ایک عام آدمی کسی غریب نواز ہوٹل میں دال کی پلیٹ سامنے رکھے روٹی کھا رہا تھا۔سامنے ٹی وی اسکرین پر ایک پارٹی کے سربراہ دوسرے سیاست دانوں کو چور، ڈاکو، وارداتیے ،ہیرا پھیریے، شوبازیے، پیسے بنانے والے، مے فیروالے، اندھیر نگری مچانے والے اور ہر وقت اپنے نفس کے موبائل پر کان دھرنے والے قرار دے رہے تھے اور فرما رہے تھے ملک تب بچے گا جب الیکشن ہوں گے پھر اس عام آدمی نے دال کے ساتھ ایک لقمہ ہاتھ میں تھاما اور جب اس کا ہاتھ منہ کے قریب پہنچا تو اس کے کانوں میں الیکشن کرائو‘الیکشن کرائو اور الیکشن کرائو ایک مدھر گیت کی صورت اختیار کرگیا اس عام آدمی کو شکم کے تنور میں بھڑکتی آگ بھول گئی اس نے لقمہ واپس رکھ دیا بلکہ الیکشن کرائو، کے رسیلے نغمے نے اس کی بھوک کو بہلا دیا اب وہ عام شخص جب ہوٹل میں آتا، آتے ہی ہوٹل کے کسی کارکن سے کہتا تصویروں والا ڈبہ کھول دو،تصویروں والا ڈبہ آن ہوتا تو وہ نغمہ الیکشن کرائو ،الیکشن کرائو اونچے سروں میں لگ جاتا یہ گانا اس کی روح کو طمانیت بخشتا جب یہ عام آدمی رات کوسونے کےلئے چارپائی پر دراز ہوتا تو اس کے کان میں اس نغمے کے بول رس گھولنے لگتے یہ نغمہ اس آدمی کو تمام رات بھی جگائے رکھتا پھر ایک دن وہ آیا جس دن الیکشن تھا اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اس عام آدمی کے ذہن میں یہ جملے گردش کر رہے تھے ملک بچ جائے گا غریب پیٹ بھر کر روٹی کھائے گا ۔غریب کے مسائل حل ہوںگے پولیس غریب آدمی کو کھا جانے والی نظروں سے نہیں دیکھے گی۔بہرحال اسے اپنی آنکھوں کےسامنے امیدوں کے تارے ہی تارے چمکتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ شخص صبح صبح تیار ہو کر بیٹھ گیا اور وقت سے پہلے پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گیا جب پولنگ ایجنٹ نے اس کے انگوٹھے پر سیاہی کا نشان لگایا تو اسے ایسے محسوس ہوا جیسے اس کے انگوٹھے پر’’ ملک بچ گیا‘‘ لکھا گیا ہے اور جب اس نے اپنے پسندیدہ امیدوار پر نشان لگا کر صندوقچی میں ووٹ ڈالا تو اس کی آنکھوںکےسامنے ملک بچنے کی قندیلیں روشن ہو گئیں۔وہ شخص پولنگ اسٹیشن سے باہر نکلا تو اس کا جی چاہا کہ وہ سڑک پر کھڑا ہو جائے۔ ہر آنے جانے والی کار، بس، ٹریکٹر ٹرالی، موٹر بائیک اور سائیکل کو روکے اور اپنے ہم وطنوں کے سامنے اور اونچے سروں میں یہ گانا گائے میرا ملک بچ گیا، میرا ملک بچ گیا، اس کا جی چا ہ رہا تھا کہ وہ بھنگڑا بھی ڈالے۔
