۔پہلی شادی سے جو اولاد ہوئی، اُن سے شاید ہی کوئی پڑھا لکھا شخص واقف نہ ہو۔ اُن میں ہندوستان کے چوٹی کے قانون دان، سیّد علی امام تھے، جو امیر امام حُرؔ کے دادا تھے۔
سیّد علی امام کی قانون دانی کی غیر معمولی اہلیت کو دیکھتے ہوئے انگریزحکومت نے اُنہیں’’ سر ‘‘ کے خطاب سے نوازا، یوں وہ سَر علی امام کہلائے جانے لگے۔اُن کے چھوٹے بھائی، حسن امام بھی نامی گرامی وکیل تھے۔غرض، ریاست بہار کے دونوں بھائیوں کا پورے ہندوستان میں ڈنکا بجتا تھا۔ امداد امام اثر کی دوسری شادی ساٹھ برس میں ہوئی۔ دوسری شادی سے اُن کے آٹھ بچّے تھے۔
چار لڑکے، چار لڑکیاں۔ امیر امام حُر کی اسکول اور کالج کی تعلیم لکھنؤ میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے حُصول کے لیے وہ 1948ء میں برطانیہ چلے آئے اور Trinity College, Cambridgeمیں داخلہ لیا۔ یہاں سے اوّل اُنہوں نے تہذیب اور اُس کے ارتقائی مراحل پر مشتمل نصابی تعلیم Moral Sciences Tripos مکمّل کی۔ جن اساتذہ کی زیرِ نگرانی یہ تعلیم مکمّل کی، وہ جان وزڈم اور چارلس براڈ تھے۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے جو عنوان منتخب کیا، وہ تھا، Oriental Sciences Tripos۔ یہاں اُن کے اساتذہ ارتھ اربری اور جی ایم وکنز تھے۔
اِس درس گاہ کا حصّہ رہتے ہوئے اُنہوں نے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے دوست بنائے، جو آگے چل کر اپنے اپنے ممالک میں اعلیٰ سرکاری اور غیر سرکاری مناصب پر فائز ہوئے۔بینکنگ، ایڈور ٹائزنگ، تعلیم اور سیّاحت وہ شعبے تھے، جن میں تعلیم کی تکمیل کے بعد اُنہوں نے کام کیا۔بغداد، کراچی اور لندن وہ شہر تھے، جہاں اُنہوں نے اپنے کام کی نوعیت کے حوالے سے قیام کیا۔
اس تمام تر عرصے میں اُنہوں نے تخلیق کا سلسلہ چاروں زبانوں میں جاری رکھا۔ کبھی کتاب کی شکل میں، تو کبھی کسی رسالے میں مقالے کی صُورت میں اور کبھی اخبارات میں کسی کالم کے تحت یا کبھی کسی ادبی پرچے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کے سلسلے میں۔ پاکستان کے قیام کے بعد اُس کے ابتدائی چند عشروں میں ایک سے بڑھ کر ایک ادبی رسائل و جرائد شائع ہوا کرتے تھے۔
کراچی اور لاہور کی ادبی فضا کا تو پوچھنا ہی کیا، ڈھاکا اور دیگر شہروں سے بھی بہت عُمدہ ادبی پرچوں کا اجراء ہوتا تھا۔اُن ہی شان دار ادبی پرچوں میں کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ ’’ انشا‘‘ بھی تھا،جس کے مُدیر جونؔ ایلیا،جب کہ نگراں اور سرپرستوں میں رئیسؔ امروہوی اور سیّد محمّد تقی بھی شامل تھے۔ پرچے کے قلمی معاونین میں مذکورہ ناموں کے علاوہ بھی نام وَر ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات شائع کی جاتی تھیں۔
جون 1959ء کے شمارے میں رسالے کے مدیر کو سیّد امیر امام حُر نے ایک خط تحریر کیا۔ اس کے ایک مختصر سے اقتباس سے اُن کے طرزِ تحریر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:’’جنابِ جون ایلیاؔ، قرن بستم میں ہر طرف افکار کا تلاطم ہے اور علوم و انسانیت و آداب کی موجیں اس تلاطم کے نتیجے میں ہر گوشۂ حیات میں پہنچ رہی ہیں۔ اس تلاطم میں کسی گوشے کا خشک رہ جانا بعید از قیاس ہے۔زمین کا چپّا چپّا ان موجوں سے اوّل یا آخر سیراب ہو کر رہے گا۔
