• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹس کاؤنسل اور سبزی کی دکان میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا

ناموَر ڈراما نگار، ڈاکٹر تاج رئیسانی سے مفصّل بات چیت
ناموَر ڈراما نگار، ڈاکٹر تاج رئیسانی سے مفصّل بات چیت

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

80ء کے عشرے میں پی ٹی وی، کوئٹہ مرکز کے ڈراما نگاروں میں ایک بہت نمایاں نام، ڈاکٹر تاج رئیسانی کا ہوا کرتا تھا، جنہیں کوئٹہ مرکز کے لیے پہلا ڈراما سیریل لکھنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ اُنہوں نے پی ٹی وی کے لیے دو درجن سے زائد سیریلز اور مختصر دورانیے کے ڈرامے لکھے۔ نیز، اُن کے تحریر کردہ افسانے بھی قومی سطح کے رسائل وجرائد میں چَھپتے رہے ہیں۔ 

براہوی زبان میں پہلا افسانوی مجموعہ بھی اُن کے کریڈٹ پر ہے۔بحیثیت میڈیکل آفیسر صوبے کے دُور دراز علاقوں میں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ہماری ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندان، علاقے اور تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرے دادا سبّی میں آسودۂ خاک ہیں کہ آبائی بسیرا وہیں تھا۔ والد، محمّد یوسف رئیسانی بھی ابتدائی ملازمت کے دنوں میں وہیں رہائش پذیر رہے۔وہ ریلوے میں ملازم تھے اور موسم کے مطابق گرم، سرد علاقوں میں نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔ بچّوں کی بہتر تعلیمی سہولتوں کے پیشِ نظر کوئٹہ میں قیام طویل ہوگیا۔ بہرحال، تعلیمی اسناد کے مطابق میری پیدائش 15اپریل1957ء کی ہے۔ میٹرک اسپیشل ہائی اسکول، کوئٹہ سے کیا۔

انٹرمیڈیٹ کے بعد بولان میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور تعلیم کی تکمیل پر بطور میڈیکل آفیسر تعیّنات ہوا۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سرکاری ملازمت کے سلسلے میں جانا ہوا اور ایک ڈراما نگار کے طور پر مقبولیت کی وجہ سے لوگوں نے ہر جگہ بے انتہا محبّت کا اظہار کیا۔ نیز، ایم پی ایچ کرنے کے بعد مختلف انتظامی عُہدوں پر بھی فائز رہا۔

س: ڈراما نگاری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

ج: ہمارے زمانے میں تھیٹر ہی ہوا کرتا تھا، جو تفریح اور لہو گرمانے کا واحد ذریعہ بھی تھا۔مَیں نے اسکول اور کالج کی سالانہ تقریبات کے لیے ڈرامے لکھنے شروع کیے، جس پر اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور یوں بھرپور پذیرائی نے مجھے قلم کاروں کے صف میں شامل کردیا۔

ایک زمانے میں کوئٹہ میں خاصے تھیٹر فیسٹیولز ہوا کرتے تھے، مَیں بھی اُن کا حصّہ بنا اور پھر اِس کام یابی نے مجھے ریڈیو تک پہنچایا، یہاں بھی کافی پذیرائی ملی۔ ٹی وی پروڈیوسرز کے رابطہ کرنے پر ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھے، تاہم اِس کے باوجود اب تک افسانے کا دامن زیادہ مہربان لگتا ہے۔

س: ڈراما لکھنے میں کسی سے باقاعدہ رہنمائی لی؟

ج: اگر آپ کا ادبی ذوق پختہ ہو تو سماج، لکھنے لکھانے میں خود بخود آپ کی رہنمائی کرتا ہے۔ میرا رحجان ڈرامے اور افسانے کی جانب تھا، جدھر دیکھا، کہانیوں اور کرداروں سے واسطہ پڑا، جنہیں مَیں نے معاشرے کے لیے بامقصد بنانے کی کوشش کی کہ ایک تخلیق کار پرندوں کی طرح اپنی اڑان اور سمت درست رکھنے کے لیے ہمیشہ آسمان کی وسعت سے استفادہ کرتا ہے۔