کچھ دنوں بعد اسے پتا چل گیا کہ اسمبلیاں بیٹھ گئی ہیں ایک دن یہ عام آدمی قومی اسمبلی کی کارروائی سننے کے لئے وہاں پہنچ گیا اس نے جب قومی اسمبلی کی عمارت کی کرسیاں اور ڈیسک دیکھے تو دنگ رہ گیا اس سے قبل اس نے ایسی سجاوٹ اور شان وشوکت والی عمارت نہیں دیکھی تھی اس نے سوچا کہ صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کا یہ عالم ہے تو یہاں عزت، اخلاق کے اعلیٰ معیار اور ساری اچھائیوں کے انبار یہیں ہوں گے یہ پڑھے لکھوں اور اچھے انسانوں کی جگہ ہے۔ اوپر سے یہ لوگ ہمارے دکھ درد اور مسائل بیان کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ اجلاس شروع ہوا ایک پارٹی کے اہم لیڈر نےتقریر کا آغاز کیا ابھی اس نے پہلے دو جملے ہی کہے تھے پیچھے سے زور زور سے آوازیں آناشروع ہو گئیں گو زرداری گو، گو زرداری گو، جب وہ لیڈر کوئی جملہ کہتے آگے سے گو زرداری گو، گو زرداری گو کی چیخ وپکار شروع ہو جاتی لیڈر کوئی بات کرنے کی کوشش کرتاتو آگے سے جذباتی نعرے بلند ہوتے اب دوسری تقریر کا آغاز ہوا آگے سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں ہمیں حکومت دو، ہمیں حکومت دو، ہم سب سے بڑی جماعت ہیں، تم نااہل ہو، تم نالائق ہو، ہم اہل ہیں، ہم قابل ہیں، ہمچوما دیگرے نیست، وغیرہ یہ عام آدمی اسمبلی کے اراکین کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو سمجھ رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اب عام آدمی کی تکلیفوں یا مصیبتوں کی بات ہو گی پھر ایک بپھرا ہوا رکن اسمبلی اپنی سیٹ سے اٹھا اس نے جناب سپیکر کہہ کر کہا فلاں وزارت فلاں کو دے دی گئی ، فلاں محکمہ فلاں کرپٹ کے سپرد کر دیا گیابلکہ فلاں محکمے کی شادی فلاں سے کرا دی گئی یہ قوم کے ساتھ بھیانک مذاق ہے اب مذاق نہیں چلے گاکسی کی آواز آئی ’’اب دمادم مست قلندر ہو گا‘‘ تھوڑی دیر بعد ایک صاحب کو اظہار خیال کی اجازت ملی فلاں فلاں لیڈر فلاں فیلڈمارشل کی نرسری میں اگا تھا فلاں لیڈر نے فلاں مارشل کے گملے میں سر اٹھایا تھا۔فلاں نے فلاں کے ناک میں مہار ڈال کر اسے اسمبلی میں پہنچایا تھا فلاں فلاں حکومت کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر فلاں مارشل ایڈمنسٹریٹر تھے۔ توبہ کرو توبہ، پھر ایک دم دھنا دھن گالیاں، پہلے پانچ سیر کی گالی، پھر دس سیر کی گالی، پھر ایک من کی گالی، پھر پنچ من کی اس طرح ٹن ٹن کی گالیوں کی آوازیں سن کر اس عام آدمی نے اپنے کانوں میں انگلیاں رکھ لیں اس عام آدمی نے سوچا کہ میں ان پڑھ جاہل ہوں اس کا دس سال پہلے کسی سے جھگڑا ہو گیا تھا اس نے جھگڑا کرنے والے کو سخت سست بھی نہیں کہا تھا یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں تعلیم نے انہیں تنقید برداشت کرنے کا بھی حوصلہ نہیں بخشا۔میں تو ان لوگوں کا ووٹر ہوں میں تو اس لئے یہاں آیا تھا کہ یہ لوگ میرے بارے میں فکرمند ہوں گے میرے مسائل پر بات کریں گے، ساری آسائشیں، سارے آرام، ساری مراعات، سارے احترام، سارے کیس، سارے دکھ اور سارے شوق ان کے اپنے ہیں وہ عام آدمی چپکے سے اسمبلی سے نکلا اور سر پٹ دوڑنا شروع کر دیا راستے میں وہ کبھی کبھار اپنی آستینوں سے آنسو پونچھتا جاتا تھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)