• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں سالانہ کم و بیش پانچ لاکھ افراد فالج سے متاثر ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مُلک بَھر میں تقریباً پچیس لاکھ افراد مرگی کے عارضے میں مبتلا ہیں، جب کہ سر درد بھی پاکستان میں ایک عام دماغی عارضہ ہے۔ 

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف مائیگرین(دردِ شقیقہ) سے ڈھائی کروڑ سے زائد افراد متاثر ہیں۔ یہ تمام اعداد وشمار مُلک کے مختلف اسپتالوں میں ہونے والی تحقیقات کی روشنی میں مرتّب کیے گئے ہیں۔ 

اِن تحقیقات میں مزید بتایا گیا ہے کہ دماغی متعدّی امراض، مثلا گردن توڑ بخار یا سرسام وغیرہ سے بھی سالانہ کروڑوں افراد متاثر ہوتے ہیں اور پاکستان میں اِن دماغی عوارض کا تناسب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، جب کہ علاج معالجے کے اخراجات بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ 

صُورتِ حال اِس بات کی شدید متقاضی ہے کہ حکومتی وسائل، قومی سطح پر بیماریوں سے بچاؤ کی تدابیر و آگاہی پر خرچ ہوں اور یہی وہ واحد راستہ ہے کہ جس کے نتیجے میں دماغی امراض کا تناسب کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اعصابی عوارض، درحقیقت انسانی زندگی پر عملی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے باعث روزمرّہ زندگی ہی متاثر نہیں ہوتی، نتیجتاً معاشی، اقتصادی اور سماجی مسائل بھی رونما ہوتے ہیں، جو فالج، دردِ شقیقہ(آدھے سر کا درد)، الزائمر (یادداشت کی بیماری)، گردن توڑ بخار اور مرگی جیسے عوارض کے ذریعے انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اِن عوامل کو آگاہی، رسائی و تعلیم کی مربوط کاوشوں کے ذریعے کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ 

خاص طور پر فالج 90 فی صد، ڈیمنشیا (یاد داشت کی بیماری)40 فی صد اور مرگی30 فی صد تک روکی جا سکتی ہیں، جب کہ دردِ شقیقہ، سر درد کی دیگر اقسام اور دماغی متعدّی امراض (انفیکشن ڈیزیزز)کے ضمن میں مؤثر حفاظتی اقدامات سے ان کے تناسب میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بہرحال، بیماریوں کے اثرات اور ان سے منسلک خطرات کے عوامل کم کرنے کے لیے بنیادی اور ثانوی سطح پر کام کی اشد ضرورت ہے۔

بنیادی بچاؤ (Primary Prevention): بنیادی بچاؤ سے مُراد یہ ہے کہ بیماریوں کے شروع ہونے سے قبل ہی اُنہیں روکنے پر توجّہ مرکوز کی جائے۔ بنیادی بچاؤ کی کوششوں سے معاشرے میں بیماریوں کی بجائے صحت بخش عوامل کی آگاہی پر زور دینا ہوگا اور اِس مقصد کے لیے سماجی و اقتصادی عوامل کو ملحوظ رکھتے ہوئے صحت بخش سرگرمیوں کے فروغ کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

اِس ضمن میں سب سے اہم قدم تو معاشرے کی اصلاح و صحت مند رہنے کے رویّوں سے متعلق ہے۔ نیز، بچاؤ کے ضمن میں طبّی خطرات سے متعلق معلومات کی فراہمی، کمیونٹی سطح پر بہتری کے اقدامات کا نفاذ، منہ اور دانتوں کی صفائی کا فروغ اور حفاظتی ٹیکوں جیسی خدمات اہم ہیں۔

ثانوی بچاؤ (Secondary Prevention):ثانوی روک تھام میں بیماری کا پتا لگانے اور پیدائشی خرابی کی روک تھام کے لیے شواہد پر مبنی اسکریننگ پروگرامز شامل ہیں۔نیز، بیماری کے ابتدائی مراحل میں ثابت شدہ مؤثر انسدادی ادویہ کا انتظام کرنا بھی اِس عمل کا حصّہ ہے۔اِس ضمن میں یہ نکات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