س: آپ نے جو دیکھا، اُس میں اہم کیا تھا؟

ج: قدرت نے ہمیں سب جہات میں دیکھنے کی صلاحیت دی ہے، ماسوائے عقبی جہت کے۔ انسان کی نامعلوم جہتوں میں جھانکنے کی طلب ہی نے اُس سے آئینہ تخلیق کروایا۔ میری رائے میں تو وسعتِ نظر اور وسعتِ خیال سے انسان زندگی کے نشیب وفراز سمجھ سکتا ہے، جس کا واحد وسیلہ ادب گردانا جاتا ہے۔

س: آپ اپنے کام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: جو مجھے اچھا لگا، وہ لکھا۔ اِس ضمن میں صرف یہی کہتا ہوں کہ انسان کو کلربلائنڈ نہیں ہونا چاہیے۔ سبزہ اور زمین اچھے دوست ہیں، انہیں دیکھنا اور انہیں اپنا مقدّر بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ پھول، تتلیاں اور چرند پرند ٹھکانے بدلنے پر مجبور ہوں گے، جب کہ مسائل کے دلدل میں پھنسنا ہمارا مقدّر بنتا جائے گا۔

س: پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کا پہلا سیریل آپ نے لکھا، اس کے علاوہ کون کون سے سیریلز لکھے؟

ج: اردو اور براہوی زبان میں دو درجن سے زائد سیریلز لکھ چُکا ہوں، جب کہ مختصر دورانیے کے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ پی ٹی وی، کوئٹہ مرکز کا پہلا سیریل’’ وہ کون ہے؟‘‘ کے علاوہ ناخدا، محراب خان شہید، شب گرد، ریتاور سنگ زاد وغیرہ لکھے۔

س: ٹی وی ایک نیا میڈیم تھا اور اکثر پروڈیوسر باہر سے آئے تھے، یقیناً مشکلات تو پیش آئی ہوں گی؟

ج: ہمارے ہاں باہر کا کوئی نہیں ہوتا۔ لاہور، کراچی اور دیگر شہروں سے یہاں آنے والے خود کو کوئٹہ ہی کا کہہ کر متعارف کرواتے ہیں۔ جب وہ ہمیں غیر نہیں سمجھتے، تو ہم اُنہیں کیسے باہر کا کہہ سکتے ہیں۔ کاظم پاشا، قاسم جلالی، کریم بلوچ، اقبال لطیف، اقبال حیدر، غفران امتیازی سمیت بہت سے پروڈیوسرز آئے اور دل لگا کر کام کیا۔ اور اُنھوں نے ہمارے پروڈیوسرز، قلم کاروں اور فن کاروں کی خُوب اعانت بھی کی۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے… (عکّاسی: رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے… (عکّاسی: رابرٹ جیمس)

س: آپ نے ڈرامے لکھنے چھوڑ دیئے، کیا اِس کی کوئی خاص وجہ ہے؟

ج: لکھنا، پڑھنا تو جاری ہے، البتہ کچھ مصروفیات کی وجہ سے ڈرامے نہیں لکھ پا رہا، ویسے ٹی وی کے اجاڑپن نے بھی ہمّت توڑ دی ہے۔ کوئٹہ سمیت پی ٹی وی کے تمام مراکز عدم دل چسپی اور مالی مسائل کا شکار ہیں۔کبھی یہی کوئٹہ مرکز کئی حوالوں سے اہم تھا۔ یہاں سے اردو، بلوچی، براہوی اور پشتو زبانوں میں پروگرام ہوا کرتے تھے۔ گویا ثقافتی تنوّع اس کا خاصّہ رہا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے سونے، چاندی کی سرزمین ہے۔

س: یہ شعبہ تو ایک انڈسٹری کا درجہ رکھتا ہے، پھر ایسے حالات سے کیوں دوچار ہے؟

ج: اِس وقت تو تمام ہی شعبہ جات پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔دنیا بَھر میں میڈیا اور فلم کا شعبہ اہم تصوّر کیے جاتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں اس کی بڑھوتری پر توجّہ ہے اور نہ ہی معیار پر۔ کسی بھی شعبے میں درکار صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، بس ادب، ثقافت، فلم اور ڈرامے کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوام کا قصور ہے اور نہ ہی تخلیق کاروں کا، اگر کم نظری کا معاملہ ہے، تو وہ پالیسی سازوں ہی کی طرف سے ہے۔

س: کیا کمٹمنٹ کی بھی کمی ہے؟

ج: خوف اور مغالطوں کا خاتمہ ضروری ہے کہ جب تک کنفیوژن کی سچوئشن ہے، کوئی کمٹمنٹ مستحکم نہیں ہوسکتی۔

