بات چیت: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ
دنیا بَھر کی طرح پاکستان میں بھی سرطان کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد اِس کا شکار ہوکر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جب کہ اِس ضمن میں بلوچستان جیسے پس ماندہ علاقوں کی صُورتِ حال اِس لیے بھی زیادہ تشویش ناک ہے کہ وہاں ایک طرف تو عوام میں سرطان سے متعلق شعور وآگہی کا فقدان ہے، تو دوسری طرف، علاج معالجے کی ناکافی سہولتیں بھی عوام کے لیے پریشان کُن ہیں۔
اِسی حوالے سے گزشتہ دنوں معروف آنکولوجسٹ، ڈاکٹر ہدایت اللہ کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں سرطان کی وجوہ، علامات اور علاج معالجے کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ڈاکٹر ہدایت اللہ بولان یونی ورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، کوئٹہ میں کنسلٹنٹ میڈیکل آنکولوجسٹ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ ایم بی بی ایس، ایم سی پی ایس (میڈیسن) ایف سی پی ایس آنکولوجی، آغا خان اسپتال کراچی، ماہرِ امراضِ خون، سرطان، معدہ، چھاتی، جگر، سینہ، لمفوما، لیوکیمیا ہیں۔
ایس آئی یو ٹی، کراچی کے سینئر رجسٹرار بھی رہے، جب کہ سوسائٹی آف میڈیکل آنکولوجی پاکستان اور یورپی سوسائٹی آف میڈیکل آنکولوجی کے رُکن بھی ہیں۔ ڈاکٹر ہدایت اللہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: اپنی ابتدائی تعلیم سے متعلق بتائیں اور یہ بھی کہ شعبۂ طب کی جانب کیسے راغب ہوئے؟
ج: مَیں نے 2000ء میں بولان میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ 2010ء میں ہاؤس جاب مکمل کی، پھر آغا خان اسپتال سے کینسر کے شعبے میں تربیت حاصل کی۔ بعدازاں، 2012ء میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگیا۔ مجھے بلوچستان کے پہلے ماہرِ امراضِ سرطان( ایف سی پی ایس اِن آنکولوجی) کا اعزاز حاصل ہے۔ میرا متوسّط، لیکن تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق ہے۔ میری ہم شیرہ بھی مقابلے کا امتحان پاس کر کے بلوچستان کی بیورو کریسی میں کام کر رہی ہیں، جب کہ میری بچپن ہی سے شعبۂ طب میں آنے کی خواہش تھی، جو اللہ تعالیٰ نے پوری کی۔
س: کسی شخص کو کینسر لاحق ہونے کے کیا اسباب ہوتے ہیں اور بلوچستان میں اِس مرض کے تیزی سے پھیلنے، نیز شرحِ اموات میں اضافے کی کیا وجوہ ہیں؟
ج: کینسر ایک جان لیوا مرض ہے اور بہت کم ایسے خاندان ہوں گے، جن کے کسی پیارے نے اِس موذی مرض کے ہاتھوں دُکھ نہ اُٹھایا ہو۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی والدہ، شوکت خانم ہوں یا میاں نواز شریف کی اہلیہ، بیگم کلثوم نواز، اِس مرض کی تباہ کاری سے سب ہی واقف ہیں۔ یہ بیماری امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، جوان اور بوڑھے میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔ عالمی ادارۂ صحت کے اندازے کے مطابق، سالانہ ایک کروڑ افراد اِس مرض کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، جب کہ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ افراد اس کا شکار ہوتے ہیں۔
