• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب کا پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے ہے، ہمارا ملک ہے، ہماری دھرتی ہے، ہمیں دکھ ہے۔ ہم 1990ء تک بھارت سے آگے تھے، ہمارے پانچ سالہ منصوبوں سے کوریا، سنگاپور اور کئی ملک بن گئے مگر ہم پیچھے رہ گئے، 1990ء کے بعد معیشت کی گاڑی ریورس میںچلنا شروع ہو گئی۔ حالیہ بجٹ میں ٹیکسوں کی بہتات ہے، ٹیکسوں کا بوجھ لوگوں کی زندگیوںمیں تلخیاںپیدا کررہاہے، صرف ٹیکس بڑھانے سے معیشت پھل پھول نہیں سکتی، حیرت ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر ٹیکس بڑھا دیئے گئے ہیں۔ صرف ٹیکسوں کو بڑھا کر معیشت کو بحال نہیں کیا جا سکتا، اس کے لئے ہمیں اور بھی کچھ کرنا ہو گا۔ 1۔ ہمارے ملک کی آبادی کا بڑا طبقہ زراعت سے جڑا ہوا ہے، ہمیں زراعت کو جدید سائنسی بنیادوں پر ترتیب دے کر فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا، جتنی بھی بے آباد اور بنجر زمین ہے، اسے آباد کرنا چاہیے، کسانوں کو کھاد، تیل اور بجلی پر سبسڈی ملنی چاہئے۔ ہماری زراعت کی بہتری سے ہماری معاشی ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہو گی۔ اسی طرح ہمیں گوشت اور دودھ کی پیداواربڑھانے پر غور کرنا چاہیے تاکہ ملک سے ملاوٹ شدہ دودھ ختم ہو سکے اور گوشت کی کمی بھی پوری ہو۔ مذکورہ بالا اشیاء برآمد کی جا سکتی ہیں 2۔ ہمیں اپنی صنعتوں پر توجہ دینا ہو گی، ہماری انڈسٹری تقریباً بند ہو گئی ہے، صنعت کاروں کے پاس سیدھا بہانہ ہے کہ بجلی بہت مہنگی ہے، جب ہماری صنعت ہی نہیں چلے گی تو صنعتی پیداوار کیسے بڑھے گی۔ ہمارے ملک کے اپنے کاریگر کیا کریں گے؟صنعت کے بند ہونے سے لاکھوں مزدوروں کے چولہے بجھ چکے ہیں، ہمیں صنعتوں کی بحالی کی طرف جانا چاہئے۔ وہ ٹیکسٹائل لومز جو تیس سال بعد چالو ہوئی تھیں، وہ پھر سے بند ہو چکی ہیں۔ صنعت کا پہیہ چلے گا تو معیشت کا پہیہ چلے گا۔ 3۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا جائزہ لیتے وقت برآمدات کو دیکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے ہماری برآمدات کی جھولی خالی ہے، اس سلسلے میں تین چیزیں اہم ہیں۔ (1) ہماری زرعی پیداوار اتنی ہو کہ ہم فصلوں اور پھلوں کو برآمد کر سکیں۔ ہمارے پاس اتنے جانور ہوں کہ ہم گوشت اور دودھ باہر بھجوا سکیں۔ دوسرے نمبر پر صنعت بڑی اہم ہے، صنعتی پیداوار اتنی ہونی چاہیے کہ ہم بہت سی اشیاء دوسرے ممالک کو بھیج سکیں۔ زرعی اور صنعتی پیداوار کے علاوہ ہمارے پاس بیچنے کے لئے معدنیات ہیں، مثلاً ہم ریکوڈک اور سینڈک کے علاوہ کئی اور منصوبے شروع کر سکتے ہیں۔ تانبے اور سونے کے علاوہ قیمتی پتھروں کو بھی بیچا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں۔ ہمارے تین صوبوں میں گیس اور تیل کے ذخائر ہیں، ان سب کی پیداوار بڑھا کر ملک کی قسمت کو سنوارا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہماری قومی دولت کا بڑا حصہ تیل اور گیس کی درآمد کی نذر ہو رہا ہے۔ اگر ہم اپنی پیداوار بڑھا دیں تو اس بچت کے علاوہ کمائی بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے پاس تو دنیا کا بہترین قدرتی نمک ہے، ہم اس کی برآمدات بڑھا سکتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جب تک برآمدات نہیں بڑھیں گی تب تک معیشت نہیں سنبھلے گی۔ 4۔ دنیا کے بہت سے ممالک سیاحت سے چلتے ہیں، ہمارے پاس خوبصورت وادیاں، پہاڑ، دریا، صحرا، میدان اور ساحل سب کچھ ہے مگر ہم سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم تو 1100 کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی سے بھی فوائد حاصل نہ کر سکے۔ ہمارے ہاں سیاحت کیوں نہیں بڑھ سکی،اس کی کئی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ امن و امان کا مسئلہ ہے۔ ہم نے مذہبی سیاحت کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی حالانکہ تین غیر الہامی مذاہب بدھ مت، ہندو مت اور سکھ ازم کی جائے پیدائش ہمارا ملک ہے۔ ہم اگر ان تین مذاہب کے لوگوں کے لئے دروازے کھول دیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم نے ڈھائی تین ارب انسانوں کو ان کے مقدس مقامات تک رسائی دے دی۔ بدھ مت ملکوں میں چین، جاپان اور کوریا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ اگر ہم صرف ویزا فیس سو ڈالر رکھیں تو کروڑوں نہیں اربوں ڈالر کما سکتے ہیں پھر اس سے ہماری ٹرانسپورٹ اور ہوٹلوں کا کاروبار بھی بڑھے گا۔ 5۔ کہا جاتا ہے کہ ملکوں کی معاشی ترقی میں سب سے اہم سیاسی استحکام ہوتا ہے، سو ہمیں سچے پاکستانیوں کی حیثیت سے اس پر توجہ دینا ہو گی۔ جاتے جاتے احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے کہ

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کیلئے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

تازہ ترین