س: کہیں مصنوعی ذہانت کسی کے لیے احساسِ کم تری کا باعث تو نہیں بن رہی؟

ج: اگر دنیا کے ساتھ ہم قدم نہیں ہوں گے، تو شکست و ریخت ہی سے دوچار رہیں گے۔ مصنوعی ذہانت بھی تو انسانی صلاحیتوں ہی کا مظہر ہے۔

س: آپ کو کس کے ساتھ کام کرتے ہوئے اچھا لگا؟

ج: جس کے ساتھ مجھے خود کو ریفائن کرنے کا موقع ملا، باقی ہاتھ پکڑ کر رہنمائی نہیں ہوتی۔ بنیادی آگاہی ضرور ملتی ہے، البتہ محنت اور دل چسپی کا انحصار آپ ہی پر ہوتا ہے۔

س: بیک وقت اردو اور براہوی زبان میں لکھنے کا تجربہ کیسا رہا؟

ج: یہ دونوں میری اپنی زبانیں ہیں۔ انسان جو زبان بولتا اور سمجھتا ہے، وہ اس کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ مادری زبان چوں کہ گھر کی زبان ہوتی ہے، زیادہ بولی جاتی ہے، تو اس میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا آسان ہوتا ہے۔ خصوصاً بچّوں کے لیے سمجھنے، بولنے اور زندگی سے متعلق آگاہی آسان ہوجاتی ہے۔ ہاں، براہوی کی نسبت اردو میں لکھنے پر زیادہ توجّہ دینی پڑی۔

س: سُنا ہے کہ ایک زمانے میں کوئٹہ آرٹس کاؤنسل کا طوطی بولتا تھا؟

ج: بالکل ایسا ہی تھا۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین، پروفیسر خلیل صدیقی، پروفیسر شمیم احمد، پروفیسر وارث اقبال، ڈاکٹر فاروق جیسے لوگ اس کا حصّہ تھے، جب کہ عطا شاد، خادم مرزا اور عین سلام کی نگرانی میں پروگرام ہوا کرتے تھے۔ آرٹس کاؤنسل کی عمارت کے بالمقابل مرحوم زمرد حسین کا پریس، کتابوں کی دُکان اور پبلشنگ کا ادارہ’’ قلّات پریس‘‘ ہوا کرتا تھا۔

میر گل خان نصیر، میرغوث بخش بزنجو، فیض احمد فیض، سبطِ حسن، حبیب جالب اور دیگر یہاں آیا کرتے تھے۔ آرٹس کاؤنسل کے زیرِ اہتمام قومی سطح کے مشاعرے، مذاکرے، سیمینارز اور موسیقی کے پروگرام ہوا کرتے تھے۔ اب تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آرٹس کاؤنسل اور سبزی کی دُکان میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔

س: تاج رئیسانی کی اپنی انفرادیت کیا ہے؟

ج: مَیں نے اپنے منفرد ہونے کا کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ انفرادیت کا مطلب خود کو دوسروں سے الگ تھلگ کرنا یا اپنے سماج سے کٹ جانا ہے، جو مجھے پسند نہیں۔ باقی رہی بات دوسروں کی، تو وہ اپنے انداز سے مختلف چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔

س: کیا حکومتوں نے ادب و فن کی سرپرستی چھوڑ کر بُرا کیا ہے؟

ج: بالکل بُرا کیا ہے اور اِسی وجہ سے مُلک میں امن وامان کا مسئلہ درپیش ہے، معاشی و اقتصادی طور پر نقصانات کا سامنا ہے، ہم بین الاقوامی طور پر شناخت کے مسئلے سے دوچار ہیں اور جہالت کو فروغ ملا ہے۔ ادیب اور فن کار صحیح معنوں میں عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، وہ قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں۔جس ادب کو اپنی قامت کے لیے حکومتی بیساکھی کی ضرورت پڑے، وہ معذور ادب کہلائے گا، حکومتیں ہمیشہ اپنی قامت بڑھانے کے لیے ادب کا سہارا لیتی ہیں یا پھر اسے دباتی ہیں۔