صرف بریسٹ کینسر سے سالانہ 40ہزار خواتین جاں بحق ہو جاتی ہیں۔ہمارے ہاں زیادہ تر چھاتی، خوراک کی نالی، معدے، حلق، تالو اور پھیپھڑوں کے سرطان سامنے آ رہے ہیں۔ یاد رہے، ایشیائی ممالک میں کینسرز کے سبب سب سے زیادہ شرحِ اموات پاکستان میں ہے اور اس کی اہم وجوہ میں شرحِ خواندگی میں کمی، صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دست یابی، سرطان کی تشخیص و اسباب سے متعلق شعور کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔
سرطان کی عام وجوہ میں تمباکو نوشی کا ہر شکل میں استعمال اہم ہے، جیسے سگریٹ، پان، گٹکے، چھالیا، ماوے، نسوار وغیرہ کی صُورت کہ اِن کے استعمال سے پھیپھڑوں اور حلق یا تالو کے سرطان کے ساتھ، دیگر اقسام کے سرطان کا بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، قدرتی غذائی اجزا سے اجتناب، موٹاپا، پانی اور خوراک میں ملاوٹ، صنعتی، کیمیائی اجزاء کا استعمال اور ہیپاٹائٹس بی یا سی بھی سرطان کے پھیلاؤ کی قابلِ ذکر وجوہ ہیں۔ جہاں تک بلوچستان میں سرطان کے سبب شرحِ اموات میں اضافے کا سوال ہے، تو یہ صوبہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹا، لیکن رقبے کے اعتبار سے وسیع و عریض ہے۔ یہاں علاج معالجے کی سہولتوں کے لیے میلوں سفر طے کرنا پڑتا ہے، پھر یہ کہ تعلیم اور شعور کی بھی خاصی کمی ہے۔ تشخیصی ٹیسٹس وغیرہ کی سہولتیں بھی عام افراد کی دسترس سے بہت دُور ہیں۔
نیز، کینسر کا علاج بہت منہگا بھی ہے، تو یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں کینسرز سے اموات کی شرح بھی زیادہ ہے، حالاں کہ اگر ان افراد کی ابتدائی مراحل میں تشخیص ہو جائے، تو کئی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے یہاں عمومی طور پر ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے مریض بھی دس سے پندرہ سال کے عرصے میں کینسر میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو اگر ہیپا ٹائٹس کا بھی بروقت علاج ہو جائے، تو کینسر کی کسی حد تک روک تھام ممکن ہے۔
صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں گندے پانی سے سبزیاں اُگائی جا رہی ہیں، بلوچستان فوڈ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ نے اگرچہ اس کی روک تھام کے لیے کچھ کارروائیاں بھی کی ہیں، لیکن ہر تھوڑے عرصے بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔
اسی طرح بچّوں میں بازاری، غیر معیاری، رنگ دارمسالوں سے تیار کردہ اسنیکس کے استعمال کے رجحان میں اضافہ بھی سرطان کے پھیلائو کی ایک وجہ ہے۔ اس ضمن میں ماؤں کو چاہیے کہ بچّوں کو گھر ہی میں لنچ وغیرہ کی عادت ڈالیں۔ ٹھیلوں، گلی محلّے کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر فروخت ہونے والی غیر معیاری اشیاء سے بالکل دُور رکھیں۔
س: بریسٹ کینسر کی شرح میں اضافے کی کیا وجوہ ہیں اور روک تھام کیسے ممکن ہے؟
ج: ایشیائی ممالک میں پاکستان بریسٹ کینسر کی سرطان کی شرح کے لحاظ سے سرِفہرست ہے، ہر سال تقریباً90 ہزار خواتین اِس مرض کا شکار ہو رہی ہیں اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایک قابلِ علاج مرض ہونے کے باوجود تشخیص میں تاخیر اور علاج کے ناکافی اقدامات کے سبب یہ سرطان ہزاروں خواتین کے لیے مُہلک ثابت ہو رہا ہے، خصوصاً بلوچستان میں، جہاں زیادہ تر آبادی دیہات میں رہائش پزیر ہے اور صحت کی بنیادی سہولتیں تک میسّر نہیں، صورتِ حال بہت ہی تشویش ناک ہے۔