اس سے قبل بھی اس طرح کے دور آ چُکے ہیں، جب اجتماعی عدالت کے آوازے دنیا میں گونجے اور دور و دراز مناطق تک ان کی صدا پہنچی۔سدھارتا گوتما، سقراط، عیسیٰ ؑ بن مریمؑ، محمّدؐ بن عبداللہ،علیؓ بن ابی طالبؓ، حسینؓ بن علیؓ ، یہ سب اسی اجتماعی عدالت کے لیے زندگی بَھر کوشاں رہے اور اکثر اسی کی راہ میں مصائب بھی سہے اور بعض نے اس کی راہ میں جان بھی دے دی۔‘‘فلسفہ، نفسیات، تاریخِ اسلام اور ادب اُن کی تحریروں کا خاص موضوعات تھے۔
ریاضیات اور سائنس سے شغف اس کے علاوہ تھا۔کلاسیکی موسیقی اور فنونِ لطیفہ کی کئی ایک شاخوں سے بھی کافی دل چسپی تھی۔1950ء میں اُن کی شادی راجا صاحب کی صاحب زادی، امت الحسین سے انجام پائی، جن سے چھے بچّے ہوئے۔اُن کی تصنیف’’ سلسلۂ غم ‘‘ میں دس تضمینیں، طویل مسدّس، سلسلۂ فکر و عمل اور غالبؔ اور اُن کا عہد کے عنوان سے مقالہ شامل ہے۔
پاکستان میں دو قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک وہ، جنہوں نے پاکستان سے لیا اور دوسرے وہ، جنہوں نے پاکستان کو دیا۔دینے والوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ، جس نے پاکستان کو جزوی طور پر دیا اور دوسری وہ، جس نے کُلّی طور پر دیا۔
دوسری قسم کے افراد میں بھی، جن کی تعداد شاید چند ہزار نفوس پر مشتمل ہو، راجا صاحب شاید اُن گنے چُنے افراد میں سے تھے، جو اُسوۂ حُسینی پر کاربند، مزاجِ بوذری کے آئینہ دار، نفسِ امّارہ کے دشمن اور نفسِ مُطمئنّہ کے پیروکار تھے۔
شاہی رکھتے ہوئے، تونگری اختیار کرنا انسانوں میں ہو تو ہو، کم از کم آدمی کے بس سے باہر کا کام ہے۔سو، ذوقؔ کے اس شعر کا اطلاق شاید راجا صاحب کے علاوہ کسی اور پر نہیں ہو سکتا ؎جس انساں کو سگِ دنیا نہ پایا… فرشتہ اس کا ہم پایہ نہ پایا۔
راجا صاحب اور ضیاء محی الدین
پاکستان میں ریڈیو، ٹیلی ویژن سے وابستہ اور ہالی وڈ کی فلمز اور ڈاکیومینٹریز میں اپنی اداکاری و صداکاری کے جوہر دِکھانے والی قد آور شخصیت، ضیاء محی الدّین نے راجا صاحب کی شخصیت پر 6نومبر 2016ء کو ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھتے ہوئے تحریر کیا تھا۔ ’’مرزا غالبؔ کی عظمت مجھ پر لندن میں اُس وقت منکشف ہوئی، جب مَیں راجا صاحب محمود آباد سے ملا۔ راجا صاحب لندن میں مشہور ادیبہ، عطیہ حسین سے تبادلۂ خیالات کے لیے اکثر اُن کے فلیٹ پر جایا کرتے۔
پچاس کے وسط عشرے میں عطیہ حسین اور مَیں (ضیاء محی الدّین) بی بی سی اُردو سروس سے نشر ہونے والے ڈراموں کے مرکزی کردار ہوا کرتے تھے۔راجا صاحب کی گفتگو میں آواز، سُر اور لہجہ ہی نہیں تھا، بلکہ ایک چہکار تھی، جس نے مجھ پر گہرے اثرات مرتّب کیے۔
ہم اسے لہجے کے لوچ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ مَیں راجا صاحب کا شدید طور پر مقروض ہوں۔ اگر وہ اور اُن سے رہنے والی صحبتیں نہ ہوتیں، تو مجھے اُردو میں حُسنِ تکلّم کی وہ صلاحیت حاصل نہ ہوتی، جس نے مجھے اِس میدان میں کئی برس سے سُرخ رُوئی عطا کر رکھی ہے۔‘‘