• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان نے ہیگ میں ہونے والی عالمی جوہری سلامتی کانفرنس کے موقع پر ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ اسے ایٹمی سپلائرز گروپ میں شامل کیا جائے اور جوہری مواد کی برآمد کو کنٹرول کرنے والے تمام بین الاقوامی اداروں کا غیرامتیازی طور پر رکن بنایا جائے کیونکہ وہ ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور اس نے جوہری تنصیبات اور مواد کے تحفظ کے لئے سخت اقدامات اٹھائے ہیں جنہیں وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ بھی کیا جا رہا ہے۔ جوہری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے بھی اس حوالے سے کانفرنس کے شرکاء کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، ہمارے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ہم جوہری عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتے ہیںاور جوہری سلامتی کے لئے دوسرے ممالک کو تربیت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پاکستان کے سرکاری بیان اور وزیراعظم کی مدلل تقریر کے بعد ایٹمی سپلائرز گروپ اور ایٹمی برآمد کے اداروں کارکن بننے کے متعلق پاکستان کی اہلیت کے بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہنی چاہئے۔ دراصل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھارتی لابی کے زیراثر مغربی ممالک میں شروع ہی سے بہت پراپیگنڈہ کیا گیا کبھی ہمارے ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا گیا اور کبھی یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔پہلے تو یہ بات سب پر واضح ہونی چاہئے کہ پاکستان نے ایٹم بم محض اپنا شوق پورا کرنے کے لئے نہیں بنایا تھا۔ اس معاملے میں پہل بھارت نے کی تھی جس سے ہماری تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ وہ اس خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے۔ اس کی یہ خواہش پوری کرنے میں بعض بڑی طاقتیں بھی برابر کی شریک ہیں۔اس نے ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کو اپنی سلامتی کیلئے جوہری پروگرام شروع کرنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان نے اس کے ایک کے مقابلے میں پانچ دھماکے کر کے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم اپنے ملک کی بقا اور سلامتی کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے پاس مساوی تعداد میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اسی حقیقت نے بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی مہم جوئی سے باز رکھا ہوا ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس نے ایٹمی ہتھیار کسی کے خلاف جارحیت کے لئے نہیں صرف اور صرف اپنے دفاع کے لئے بنائے ہیں۔ اسے دنیا کے تمام امن پسند ممالک کی طرح ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کی تباہ کاریوں کا مکمل ادراک ہے اور اپنی ایٹمی قوت کو پرامن مقاصد کے لئے بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے جوہری کانفرنس سے اپنے خطاب میں درست کہا کہ پاکستان کو اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے اپنی صنعت، زراعت، ہسپتالوں اور تحقیق کے لئے ایٹمی توانائی کی ضرورت ہے۔ چالیس سال سے وہ ایٹمی بجلی گھر چلا رہا ہے مگر بجلی کی قلت دور نہیں ہوئی۔ اس کے لئے اسے مزید ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنا ہیں۔ وہ ایٹمی تابکاری کے خطرات سے بھی آگاہ ہے اور فوگوشیما کے حادثے بعد اس نے جوہری تنصیبات اور مواد کے تحفظ کے لئے مزید اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس نے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بھی اپنے ایٹمی اثاثوں کو بچانے کے لئے فول پروف انتظامات کئے ہیں۔ اسی بنا پر وہ پورے یقین اور اعتماد سے ہر فورم پر اعلان کر رہا ہے کہ اس کے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ایٹمی اثاثوں کے غیرمحفوظ ہونے کا ہوا بھی پاکستان مخالف لابی کا کھڑا کیا ہوا ہے جو اسے جوہری توانائی سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ تاثر بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ ایٹمی سپلائرز گروپ نئے قواعد نافذ کر رہا ہے جس کے باعث چھوٹے ممالک ایٹمی توانائی کے فوائدسے محروم کئے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے اس تاثر کو زائل کرنے اور بین الاقوامی تعاون کے فروغ کے ذریعے ایسے جوہری سلامتی کلچر کی ضرورت پر زور دیا ہے جس میں چھوٹے بڑے تمام ممالک کوایٹمی توانائی کے استعمال کی سہولت حاصل ہو۔دنیا کو اسی طریقے سے محفوظ پر امن اور ترقی یافتہ بنایا جا سکتا ہے ۔