نیز، خواتین میں شرحِ خواندگی اور شعور کی کمی، صحت کے بنیادی اصولوں سے ناواقفیت اور اس سرطان کی پیچیدگیوں سے لاعلمی جیسے محرّکات بھی مرض میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ بریسٹ کینسر کی چند ایک اہم وجوہ میں بڑھتی عُمر، 12سال سے کم عمر میں ماہ واری کا آغاز اور پچاس سال سے زائد تک جاری رہنا، بچّوں کا نہ ہونا یا پہلے بچّے کی پیدائش تیس سال کی عُمر کے بعد ہونا، بچّوں کو مقرّرہ وقت تک دودھ نہ پلانا، موٹاپا، مرغّن غذائوں کا زیادہ استعمال، قریبی رشتے داروں، والدہ، بہن، نانی، دادی، خالہ میں اِس مرض کا ہونا، مانعِ حمل اور ہارمون ری پلیسمنٹ ادویہ کا طویل عرصے تک استعمال وغیرہ شامل ہیں۔
اِس سرطان کی علامات میں چھاتی میں گلٹی یا سختی پیدا ہونا، مسلسل درد، خون آنا، نپل کا اندر دھنس جانا، اس کا اُلٹا یا ٹیڑھا ہوجانا، بریسٹ کے حجم یا ساخت میں فرق آنا،جلد کی رنگت میں تبدیلی اور بغل میں غدودوں کا بڑھ جانا شامل ہے۔ بدقسمتی سے خواتین کم علمی یا عدم شعور کی وجہ سے علامات کے باوجود کسی کو بتاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں، جب کہ بہت سے گھرانوں میں تو اِس طرح کے امراض میں معالج سے مشورے ہی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔
حالاں کہ اگر بروقت درست تشخیص ہوجائے اور بیماری ابتدائی مراحل ہی میں ہو، تو علاج کا صرف ایک مرحلہ ہوتا ہے، جو نہ صرف نسبتاً آسان، مختصر اور کم خرچ ہوتا ہے، بلکہ ممکنہ مضر اثرات بھی عارضی ہوتے ہیں، جب کہ تاخیر اور بیماری بڑھ جانے کی صُورت میں علاج نہ صرف طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے بلکہ مشکل اور منہگا بھی ہوجاتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کو معمولی نہ سمجھیں، کیوں کہ وہ خود اپنا معائنہ کرکے بیماری کا بروقت پتا لگا سکتی ہیں، جسم میں کسی بھی تبدیلی کی صُورت میں فوری مستند معالج سے رجوع کریں۔ باقاعدہ تشخیص کے لیے میموگرام اور الٹرا ساؤنڈ مستند ٹیسٹس ہیں۔
یاد رہے، یہ عارضہ تب ہی جان لیوا ثابت ہوتا ہے، جب اس کی تشخیص اور علاج میں کوتاہی برتی جائے۔ خواتین، بریسٹ کینسر سے بچاؤ کے لیے صحت بخش طرزِ زندگی اپنائیں، بچّوں کو مقرّرہ وقت تک دودھ پلائیں، مانعِ حمل اور ہارمون ری پلیسمنٹ ادویہ کے ازخود اور بے جا استعمال سے اجتناب برتیں، اپنا وزن بڑھنے نہ دیں ، ورزش کریں، پھلوں اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں۔ دوسری طرف، حکومت کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئیں، جن کی مدد سے خواتین اس کینسر سے متعلق سہولتوں اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ ہوسکیں۔
ڈاکٹرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز، ضلعی اسپتالوں اور بنیادی مراکزِ صحت کے عملے کو بھی خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ خواتین کو آگہی اور خود تشخیصی کے عمل کی تربیت دے سکیں۔ نیز، میمو گرام اور الٹراساؤنڈ کی سہولتوں سے لیس ایسے موبائل یونٹ بھی قائم جائیں، جو مختلف اضلاع میں جاکر خواتین کو طبّی سہولتیں فراہم کرسکیں۔
س: بلوچستان میں سرطان کے علاج معالجے کی سہولتیں کہاں کہاں دست یاب ہیں؟
ج: کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس میں کینسر وارڈ ہے، جب کہ شیخ زید اسپتال میں بھی بلاک تعمیر کیا جا رہا ہے۔ چند برس قبل شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کی باز گشت بھی سُنائی دی تھی، لیکن مزید پیش رفت نہ ہو سکی۔ بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملے 54برس بیت چُکے ہیں، لیکن سرکاری و نجی سطح پر کینسر کا کوئی ایک اسپتال نہیں بنایا جا سکا۔ ہم کراچی کی مثال سامنے رکھیں، تو وہاں ٹرسٹ کے اسپتالوں کی بھر مار ہے۔
