1935ء کے ایکٹ کے تحت انگریز نے ہندوستان میں نئی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات کی بنیاد پر 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ میں سے سات صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں۔ ان وزارتوں کا زعم اور غرور اتنا زیادہ تھا کہ کانگریسی صدرپنڈت نہروکیلئے مسلم دشمن جذبات چھپانا ممکن نہ رہا۔اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ’’اب ہندوستان میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک برطانیہ اور دوسری کانگریس، تیسری کوئی طاقت نہیں‘‘۔ یہ بیان مسلمانوں کے وجود سے قطعاً انکار اور اس بات کی علامت تھا کہ کانگریس خالصتاً ایک ہندو جماعت تھی جس کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ ’’ایک وطن ایک قوم‘‘ کے نام پرانہیں دھوکہ دینا اور ان پر اپنی بالادستی قائم کرنا تھا۔ ایسے میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے نہرو کے بیان پر سخت گرفت کرتے ہوئے کہا ’’ہندوستان میں ایک تیسری طاقت بھی ہے اور وہ مسلمانوں کی طاقت ہے اس طاقت کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا‘‘۔ کانگریسی وزارتوں کے قیام کے ساتھ ہی جہاں جہاں کانگریس کو برتری ملی وہاں مسلمانوں کو حقوق سے مکمل محروم، ان کی تہذیب و تمدن کو معدوم اور ان کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا جانے لگا۔ کانگریس نے اس دوران جو مسلم کش اقدامات کئے ان میں سے چند ایک یہ تھے۔
1۔ بندے ماترم جیسے مسلم دشمن ترانے کو قومی ترانے کی حیثیت دے دی گئی۔2۔تعلیمی اداروں میں اردو کی جگہ ہندی نافذ کر دی گئی۔3۔ گائے کے ذبیحہ پر حکماً پابندی لگا دی گئی۔4۔ مسلمانوں کو ملازمتوں میں ان کے کوٹہ سے محروم کر دیا گیا۔ 5۔ ودیا مندر اسکیم جو دیومالائی ہندی خرافات پر مبنی تھی کا صوبہ مدھیہ پردیش میں اجراء کر دیا گیا۔ 6۔وہ صوبے جہاں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سرکاری سطح پر مسلم کش فسادات کو منظم کیا گیا اور فسادات سے متاثرہ مسلمانوں کیلئے انصاف کے حصول کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ 7۔ تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کو گاندھی کی پوجا، کانگریس کے جھنڈے کو سلام اور پرارتھنا میں شرکت پر مجبور کیا گیا۔ 8۔کئی علاقوں میں بلند آواز سے اذان کہنے کی ممانعت کر دی گئی اور مسلمانوں کو ملیچھ قرار دے کر کنوئوں سے پانی لینے سے محروم کر دیا گیا۔
کانگریس کے اس ایجنڈے سے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ابھی ادھوری آزادی ملی ہے اور کانگریس کا ہمارے ساتھ یہ سلوک ہے جب ہندوستان مکمل آزاد ہو گا اور کانگریس ہندوستان کے اقتدار پر پوری طرح قابض ہو گی تب ہمارا کیا بنے گا؟ اسی دوران لکھنو میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں بانی پاکستان محمد علی جناح جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے نے مسلمانوں کو اتحاد کا سبق دیتے ہوئے یہ باور کرایا کہ مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن، زبان وادب، اسماء و القاب، قاعدہ و قانون، رسوم ورواج اور تاریخ و روایت سب الگ ہیں۔مارچ 1940ء مسلم لیگ کے اجلاس میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی معرکۃ الآراء تقریر کے چند اہم نکات یہ تھے۔ میں خلوص دل سے ہندو مسلم اتحاد کا قائل ہوں جو مسلمان رہنما ہندو مسلم اتحاد کے داعی ہیں ان پر بھی اعتماد کرنے کو تیار ہوں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبوی ﷺ کی اس سلسلے میں کیا رہنمائی ہے؟ کیا یہ رہنما ہندو مسلم اتحاد کے لئے قرآن کریم اور احادیث سے بھی سرتابی کریں گے؟
اجلاس میں پیش کی جانے والی تاریخی قرارداد بہت لمبی چوڑی نہ تھی۔ اس قرارداد میں تقسیم ہند کا مطالبہ ان الفاظ میں کیا گیا تھا کہ بنگال، آسام، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو اکٹھا کر کے ایک مسلم ریاست تشکیل دی جائے۔ قرارداد کی منظوری پر کانگریس اور ہندو پریس نے اُدھم مچا دیا، قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کہہ کر مسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا، قیام پاکستان کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہندوستان کسی صورت تقسیم نہیں ہو گا تاہم مسلمانوں کے ولولے مائل بہ پرواز، ارادے پختہ اور عزائم مصمم تھے۔ نتیجتاً اس قرارداد کے صرف سات سال بعد پاکستان خواب سے حقیقت بن کر منصہ شہود پر آگیا۔ صرف اتنے سے وقت میں اتنے بڑے خواب کا شرمندہ تعبیر ہو جانا اور تصور پاکستان کا حقیقت بن جانا بلاشبہ تاریخ عالم کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوئوں سے ٹکرا جانے اور آمادہ ہو جانے پر مجبور کرنے والی بات یہ تھی کہ جنگ عظیم دوم کے بعد برطانیہ کا ہندوستان سے انخلا یقینی ہو چکا تھا۔ انخلا سے پہلے برطانیہ چاہتا تھا کہ اس کی فکری و سیاسی جانشین کانگریس ہندوستان کے اقتدار کی بلا شرکت غیرے مالک و حاکم بن جائے، اس صورت میں مسلمان ہندوئوں کے محکوم وغلام اور تابع مہمل بن کر رہ جاتے۔ مسلمانوں کو اس بات کی فکر تھی کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ ہمارا دین، عزت و آبرو اور جان و مال کیوں کر محفوظ رہ سکیں گے؟ مسلمانوں کو رام راج کی بالادستی کا یہ فارمولا کسی صورت قبول نہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس فارمولے پر عمل کی صورت میں وہ ہمیشہ کیلئے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ یہی فکر تھی جس نے مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابل لاکھڑا کیا۔
اس بات کو دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے بیک وقت مسلمان انگریز اور ہندوئوں سے ٹکرا گئے اور کیسے صرف سات سال کے عرصہ میں منزل مقصود کو پا گئے۔ سچی بات ہے کہ یہ سب لاالہ الا اللہ کی برکت تھی۔ آخر مسلمان کامیاب کیوں نہ ہوتے؟ کہ لاالہ الااللہ ان کی منزل، ان کی جان، ان کی پہچان، ان کی شناخت، ان کانصب العین اور راہ عمل تھا۔ لاالہ الا اللہ کا نعرہ ہی نظریہ پاکستان تھا۔ اسی پر پاکستان بنا اور قائم ہوا۔ جس کلمے اور نظریئے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا آج اسی کلمے پر عمل کرنے اور نظریہ کو حرزجان بنانے سے پاکستان کی بقا، تحفظ، استحکام ، سلامتی اور اس کے ازلی دشمنوں کا مقابلہ ممکن ہے۔ کیا ہوا اگر دشمن زیادہ ہیں! کیا ہوا اگر دشمن طاقتور ہیں! دشمن اس وقت بھی تھے، زیادہ بھی تھے اور طاقتور بھی تھے۔ وہ بھی ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کو مٹانے اور جھکانے کا عزم کئے ہوئے تھے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہو اور پاکستان قائم ہو مگر ان کے نہ چاہنے کے باوجود پاکستان بن گیا۔ جب پاکستان بنا اس وقت پورے ہندوستان میں صرف آٹھ کروڑ مسلمان تھے۔ آج پاکستان کے غیور مسلمانوں کی تعداد اٹھارہ کروڑ ہے۔ آج دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کو مٹانے کے خواب دیکھنے والے خود مٹ جائیں گے اور پاکستان قائم و دائم رہے گا۔اس وقت بھی برصغیر کے مسلمانوں اور اس وقت کی مسلم لیگ کے قائدین کے دل اپنے مظلوم کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ وہ ان کے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کے حل کیلئے ہر جگہ اور ہرآن آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ پس اب احیائے نظریہ پاکستان کا تقاضا، پاکستانی عوام، علماء، دانشوروں، کالم نگاروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین و کارکنان کا فرض ہے کہ وہ جب بھی 23مارچ کے حوالے سے گفتگو کریں، پاکستان کی سلامتی و استحکام کی بات کریں، دشمنوں کی سازشوں سے پردہ اٹھائیں تو مسئلہ فلسطین کا ذکر بھی کریں اور اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ قدیمی و پرخلوص محبت و عقیدت کا ذکر کرنا نہ بھولیں۔
مارچ 1940ء کے اجلاس کی اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے علیحدہ ریاست کے مطالبہ کی سب سے زیادہ تائید ان ریاستوں اور صوبوں کے مسلم لیگی نمائندوں نے کی تھی جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ یہ مسلمان کانگریس کے ڈھائی سالہ وزارتی دور میں ہندوئوں کی تنگ نظری، تعصب، خون آشامی، اسلام دشمنی کے بھیانک واقعات کا تجربہ و مشاہدہ کر چکے تھے۔ تب وہ صوبے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے ان کے نمائندوں نے اپنے ستم رسیدہ بھائیوں کو یقین دلایا تھا کہ جب آزاد اسلامی ریاست قائم ہو گی تو ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائےگا۔ یہ وعدے و معاہدے تھے جو ہندوستان بھر سے آئے مسلمانوں نے اسلام کی عظمت رفتہ کی شاہد شاہی مسجد کے بالمقابل ایک دوسرےسے کئے۔ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں نے اپنے وعدے پورے کر دیئے۔ پاکستان کے قیام کیلئے سب کچھ قربان کر دیا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہم نے ان کیلئے کیا کیا؟ وہ لوگ آج بھی پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ہمارے حکمران بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے بیتاب و بیقرار ہیں۔ حالانکہ بھارتی حکمرانوں کی اسلام اور پاکستان دشمنی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ نظریہ پاکستان کے اس وقت بھی دشمن تھا، آج بھی دشمن ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم بھی احیائے نظریہ پاکستان کا عہد کریں تاکہ پاکستان مضبوط ہو، اس لئے کہ مضبوط و مستحکم پاکستان ہی بھارت میں رہ جانے والے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