قانون پر عمل لازم
جن معاشروں میں قانون صرف کمزوروں کے لئے ہوتا ہے وہ اپنی بقا کا جواز کھودیتے ہیں۔ اعلیٰ و ادنیٰ، حاکم و محکوم سب کو انصاف کی عدالت میں جوابدہ قرار دینے والی قومیں ہی عزت و سرفرازی کے مرحل طے کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایک مدت تک طاقتور طبقات عملاً قانون سے بالاتر رہے۔ نظریہ ضرورت کی ایجاد نے طاقتوروں کی جانب سے آئین و قانون کی پامالی کے ہراقدام کو جواز عطا کرنے کا مستقل بندوبست کردیا۔ یوں معاشرے میں ظلم اور فساد پر قانون کی گرفت کمزور ہوتی اور مظلوم اور محروم افراد کی داد رسی کی راہیں مسدود ہوتی چلی گئیں۔ لیکن پھر پاکستانی قوم آئین و قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی و خودمختاری کا پرچم تھام کر اٹھی جس کے نتیجے میں آج کوئی طاقتور قانون کی گرفت سے بالاتر نہیں۔ اس حقیقت کا تازہ ترین مظاہرہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں فوج کے دو افسروں پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کے حوالے سے گزشتہ روز سپریم کورٹ کو کرائی جانے والی یقین دہانی کی شکل میں ہوا ہے۔ وفاقی حکومت اور ایف سی کے وکیل نے منگل کے روز عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی میں مبینہ طور پر ملوث دو فوجی افسروں میجر سیف اور میجر معین کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی سفارش کردی گئی ہے اور جلد ہی ان کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی شروع ہوجائے گی۔عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچستان حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے جبکہ فوج نے خود بھی اپنے افسروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ صورت حال واضح طور پر قانون کی جیت ہے۔ فی الحقیقت اس کارروائی کا اصل ہدف محض دو افسروں کے خلاف اقدام نہیں بلکہ اس پورے نظام کی اصلاح ہونا چاہیے جس کے تحت ملک میں برسوں سے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں پاکستانی شہری انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنائے جاتے اور اغواء کرکے لاپتہ کیے جاتے رہے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے غیر منصفانہ واقعات کے اعادے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

کھیل تنگ دلی نہیں سکھاتا
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں جاری ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران مقامی تماشائیوں پر دوسرے ملکوں کی ٹیموں کی حوصلہ افزائی اور ان کے قومی پرچم اسٹیڈیم میں لانے اور لہرانے پر پابندی عائد کرنے کا اقدام کھیلوں کی تاریخ میں بالکل منفرد نوعیت کا حامل نظر آتا ہے۔ بظاہر اس پابندی کی اصل وجہ مقامی شہریوں کی جانب سے پاکستانی ٹیم کے اچھا کھیلنے اور کامیابیاں حاصل کرنے پر کیا جانے والا غیر معمولی اظہار گرمجوشی و مسرت ہے۔تاہم بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ڈائرکٹر کا کہنا ہے کہ یہ پابندی سیکوریٹی وجوہات کی بنیاد پر لگائی گئی ہے۔ وجہ جو بھی ہو یہ بنگلہ دیش حکومت کا یہ فیصلہ کھیل کے جذبے اور روح کے بالکل منافی دکھائی دیتا ہے۔دنیا بھر میں تماشائیوں کی جانب سے تمام امتیازات سے بالاتر ہوکر اچھے کھیل پر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کو اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ سمجھا جاتا ہے ۔ کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کا بنیادی مقصد بھی قوموں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا اور قرب و ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے کھیل کے میدان کو سیاسی اختلافات سے الگ رکھا جانا چاہئے۔
ماضی کی تلخ یادوں سے قطع نظر، پاکستان اور بنگلہ دیش اب برادر اسلامی ملک ہیں۔ ان کے درمیان بھرپور سفارتی ، سماجی اور اقتصادی روابط قائم ہیں۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات دونوں کے قومی اور عوامی مفاد میں ہیں۔ اس بناء پر دونوں ملکوں کی حکومتوں، عوام اور میڈیا کو ایک دوسرے کے خلاف جذبات کو ہوا نہیں دینی چاہیے۔ بنگلہ دیش میں کوئی بھی حکومت ہو اگر وہاں کے عوام نے اسے قبول کررکھا ہے تو پاکستان کے لوگوں کو بھی اس کے خلاف جذبات کی رو میں نہیں بہنا چاہئے۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام کو ماضی کی دوطرفہ غلطیوں کو بھلا کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادے کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں کیونکہ یہی روش دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
تازہ ترین