مَیں نے ایس آئی یو ٹی میں دو سال تک کام کیا ہے، مخیّر افراد کا اِس ادارے پر اِتنا اعتماد ہے کہ ایک، ایک شخص سالانہ کروڑوں روپے کے عطیات دیتا ہے۔ اِسی طرح انڈس اسپتال میں کینسر میں مبتلا بچّوں کا علاج ہوتا ہے۔ حکومت اور مخیّر افراد کو بلوچستان میں بھی کینسر اسپتال کی تعمیر کے لیے آگے آنا چاہیے۔
نیز، ڈاکٹرز کو بھی اِس شعبے کو ترجیح دینی چاہیے، کیوں کہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اکثر ڈاکٹرز، کینسر کا شعبہ اپنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مَیں نے جب اِس شعبے کا انتخاب کیا، تو کئی دوستوں نے حیرانی کا اظہار کیا، لیکن میری یہی خواہش تھی کہ اسی فیلڈ میں مہارت حاصل کر کے دُکھی انسانیت کی خدمت میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالوں۔
س: کیا پاکستان میں کینسر میں مبتلا مریضوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کا کوئی میکنزم موجود ہے؟
ج: ترقّی یافتہ ممالک جیسا توکوئی نظام موجود نہیں کہ وہاں نیشنل کینسر رجسٹری کا نظام موجود ہے، جس کے ذریعے تمام مریضوں کی باقاعدہ رجسٹریشن ہوتی ہے اور یوں مریضوں کی درست تعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔نیز، اِس نظام سے علاج معالجے کی سہولتوں کی دست یابی اور مرض میں مبتلا ہونے کی وجوہ بھی معلوم کی جا سکتی ہیں۔میری رائے میں تو پاکستان میں بھی حکومتی سطح پر نیشنل کینسر رجسٹری کا بلاتاخیر آغاز ہوجانا چاہیے۔
س: مختلف قسم کے کینسرز سے بچائو کے لیے کون سی احتیاطی تدابیر اور اقدامات ناگزیر ہیں؟
ج: مَیں نے تو ہمیشہ ہر فورم پر یہی بات کی ہے کہ چوں کہ سرطان کا علاج بہت منہگا ہے، تو ہم محض مثبت طرزِ زندگی اپنا کر اپنا علاج خود اور مفت بھی کر سکتے ہیں۔ سگریٹ، پان، گٹکے، چھالیا، نسوار، ماوے کا استعمال اور شراب نوشی نہ صرف انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، بلکہ انھیں تَرک کر کے خاطر خواہ رقم بھی بچائی جا سکتی ہے۔ مذکورہ نقصان دہ اشیا کی بجائے تازہ پھلوں، سبزیوں کے استعمال کی عادت ڈالنی چاہیے، اس طرح نہ صرف ہم خود تن درست رہیں گے، بلکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار بھی ادا کریں گے۔
نیز، مختلف کینسرز کی وجوہ، علامات، تشخیص و علاج سے متعلق شعور و آگہی عام کی جائے۔ اسے نصاب کا حصّہ بنانا چاہیے کہ کینسر دنیا بَھر میں ہر چھے اموات میں سے ایک موت کی وجہ ہے، جب کہ یہ بیماری بہت حد تک قابلِ علاج ہے اور قابلِ بچاؤ بھی۔ کچھ احتیاطی تدابیر اور پرہیز سے نہ صرف اس سے بچاؤ ممکن ہے، بلکہ جڑ سے خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔30 سال یا اس سے زاید عُمر کی خواتین کو اپنا سالانہ طبّی معاینہ کروانا چاہیے۔
جسم کے کسی حصّے میں کوئی گٹھلی محسوس ہو، فوراً مستند معالج سے رجوع کریں۔ نیز، زیادہ عرصے تک کھانسی رہنا، تھوک میں خون کا شامل ہونا، زخم کا جلد ٹھیک نہ ہونا، آواز کا مستقل بیٹھ جانا اور پیٹ کا مسلسل خراب رہنا بھی کینسر کی ابتدائی علامات ہیں۔ جب کہ بلوچستان میں سرطان کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر ہر ضلعے کے سرکاری اسپتال کی او پی ڈیز میں کینسر سے آگاہی کے مراکز قائم کیے جانے چاہئیں۔