• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بڑے بڑے دعوے دار خاموش ہو گئے تو سردار تنویر الیاس خان نے کہا ’’ہم نے پاکستان کا پرچم تھام رکھا ہے اور ہم اس بار جشن آزادی راولاکوٹ آزاد کشمیر میں منائیں گے‘‘۔ انہوں نے مجھ خاکسار سے بھی کہا کہ آپ آئیں اور دیکھیں کہ کشمیری کس شان و شوکت سے پاکستان کا یوم آزادی مناتے ہیں۔ ایک دوست سے کہا کہ اس بار ارادہ ہے کہ یوم آزادی کا جشن، کشمیریوں کیساتھ منایا جائے، کہنے لگا، کیوں؟ پھر اس کیوں کا جواب خود ہی دینے لگا کہ ’’وہاں واقعی اس بات کی ضرورت ہے کیونکہ بجلی کے بلوں کیخلاف بھرپور احتجاج پر وہاں کے چند لوگوں نے اور ہی پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے، اس دوران پاکستان سے محبت کے دعویدار اکثر کشمیری سیاستدان خاموش ہو گئے تو اس خاموشی کو توڑتے ہوئے آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس نے بڑا رسک لیا اور جشن آزادی کو بھرپور طریقے سے منانے کا فیصلہ کیا‘‘، یہ خاکسار 13 اگست کی شام راولاکوٹ پہنچا، راولاکوٹ شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین ہے۔ امریکا میں مقیم فرینڈز آف کشمیر کی چیئر پرسن غزالہ حبیب خان کا تعلق بنیادی طور پر راولاکوٹ سے ہے۔ اسی طرح دفتر خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم اور آزاد کشمیر کے سابق صدر، امریکا میں پاکستان کے موجودہ سفیر مسعود احمد خان کا تعلق بھی راولاکوٹ کے ضلع پونچھ سے ہے۔ معروف قانون دان ایس اے محمود سدوزئی کا تعلق اسی خطے سے ہے، سب سے بڑھ کر غازی ملت سردار ابراہیم خان کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔ یہ سردار ابراہیم ہی تھے جن کے گھر پر الحاق پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی۔ پاکستان کو آزادی 14 اگست کی رات کو ملی جبکہ سردار ابراہیم نے 19 جولائی 1947ء کو سری نگر میں لب دریا اپنے گھر میں کشمیری رہنماؤں کو جمع کر کے الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی۔ سو کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان پاکستان کے قیام سے پہلے کیا، اسلئے بھارتی سرکار کشمیریوں سے بہت نالاں ہے اور وہ کشمیریوں کے ارادے توڑنے کیلئے ہر وقت ظلم کرتی رہتی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہم 13اگست کی شام راولا کوٹ پہنچے،13اور14کی درمیانی رات بارہ بجے تو پورا راولا کوٹ روشنیوں سے بھر گیا، زبردست آتش بازی ہوئی، یوم آزادی پاکستان کے حوالے سے کیک کاٹا گیا۔ یہ سارا بندوبست تنویر الیاس خان نے کیا، اس رات راولاکوٹ کے لوگ بہت خوش تھے، عام طور پر راولاکوٹ جلدی سو جاتا ہے مگر اس رات راولاکوٹ نصف شب سے دو قدم آگے بھی جاگ رہا تھا۔ 14اگست کی سہ پہر’’ہم ہیں پاکستان‘‘ کے زیر عنوان راولاکوٹ کے صابر شہید اسٹیڈیم میں ایک بڑا جلسہ تھا، اس اسٹیڈیم میں پاکستان اور کشمیر کے جھنڈوں کی بہار تھی، اسٹیڈیم کے ایک طرف پاکستان اور کشمیر کے دو بڑے پرچم بنائے گئے تھے، جلسہ گاہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی بلکہ ارد گرد کےگھروں کی چھتوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے، اس جلسے میں خواتین کی قابل ذکر تعداد نے شرکت کی۔ آزاد کشمیر کے مختلف شہروںسے لوگ ٹولیوں کی صورت میں یہاں آئے۔ آغاز میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے قومی ترانے پیش کیے گئے، پاکستان کے کئی معروف گلوکاروں نے ملی نغمے پیش کیے، آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن چوہدری علی شان سونی، سردار احمد صغیر، سردار عدنان سیاب خالد سمیت کئی مقررین نے خطاب کیا، جلسے میں سردار افتخار، عمر تنویر، رضا علی اور عاصم حمید بہت سرگرم نظر آئے ، جلسے سے مرکزی خطاب سردار تنویر الیاس کا تھا، جن کے دادا سردار شریف راولاکوٹ کی سیاست میں بڑے سرگرم رہے۔ وہ ابھی حیات ہیں۔ سردار تنویر الیاس خان نے تقریر کے آغاز ہی میں یہ کہہ دیا کہ’’ہم گا، گی، گے کے چکر سے نکلتے ہیں، ہم پاکستان ہیں، جو کشمیر آزاد ہو چکا ہے، وہ پاکستان ہے، جو ابھی آزاد نہیں ہوا وہ بھی پاکستان ہے مگر اس پہ بھارت نا جائز قابض ہے۔ ہم سید علی گیلانی کے فلسفے پہ قائم ہیں کہ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔

مودی کو نیرج چوپڑا کی ماں کا جملہ یاد رہ گیا جو اس نے ارشد ندیم کے لئے کہا تھا۔ ہم مودی سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں ان ماؤں کا احساس نہیں جن کا تعلق کپواڑہ، پلوامہ، بارہ مولہ اور سری نگر سے ہے، جن کے جوان بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ پوری وادی میں کتنے جوان شہید ہوئے، تمہیں کسی ماں کی آواز سنائی نہیں دی؟ ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے شہیدوں کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں دفن کرتے ہیں، ہم زندہ بھی پاکستانی ہیں، شہید ہو کر بھی پاکستانی ہیں‘‘۔ آزاد کشمیر کا یہ تاریخی جلسہ کئی حوالوں سے یادگار ہے مگر سب سے بڑا حوالہ پاکستان ہے۔ کشمیر پر بھارتی ظلم کو دیکھ کر عبدالستار دانش کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ

نقش ہے ہر ظلم جس کا وادی کشمیر پر

اس نے دہشت گرد لکھا امن کی تصویر پر

تازہ ترین