س: بلوچستان میں شعبۂ ادب کی تباہی کی کیا وجوہ ہیں؟

ج: نائن الیون کے بعد بلوچستان کی سرحد سے منسلک افغانستان تک امریکا کی رسائی، جنگی صُورتِ حال پیدا ہونے سے مُلک میں بے چینی کی سی فضا پیدا ہوئی۔ قتل وغارت گری، دھماکوں سے دیگر صوبوں کے ساتھ بلوچستان میں بھی حالات انتہائی مخدوش ہوئے۔ کسی نے اسے’’ گریٹ گیم‘‘ کا نام دیا، تو کسی نے حُکم رانوں کی غلط پالیسیز کا نتیجہ قرار دیا۔ اس تباہی کے اثرات جیسے جیسے نمایاں ہوتے گئے، عوامی مسائل اور بے چینیوں میں اضافہ ہوا۔

لکھنے لکھانے پر پابندیوں کی وجہ سے فلم، ڈراما اور پبلشنگ کا شعبہ خصوصی طور پر تباہ ہوا۔ دانش وَروں اور قلم کاروں کے مثبت کردار کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ لسانی، مذہبی اور علاقائی منافرت کو ہوا دی گئی، جس کی وجہ سے اقتصادی و معاشی مسائل پیدا ہوئے، علمی فضا مکدر ہوگئی، عوامی تعمیر و ترقّی کے ادارے مفلوج ہوگئے۔ ایک محلّے سے دوسرے محلّے میں جانے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ 

ایک عرصے تک لوگ اپنے گھروں تک محدود رہے۔ ظاہر ہے، اس تمام صُورتِ حال کا سب سے زیادہ اثر سوچنے سمجھنے والوں پر ہونا تھا اور منفی عناصر نے ہر شعبے میں فائدہ اُٹھانا تھا۔ فن، ابلاغ سے پنپتا ہے، جب ایک محلّے کے باسیوں کے لیے اگلی گلی نوگو ایریا ہو جائے، ایک مکان کے مکین دوسرے مکان کے مکینوں کے لیے اجنبی ہوجائیں، تو پھر سب سے زیادہ ضروری جان پہچان کی تجدید ہی ہوجاتی ہے۔

س: مہرگڑھ کی تاریخ گیارہ ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ اس تہذیبی سفر کو علم و ادب کے حوالے سے کس طرح دیکھتے ہیں؟

ج: اِس میں شک نہیں کہ خطّے میں بہت پرانی تہذیب کی دریافت ہوئی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سے برآمد ہونے والے نوادرات پر ہماری دسترس نہیں۔ فرانسیسی ماہرین نے جو بھی برآمد کیا، ساتھ لے گئے یا پھر وہ دوسرے بڑے شہروں کو منتقل کردئیے گئے۔ اِتنی بڑی تہذیب کو مِٹانے کی بھی سازش ہوئی۔ 

اس کے باوجود نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی کی کوششوں نے اس علاقے کو بڑی حد تک بچا تو لیا، تاہم ریاست نے نہ تو اسے اپنے لوک وَرثے میں باقاعدہ شامل کرنے کی سعی کی اور نہ ہی ماہرین کو وہاں تک رسائی میں مدد فراہم کی۔

س: براہوی زبان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: براہوی کو کبھی قوم کہا جاتا ہے، تو کبھی قبیلہ۔ میری تحقیق کے مطابق براہوی ایک قدیم پانی کی دیوی کا نام تھا، جو ایک عقیدے کا نام بھی ہے اور اس کے ماننے والوں کو بروہی یا براہوی کہا جاتا تھا۔ زبانیں بنتی رہتی ہیں اور جو زبانیں قومیں خود تخلیق کرتی ہیں، وہ پائے دار ہوتی ہیں اور میرے خیال میں زبانیں اُس وقت تک زندہ رہتی ہیں، جب تک گھروں میں ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ سو، براہوی زبان کے معدوم ہونے کا خدشہ محض ایک خدشے کے سِوا کچھ نہیں۔

س: ’’انجیر کا پھول‘‘ آپ کے براہوی افسانوں کا مجموعہ ہے، جو افسانوں پر مبنی اِس زبان کی پہلی کتاب بھی ہے، اس کے بعد آپ کی تخلیقات پر مبنی کوئی کتاب نہیں آئی؟