دماغی صحت اور روک تھام: دماغی امراض کا فوری پتا لگانے جیسے اقدامات معاشرے پر اِن بیماریوں کے بوجھ میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔

آگاہی: دماغی صحت سے متعلق معاشرے کے تمام طبقات کے لیے بڑے پیمانے پر آسان زبان و انداز کے ذریعے آگاہی نہ صرف قومی بلکہ ایک عالمی ضرورت ہے۔

رسائی: سماجی و اقتصادی حیثیت یا جغرافیائی محلِ وقوع دماغی عوارض کی روک تھام کے اقدامات میں رکاوٹ نہیں ہونے چاہئیں۔

یادداشت کی کمی کو روکنے اور دماغ کی بہتر صحت کے لیے یہ اقدامات ازحد ضروری ہیں۔

باقاعدگی سے ورزش: جسمانی ورزش، دماغ کے لیے خون کے بہتر بہاؤکا باعث ہے، جس کے نتیجے میں دماغی خلیے نشوونما پاتے ہیں۔

سماجی ربط و تعلق: ہم سماجی طور پر جس قدر فعال ہوں گے،ہمارا دماغ اُسی قدر بہتر کام کرے گا۔ دوست احباب اور عزیز رشتے داروں سے جُڑے رہیں کہ یہ جذباتی بہبود اور صحت مند دماغ کے لیے ضروری امر ہے۔

نشہ آور اشیاء سے مکمل پرہیز: ہر طرح کی منشیات کا استعمال دماغ کے خلیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔دماغی وجسمانی تناؤ میں کمی کے لیے مختلف طریقے کام میں لائے جاسکتے ہیں۔ جیسے گہرے سانس لینا، مراقبہ یا یوگا کرنا۔واضح رہے کہ تناؤ، دماغی صحت کے لیے نہایت خطرناک اور بہت سے عوارض کا باعث ہے۔

سر کی حفاظت: کسی بھی قسم کی سواری یا کھیل کے دَوران اپنے سر کی مؤثر حفاظت نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا، موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ اور گاڑی چلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ لازماً استعمال کریں تاکہ کسی حادثے کی صُورت میں دماغی/ سر کی چوٹ سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔

پانی اور دماغی صحت: دن بھر میں (عموماً صبح سے شام 7 بجے تک) پانی یا پانی والی اشیاء کا مناسب مقدار میں استعمال ضروری ہے۔ نیز، ایسی دماغی سرگرمیوں کا حصّہ بنیں، جو خوشی و فرحت کا باعث ہوں۔

نیند: رات کو کم و بیش سات سے نو گھنٹے کی پُرسکون نیند ایک صحت مند دماغ کے لیے ضروری ہے۔ رات کی معیاری نیند نہ صرف دماغی فاسد مواد کو ختم کرنے کا سبب ہے، بلکہ انسانی یاد داشت کی بہتری میں بھی معاونت کرتی ہے۔

متوازن غذا: دماغی عوارض سے بچاؤ کے لیے متوازن، معیاری اور سادہ غذا استعمال کرنی چاہیے۔ بے وقت کھانا پینا، مرغّن و غیر متوازن اشیاء کا استعمال انسانی جسم، بشمول دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیں موسمی سبزیوں، پھلوں، اناج، گوشت، مرغی اور مچھلی وغیرہ کو اپنی خوراک کا حصّہ بنانا چاہیے۔

یاد رہے، دماغی امراض کی عالمی نمائندہ تنظیم، عالمی فیڈریشن برائے نیورولوجی (WFN) اور چھے دیگر عالمی انجمنوں نے 2024 کے’’عالمی یومِ دماغ‘‘ کے لیے مشترکہ طور پر ایک تھیم’’دماغ کے امراض سے بچاؤ: آگاہی، جَلد تشخیص، مؤثر و بروقت علاج ہی سے ممکن ہے اور یہی ہمارے مستقبل کی حفاظت ہے‘‘ مقرّر کیا ہے۔

( مضمون نگار، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئیر رُکن، پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے صدر اور لیاقت کالج آف میڈیسن، کراچی سے منسلک ہیں)