ج: یہ مجموعہ1982ء میں چَھپا تھا، اس کے بعد ڈراموں کی مصروفیات، تو کچھ ملازمت کے جھنجھٹ رہے۔بلوچی اور براہوی میں1950ء سے افسانے لکھے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں پبلشنگ اداروں کا دیر سے آنا، قیامِ پاکستان کے بعد پرنٹنگ پریس لگانے پر قدغن، اخبارات و رسائل پر پابندی سے صوبے میں ابلاغ کا معاملہ گمبھیر رہا۔ ویسے حال ہی میں، مَیں نے بین الاقوامی کلاسیک افسانوں کا براہوی میں ترجمہ کیا ہے۔

س: کیا واقعی اِن بگڑے حالات کے ذمّے دار عوام ہیں؟

ج: اِس لحاظ سے تو کہا جاسکتا ہے کہ مصنوعی منہگائی، ملاوٹ، پیسا کمانے کے غیر قانونی ذرائع کا استعمال، لڑائی جھگڑے، جھوٹ، حسد میں عوام پیش پیش ہیں۔ دوسری طرف مخلص، پڑھے لکھے سیاست دانوں کا گھیرائو کیا ہوا ہے، کیا اسمبلیوں میں تشریف فرما چند افراد کو چھوڑ کر باقیوں پر اعتبار کیا جاسکتا ہے یا وہ اِس قابل ہیں کہ آپ کے لیے قانون سازی کرسکیں یا آپ کے حقوق حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ یقیناً جواب نفی میں ہوگا۔ 

جب وہ خود نا اہل ہیں، تو وہ محکموں کی سربراہی کیسے کرسکتے ہیں۔نمائندگی کی بگڑی صُورتِ حال پر سابق چیف سیکرٹری، میر احمد بخش لہڑی نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ جب وہ ضیاء الحق کے زمانے میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعیّنات تھے، تو بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ 

ایک شخص اپنی سیاست اور رہنمائی پر اِترا رہا تھا، جب ہم پولنگ اسٹیشن سے رزلٹ لے کر باہر نکلے، تو اُس شخص کو بتایا کہ اُسے تو اُس کے گھر کے بھی ووٹ نہیں پڑے، اُسے شدید دھچکا لگا اور وہ اپنے ہی گھر کے ووٹ اِدھر اُدھر کیے جانے کی مہارت اور چال بازیوں پر ہکّا بکّا رہ گیا۔

س: آپ کے بچّے بھی آپ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں؟

ج: علمی گھرانوں میں بچّے اپنی راہ کا تعیّن خود کرتے ہیں۔ ادیبوں اور فن کاروں کے بچّے بھی جدید تقاضوں کے مطابق سوچتے ہیں۔ بڑا بیٹا، رائوسین تاج رئیسانی سِول سروس کے پی ایس پی گروپ کا حصّہ ہے۔ دوسرا بیٹا، سارنگ تاج شاداب ایرو اسپیس انجینئر ہے، بیٹی شنتاج ایم فِل کرچُکی ہیں اور حال ہی میں ایک مضمون نویسی کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ یوسف بدرسین نے زیبسٹ سے میڈیا سائنسز کی تعلیم حاصل کی ہے اور آج کل اینی میشن فلم’’ دی گلاس ورکرز‘‘ پر ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہا ہے۔

س: آپ کی گفتگو سے کہیں کہیں مایوسی بھی جھلکتی ہے، ایسا کیوں ہے؟

ج: شاید آپ کو ایسا محسوس ہوا ہوگا، وگرنہ مَیں تو ہرگز مایوس نہیں ہوں۔ ہاں، یہ بات ماننی چاہیے کہ دیگر شعبوں کے ٹُولز کی طرح میڈیا کا میکینزم بھی بدل چُکا ہے۔ زنجیریں پہنانے، رکاوٹیں پیدا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا کہ آج کا نوجوان دنیا میں ہونے والی تمام تر تبدیلیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔

س: اب تک کون کون سے ایوارڈ حاصل کرچُکے ہیں؟

ج: پی ٹی وی ایوارڈ، بلوچستان آرٹس کاؤنسل اور بلوچستان ایکسی لینس ایوارڈ کے علاوہ کئی ایوارڈز اور گولڈ میڈلز حاصل کرچُکا ہوں۔ مکمل تعداد اور تفصیل یاد نہیں۔

س: آخری بات کیا کریں گے؟

ج: کرّۂ ارض آباد وشاداب، مثلِ سبزہ زار رہے۔

سنڈے میگزین سے مزید